مسائل حل کیسے ہوں

وام خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، وہ حکومت، حکمرانوں یا ان کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں رکھتے۔


ذوالقرنین زیدی November 19, 2014

NANKANA SAHIB: حکومت کہتی ہے مسائل سنگین نوعیت کے ہیں، دنوں میں حل نہیں ہو سکتے۔ چلیں مان لیا، یہ سنگین مسائل دنوں میں حل نہیں ہو سکتے، ہفتوں میں نہیں، تو کیا مہینوں میں بھی حل نہیں ہو سکتے؟ پھر تو یہ طے ہے کہ یہ مسائل برسوں اور صدیوں میں بھی حل نہیں ہو سکتے، اور حکومت کا ڈریم ویژن 2025ء بھی صرف طویل اقتدار کی خواہش ہی کا ایک نام ہے، ورنہ یہ حقیقت کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی جمہوری حکومت پانچ سال ہی پورے کر لے تو غنیمت ہے؟

کسی بھی سیاسی وابستگی یا ہمدردی سے بالاتر ہو کر اگر تھوڑی دیر کے لیے غیر جانبداری کے ساتھ غور کریں تو ہم بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ہمارے نام نہاد سیاستدان جن ''سیاست کاریوں'' کے ذریعے ہمارے رہنما بن بیٹھتے ہیں، وہ دراصل رہنمائی نہیں بلکہ ملک اور قوم کو گمراہی اور تباہی کی جانب لے جانے کے حربے ہیں، ان نام نہادوں کا مقصد صرف اور صرف مال سمیٹنا، مراعات سے فائدہ اٹھانا اور اقتدار حاصل کرنا، اقتدار بچانا یا اقتدار کو طول دینا ہوتا ہے۔

جس کے لیے وہ ملک اور قوم کی عزت و آبرو بھی داؤ پر لگانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ایسا نہیں کہ پاکستان کے عوام یہ سب ڈرامے بازیاں سمجھتے نہیں ہیں، وہ سب جانتے ہیں لیکن ''خفیہ ہاتھوں'' کے وہ بھی یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ عوام خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، وہ حکومت، حکمرانوں یا ان کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں رکھتے، عوام جانتے ہیں کہ سڑسٹھ برسوں میں ان کے ساتھ ہمیشہ جھوٹ بولا گیا، کسی بھی حکومت نے انھیں اپنی پالیسیوں میں شریک نہیں کیا اور تمام فیصلے عوام کی خواہشات کے خلاف ہی کرتی رہیں۔ حکمرانوں نے وہی منصوبے شروع کیے۔

جن میں ان کا اپنا فائدہ تھا، خالصتاَ عوام کو فائدہ پہنچانے والے منصوبوں پر کبھی کام نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں عوام کو فقط دکھ اور رنج ہی ملا۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، احساس عدم تحفظ، بدامنی، دہشتگردی، بم دھماکے، خودکش حملے، ناانصافیاں، رشوت، بدعنوانی، چوربازاری، لوٹ مار، ملاوٹ، کم تول، زائد نرخوں پر اشیا کی فروخت، غیرمعیاری کھانے اور ادویہ... اگرچہ یہ سب عوام ہی کر رہے ہیں، مگر سب تو نہیں، جو کر رہے ہیں ان کا ہاتھ کیوں نہیں روکا جا رہا، راشی اور کرپٹ عناصر کو کیوں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے؟ ذمے دار کیسے اپنی گردنیں بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟

واہگہ بارڈر پر خودکش حملہ ہوتا ہے تو پنجاب حکومت ملبہ رینجرز پر ڈال دیتی ہے، رینجرز حکام کہتے ہیں کہ ہم نے تو بڑا حادثہ ہونے سے بچا لیا، تفتیشی ادارے کہتے ہیں کہ بارود افغانستان سے لایا گیا، کسٹمز چیک پوسٹ والے کہتے ہیں کہ مال چیک پوسٹ سے پہلے ہی اتار لیا گیا تھا ... بس معاملہ پڑا کھوہ کھاتے۔ کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ واقعہ پنجاب میں ہوا تو پنجاب حکومت کیوں ذمے دار نہیں؟ سیکیورٹی رینجرز کے سپرد تھی اور خدشہ بھی ظاہر کردیا گیا تھا تو وہ کیوں ذمے داری لینے کو تیار نہیں؟ اسمگلنگ کا مال چیک پوسٹ سے چند کلومیٹر پہلے ہی اتار دیا جاتا ہے۔

یہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے؟ گاڑیوں سے اتار کر گدھوں پر لاد کر، چیک پوسٹوں سے ذرا ہٹا کر، چند کلومیٹر دور سے، کیا یہی مال سڑکوں پر لا کر دوبارہ گاڑیوں میں لوڈ نہیں کیا جاتا؟ (بسا اوقات مسافروں کو اس چکر میں کئی گھنٹے انتظار کی زحمت بھی اٹھانا پڑتی ہے)۔ اسمگلنگ کا یہ طریقہ کار ان روٹس پر سفر کرنے والے سبھی جانتے ہیں، اگر نہیں جانتے تو متعلقہ حکام، خفیہ ایجنسیاں اور یہ ''بچہ جمہورا حکومتیں''۔ کیا یہ نظام خود حکومتوں اور حکمرانوں نے ہی ایسے نہیں بنا رکھے کہ اصل ذمے دار پکڑے نہ جا سکیں؟ کہیں قانون کا ہاتھ خود ان کے اپنے گریبانوں تک نہ پہنچ جائے؟

بات چھڑتی ہے انسانی حقوق کی تو ہنسی آتی ہے کبھی انسان کو انسان کہنے پر، تو کبھی حق کو حق سمجھنے پر، کسی جج کو ہچکی بھی آجائے تو بات انسانی حقوق تک پہنچ جاتی ہے کہ کسی نے بے وقت انھیں یاد کرکے ان کے آرام میں خلل ڈالا، اور تھر کے صحراؤں میں بچے بھوک سے بلک بلک کر مرتے رہیں تو کوئی ذمے دار نہیں ملتا، آٹے کی بوریوں میں مٹی ڈال کر غربت کی چکی میں پستے لوگوں کی لاچاری کا مذاق اڑانے پر کسی کی غیرت نہیں جاگتی۔

ایک حکومتی نمایندہ بڑے غصیلے اور جوشیلے انداز میں کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں روزانہ 600 بچے مرتے ہیں، تھر میں 2 مرجاتے ہیں تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ہے۔ آفرین ہے ان حکمرانوں کو جن کے پاس لوٹ مار کی دولت کے انبار لگے ہیں، ذرا پوچھیے ان سے جن کے لخت جگر مرتے ہیں۔ چلیں اگر موصوف ہی کے دو بچے کسی ایسی بیماری سے مرجائیں جو بھوکوں کو لگتی ہیں اور افسوس کے لیے جانے والے یہی جملہ دہرائیں کیا ہوا جو 2 مر گئے؟ تو کیا گزرے گی ان پر؟

تھر کے بے بسوں کے لیے حکومت کے اقدامات بھی سب کے سامنے ہیں، اربوں روپے کی کرپشن کے اسکینڈلز سامنے آنے کے باوجود، گندم کی بوریوں میں مٹی بھر کر بھیجنے والوں کو کیا سزا دی جانی چاہیے؟ اور انھیں اتنی جرات کا موقع فراہم کرنے والے افسران کے ساتھ کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے؟ یہ نہ تو ''اندھا قانون'' بتا سکتا ہے اور نہ یہ قانون ساز اندھے۔فیصل آباد ہی کے ایک چلڈرن اسپتال کو دیکھ لیجیے، جہاں 9 ماہ میں 2 ہزار 100 بچے طبی سہولتیں نہ ملنے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اسپتال کے ایم ایس نے نہ صرف اعتراف کیا بلکہ بتایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہاں ہر سال ہی 3 ہزار کے قریب بچے کسی نہ کسی وجہ سے مرجاتے ہیں، اور یہ کوئی بڑی بات نہیں، کیونکہ ایسا دوسرے اسپتالوں میں بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے لاہور کے ایک چلڈرن اسپتال کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں بچوں کی اموات کی شرح ان کے اسپتال سے کہیں زیادہ ہے۔ایسی داستانیں تو ہمارے ملک میں بھری پڑی ہیں، مگر ہمارے حکمرانوں کی بے حسی جتنا بھی ماتم کرلیا جائے کم ہے، یہ لوگ 42 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک میں لاکر غربت ختم کرنے کے خواہشمند ہیں، یہ بھوکوں کو کیک کھانے کے مشورے دینے والے، کسی حادثے اور کسی سانحے پر، بم دھماکوں یا خود کش حملوں میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاؑع پر 'شدید مذمت' ہی کرسکتے ہیں، یہ افسوس کا اظہار کر سکتے ہیں یا 'نوٹس' لے کر 'رپورٹ طلب' کر سکتے ہیں۔

یہ 'لواحقین سے اظہار ہمدردی' اور 'امداد کے اعلان' کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اگر میڈیا، عدلیہ یا کسی کمیونٹی وغیرہ کا کوئی دباؤ ہو تو پھر کبھی نہ نکلنے والی 'کمیٹی' اور 'کمیشن' کے ذریعے معاملے کو دفن کر دینے کے علاوہ ان کا اختیار ہی کتنا ہے؟، یہ اپنی نااہلیوں اور کوتاہیوں کو ''فرضی کرداروں'' کے کھاتے میں ڈال کر چھپاتے ہیں، یہ اپنی کوتاہی کو ''بیرونی ہاتھ'' قرار دے کر ''بری الذمہ'' ہو جاتے ہیں۔

عوام اب بہت کچھ جان چکے ہیں، وہ اپنی فہم و فراست کے اعتبار سے غلط یا صحیح کے اندازے بھی لگاتے ہیں۔ آپ نچلے طبقے کے عام لوگوں کی رائے لے کر دیکھ لیجیے، وہ آپ سے یہی کہیں گے کہ دہشت گردی اور بدامنی حکومت خود کراتی ہے۔ ایسا اسی لیے ہے کہ عوام وہ سب دیکھ رہے ہیں جو ان کے ساتھ کیا جارہا ہے، وہ اب جاننے لگے ہیں کہ ہماری حکومتیں عوام کو طفل تسلیاں دیتی ہیں، وہ بڑے مجرموں پر ہاتھ ڈالنا ہی نہیں چاہتیں، وہ ایسی قانون سازی کرنا ہی نہیں چاہتیں جس کے ذریعے راشی اور بدعنوانوں کو پھانسی پر لٹکایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں