آئی او سی نے اولمپکس کے مشترکہ انعقاد کی راہ کھول دی

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اولمپکس کے لیے ایک سے زائد شہر یا ملک کو میزبانی کا موقع فراہم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔


Sports Desk November 19, 2014
مستقبل کے اولمپکس میزبان ممالک کو بھی شہر کے باہر ایونٹس منعقد کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

آئی او سی نے اولمپکس کے مشترکہ انعقاد کی راہ کھول دی،گیمز کے لیے سستی اور آسان بڈنگ متعارف کرائی جائے گی۔

تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے لاگت میں کمی اور گیمز کو زیادہ سے زیادہ توجہ طلب بنانے کے لیے گذشتہ روز اولمپکس کے لیے ایک سے زائد شہر یا ملک کو میزبانی کا موقع فراہم کرنے کی اجازت دے دی ہے، آئی او سی کافی عرصے سے مختلف ممالک اور شہروں کی دنیا کے سب سے بڑے ملٹی اسپورٹس ایونٹ کے لیے مشترکہ میزبانی کی کوششوں کو نظر انداز کررہی تھی ، اس کا کہنا تھا کہ اس سے ایتھلیٹس اور شائقین کے شوق میں کمی آئے گی، البتہ اب صدر تھومس باخ نے کہاکہ ایسا ممکن ہے۔

دسمبر میں ووٹنگ کے موقع پر تبدیلیوں کے لیے آئی او سی کی 40 سفارشات پیش کرنے کے لیے باخ نے اولمپکس کے مقابلوں کی میزبانی کے لیے ایک اور شہر یا ملک کی شمولیت کی وجوہات کے بارے میں میڈیاکو بتایا۔ 2013 میں صدارت سنبھالنے کے بعد آئی او سی میں تبدیلیوں پر زور دینے والے باخ نے کہاکہ ونٹر گیمز میں ایک شہر یا ریجن میں95 فیصد سہولیات موجود جبکہ بقایا میسر نہیں ہوتی ہیں، اس لیے کیوں نہ ایک اور شہر یا ملک کیلیے داخلہ ممکن بنایا جائے؟

آئی او سی کے پاس گذشتہ مشترکہ بڈ پولینڈ کے کراکوؤ نے جمع کرائی تھی، اس نے رواں برس کے اوائل میں 2022 ونٹر اولمپکس کی بڈ واپس لینے سے قبل پڑوسی ملک سلواکیہ میں چند مقابلوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ باخ نے کہاکہ اگر آپ ایک چھوٹا ملک ہیں اورکشتی رانی کیلیے جھیل موجود نہیں تو کیوں نہ پڑوسی ملک کی خدمات حاصل کرلی جائیں، یہ اب بھی ایک ہی شہر کی بڈ شمار کی جائیگی جسے دوسرے پارٹنرز کا ساتھ شامل ہوگا۔

دریں اثنا آئی او سی کے مطابق گیمزکی بڈنگ کو سستا، آسان اور شہروں کی مزید توجہ کیلیے بنایا جارہا ہے، اگر دسمبر میٹنگ میں سفارشات پر اتفاق ہو گیا تو بڈ دینے والے شہروں کو آئی او سی کی سخت شرائط پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، مستقبل کے اولمپکس میزبان ممالک کو بھی شہر کے باہر ایونٹس منعقد کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں