چیونٹی کی کیا اوقات

ہر مذہب میں آپ چیونٹیوں کی مثال ضرور سنیں گے، پڑھیں گے، جب بھی وہ اتحاد کا ذکر کریں۔



HYDERABAD: چیونٹی کیا ہے؟ شاید کچھ نہیں، ہمارے ادب میں اور عام مروج زبان میں محاورے ہیں ''چیونٹی کی کیا اوقات'' ''چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دیں گے'' اور ایسے کئی محاورے جو یہ بتاتے ہیں کہ چیونٹی کچھ نہیں۔ اب سائنس دانوں کی تحقیقی نظر سے آپ دیکھیں تو چیونٹی ایک کمال کی کاریگر نظر آتی ہے، ان کی زیر زمین بستیاں ہیں، راستے ہیں، کمرے ہیں، اسٹور روم ہیں، انڈوں کے محفوظ کرنے اور ملکہ چیونٹی کے لیے تمام تر انتظامات ہیں۔ چیونٹی نے اپنی قوم کو ایک باقاعدہ نظام کے ساتھ تقسیم کیا ہے۔

اس میں لڑنے والی فوج ہے جس کا ساتھ تمام قوم دیتی ہے جب کوئی نازک وقت آتا ہے۔ غذا کی فراہمی کے کارکن الگ ہیں جو علاقے میں سے غذا تلاش کرتے ہیں۔ ان میں مزید تقسیم ہے اس میں وہ لوگ الگ ہیں جو غذا کے ذخیرے یا موجودگی کی اطلاع دیتے ہیں اور پھر وہ کارکن ہیں جو اس غذا کو وہاں سے حاصل کر کے اپنے محفوظ ذخیرہ کرنے کے علاقوں تک پہنچاتے ہیں۔ایمرجنسی کی صورت میں انڈوں کو وہاں سے منتقل کرنا، غذا کو وہاں سے محفوظ جگہ لے جانا، اپنی پوری قوم کو ڈوبنے، جلنے سے بچانا اور جہاں پل نہ ہو وہاں ''چیونٹی پل'' بنانا تا کہ دوسری چیونٹیوں کو گزرنے کا آسان، محفوظ راستہ مل جائے۔

یہ اس مخلوق کے کارنامے ہیں جن کے بارے میں ہم نے ابتدا میں ایک دو محاورے بیان کیے ہیں۔ مگر آپ دیکھیں کہ یہ وہ مخلوق ہے جس کا دینی کتابوں میں ذکر ہے۔ ہر مذہب میں آپ چیونٹیوں کی مثال ضرور سنیں گے، پڑھیں گے، جب بھی وہ اتحاد کا ذکر کریں۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اس کی طاقت سے زیادہ مہارت کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہاتھی جو روئے زمین پر سب سے بڑا جانور ہے جس کے سانس لینے کی آواز سے جنگل گونجتا ہے اور جس کی سونڈ قدرت کا ایک اور کمال کا مظہر ہے۔ وہ تمام تر قوت کے باوجود جب ایک چیونٹی اس میں داخل ہو جائے تو بے بس ہے۔ ہنر اور فن قوت سے زیادہ بڑا ہے۔

قدرت نے اس بظاہر حقیر نظر آنے والی مخلوق کو ہنر اور فن سے نوازا ہے اور یہ اپنے اس ہنر اور فن سے ہر مشکل کو آسان اور ہر رکاوٹ کو کاٹ کر راستہ بنا لیتی ہے۔دنیا کی کوئی چیز ہو اگر اسے چیونٹیاں ختم کرنا چاہیں تو وہ ان کے دائرہ کار میں اگر ختم کی جا سکتی ہے اور قدرت نے انھیں اس کا ادراک اور فن اور مہارت دی ہے تو وہ اسے ختم کر کے دم لیں گی۔ آپ کو تو علم ہے کہ دنیا کی چند پستہ قد اقوام کو چیونٹیوں سے مشابہہ ہی قرار دیا جاتا رہا ہے اور ان اقوام نے معاشی ترقی میں بڑے بڑے قد آوروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اگر یوں کہا جائے کہ دنیا کے بڑے بڑے معاشی ملکوں نے کچھ کام مجبور ہوکر ان اقوام کے حوالے کر دیے ہیں کیوں کہ جس رفتار سے یہ اقوام وہ کام کرتی ہیں ان بڑے بڑے ملکوں کی ترقی یافتہ فیکٹریاں اس کم لاگت میں وہ سامان تیار نہیں کر سکتیں جو یہ پستہ قد، با حوصلہ، ماہر قومیں کر سکتی ہیں۔آخر وہ کیا چیز ہے جو چیونٹی کو کامیاب کرتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی اس پر غور کیا ہے، خالق کائنات نے وہ کیا چیز اسے ودیعت کی ہے کہ جو اسے ناکام نہیں ہونے دیتی۔ وہ چیز ہے جد وجہد مسلسل کا عزم اور اسے آپ ایک معمولی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک چیونٹی اپنے ''کام'' پر جا رہی ہے اور آپ اسے وہاں سے اٹھا کر کہیں اور رکھ دیں اور اب اس پر نظر رکھیں۔

چاہے کتنا ہی وقت لگے۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ بالآخر وہاں واپس پہنچ جائے گی جہاں سے آپ نے اس کا راستہ ''کھوٹا'' کیا تھا۔ وہاں پہنچ کر وہ دوبارہ اپنے سسٹم کو Arrange کرے گی اور اس ''کام'' پر روانہ ہو جائے گی جو اس نے ہر حال میں کرنا ہے جس کا اسے Order کر دیا گیا ہے اور اس نے آرڈر کی تعمیل ہر صورت میں کرنی ہے تاوقتیکہ کوئی اس کی جان نہ لے لے۔

آپ نے تیمور لنگ کا قصہ بھی پڑھا ہے کہ وہ شکستیں کھا کر ، زخم خوردہ ایک غار میں لیٹا ہوا تھا اور اپنے حالات پر غور کررہا تھا اور تاسف میں مبتلا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک چیونٹی دیوار پر چڑھ رہی ہے اور بار بار گرتی ہے مگر اپنی کوشش کو ترک نہیں کرتی اور بالآخر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو اس کا مقصود تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جو قدرت نے ایک مشاہدے کی صورت تیمور لنگ کو عطا کیا اور جہاں سے اس نے سبق حاصل کیا اور اپنے حوصلوں کو مجتمع کیا اور پھر آپ نے دیکھا کہ منگولوں نے دنیا کا کیا حشر کیا۔یہ الگ بات ہے کہ سبق کیا ملا تھا اور اس نے کیا کیا، مگر قدرت نے اپنی ایک بظاہر حقیر مخلوق کے ذریعے اسے یہ بتایا کہ اگر عزم اور حوصلہ ہو تو ہاری ہوئی بازیاں جیتی جا سکتی ہیں۔ ہم اشرف المخلوقات ہیں۔

قدرت نے ہمیں اشرف المخلوقات قرار دیا ہے اور ہمیں وہ حوصلہ دیا ہے کہ ہم دنیا میں فلاح انسانی کے بہتر سے بہتر فرائض انجام دے سکتے ہیں۔اور ہم کر کیا رہے ہیں۔ جس مثال کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کالم میں اس سے سب سے زیادہ غیر مسلم اقوام نے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین کی مثال آپ کے سامنے ہے دنیا میں سب سے زیادہ آبادی کا ملک اور وہاں ہر شخص کو سکون میسر ہے۔ نہ جان کا خوف ہے نہ مال کے چھن جانے کا خوف، وہاں کوئی ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے نہیں دیکھا، قربانی کی کھالوں کا قضیہ نہیں ہے وہاں، نہ اس قسم کے اور جھگڑے ہیں، وہ ایک مہذب قوم ہیں۔

یہ وہی قوم ہے جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہی چل رہی ہے، شدید افیونی قوم اور دوسری معاشرتی برائیوں میں مبتلا قوم اب کیا بن چکی ہے، اتنے ہی عرصے میں جتنا عرصہ ہماری تنزلی کا ہے ہم مسلسل ترقی معکوس کر رہے ہیں۔ پستہ کا سفر اور وہ حقیقی ترقی کر رہے ہیں۔

وہ جو چیونٹیوں کی طرح تعداد میں کھربوں ہیں انھوں نے تنظیم، اتحاد، یقین اور جہد مسلسل کے اصولوں کو اپنا لیا ہے اور آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم جن کا یہ اثاثہ تھا ہم مسلسل ناکامیوں کا سفر کر رہے ہیں۔ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ کو مایوسیوں کے اندھیروں کا راستہ دکھائوں۔ میں آپ سے روٹھی ہوئی روشنیوں کی بات کرتا ہوں۔ یہ ہمارا انتظار کر رہی ہیں کہ کب ہم ان تک پہنچتے ہیں۔ کب ہم ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ملک کے موجودہ حالات بے حد خطرناک ہیں اور سیاسی کھیل بہت مشکل صورت حال میں جا چکا ہے۔

ملک کی سیاسی جماعتیں باہمی دست و گریباں ہیں۔ ملک اور قوم کے بجائے جماعتوں کی بقا کا ''کام'' ہو رہا ہے۔ ''مفاہمت'' کی باتیں کرنے والے اب وہ راستہ چھوڑ کر تصادم یا مصنوعی تصادم جو آپ بہتر سمجھتے ہوں کی طرف گامزن ہیں۔

یہ قوم ایک ملک میں رہتی ہے جس کا نام ''پاکستان'' ہے کوئی بھی جب ملک سے باہر جاتا ہے تو صرف پاکستان رہتا ہے اور ملک میں واپس آتے ہی پنجابی، پٹھان، بلوچ، سندھی اور اردو اسپیکنگ بن جاتا ہے۔اور کسی سے نہیں تو اﷲ کی اس مخلوق سے چیونٹی سے ہی سبق حاصل کر لیں ہم کہ جن کا پہلا اصول '' اتحاد'' ہے اور جس پہلے اصول کو ہم نے توڑا ہے وہ ''اتحاد'' ہے دوسرا اصول ''عمل'' ہے اور ہم نے جو دوسرا اصول فراموش کیا ہے وہ ''عمل'' ہے ہم کام کیے بغیر مفت کا فائدہ چاہتے ہیں۔

ان کا تیسرا اصول ''مستقبل کی منصوبہ بندی'' ہے ہم نے مستقبل کو مستقبل کے حوالے کر دیا ہے کہ جس پر ابھی غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے بجلی، گیس، ترقیاتی منصوبے، ''ذاتی انا کے منصوبے'' بن چکے ہیں حکومت پاکستان کو حکومت پاکستان ہونا چاہیے، تنظیم، عمل اور جدوجہد کی مثال ہر ایک کے ساتھ مساوی سلوک، ملک کا مفاد اول تب ہی ہم ایک اچھی قوم، ایک اچھا ملک بن سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں