پاکستان ایک نظر میں افسوس دہشتگردی اور پاکستان ایک بار پھر ساتھ ساتھ
ہمیں اپنےگریبان میں جھانکنا ہوگا کہ ہم اپنےدین اوررسول ﷺکی تعلیما ت پرعمل کررہےہیں یا پھرجگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ پوری دنیا اِس وقت دہشتگردی سے خوفزدہ ہے تو شاید آپ مجھ سے اختلاف نہ کرسکیں ، ہاں یہ بات الگ ہے کچھ ممالک اِس دہشتگردی سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور کچھ ممالک اُس نقصان کے سبب خوفزدہ ہیں کہ کہیں اُن کا بھی وہی حال نہ ہوجائے۔
امن کی خا طر قائم کردہ دنیا کا سب سے بڑا عالمی ادارہ اگرچہ اپنے باقی تمام مقاصد کے حصول کے لیے ٹھیک سمت میں کام کررہا ہوگا مگر شدت پسندی کے شعلوں کے سامنے ، برف کی دیوار کی مانند لگتا ہے۔ دنیا کے ہر خطے خصوصاً مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک عالمی طاقتیں محض تما شائی بنی دکھا ئی دیتی ہیں۔ عالمی سطح پر سوائے اجلاس ، سروے یا متا ثرہ علاقوں کے دوروں کے سوا کوئی پیش رفت دکھا ئی نہیں دیتی۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ داعش جیسی گمنا م تنظیم کو بین الاقوامی شہرت دلانے میں کس کا ہا تھ ہے؟ اور اسی داعش کے ہاتھوں بے گنا ہ شامیوں اور عراقیوں کے لہو کی ہولی کھلینا آخر کس کے مفاد میں ہے؟ نا ئجیریا میں اسلامی ریا ست کیا بوکو حرام کی شدت پسندانہ کاروائیوں کے بعد ہی آسکتی ہے؟ کیا کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی نسل کشی کے بعد ہی حل ہو سکتا ہے؟ افغا نستان میں آئے روز دھماکوں کے بعد ہی غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ممکن ہو سکتا ہے۔ آخر ہر مسئلے کا حل شدت پسندانہ رویہ ہی کیوں بن چکا ہے۔ ہانگ کا نگ مظاہرے ہو ں یابرطانوی پا رلیمنٹ پر حملہ، برکینا فاسو سے ما ر شل لا کا خا تمہ ہو یا شمالی کوریا کے یوم آزدای پر جنوبی کوریا کے خلاف غبا رے اڑانے کی تقریب، امریکا میں صدر کی نا قص کا رکردگی ہو یا اٹلی میں طلبہ کی گمشدگی کا معاملہ، ہر ایک مسئلے کا حل احتجاج ہے۔ ایشیا میں مظاہروں کا رواج تو عام تھا ہی لیکن یورپ میں بھی حالیہ برس دھرنوں اور ان کے نتیجے میں تصادم میں کئی گنا اضا فہ ہوا ہے۔
گلوبل ٹیرررزم انڈیکس کے مطا بق پر تشدد واقعات کی ایک وجہ حکومت کی سرپرستی میں کیے جانے والی تشدد کی کاروائیاں ہیں۔ شدت پسندی سطح میں مجموعی طور پر اضا فہ ہو رہا ہے۔ شدت پسندی اب ہر رنگ میں دکھا ئی دیتی ہے ، ہر نسل اس کا شکار ہے۔لیکن اس کا شاخسانہ ہمیشہ ترقی پذیر ممالک ہی بنتے ہیں۔ حال ہی میں دہشت گردی کے عالمی جا ئزے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں حالیہ برس میں دس ہزار پر تشدد واقعات کا انکشاف کیا ہے۔ جن میں سے زیادہ تر ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں پیش آئے ہیں۔ان ممالک میں یورپی ممالک کا نام سب سے نچلے درجے پر ہے جبکہ پا کستان سمیت ایشیا کے کئی ممالک سر فہرست ہیں۔
دنیا میں جہاں کئی بھی رینکنگ کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلا سوال یہی دما غ میں اٹھتا ہے کہ پا کستان اس فہرست میں کہاں ہے۔ تو دہشت گردی کی بات ہو اور پاکستان کی بات نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ شدت پسندانہ واقعات میں جہاں عراق پہلے نمبر ہے وہی پاکستان تیسرے نمبر جبکہ بھارت پا نچویں نمبر پر ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں سے چودہ ہزار کا تعلق ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ علاقوں سے ہے۔ خوش آئند با ت یہ ہے کہ کچھ اسلامی ممالک ابھی تک ان 162 ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں جو شدت پسندی کا شکار ہیں لیکن ان ممالک کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
لیکن قابل غور بات یہ بھی ہے کہ عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا میں جتنے بھی پر تشدد واقعات رونما ہوئے ہیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی مذہبی جماعت کا ہی ہا تھ ہے۔ آج دنیا میں چار بڑی شدت پسندانہ جما عتیں اپنا تسلط قا ئم کرنے میں مصروف ہیں اور یہ چا ر بڑی جماعتیں اسلام کے نفاذ کی دعویدار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کونسا اسلام ہے جو بے گنا ہوں کے لہو کی آبیا ری سے سیراب ہو رہا ہے؟ یہ کس مذہب کی تعلیمات ہیں جن کے تحت معصوم لوگوں کو ان کے ملک سے دربدر کر کے مہا جرین جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جائے؟ یہ کیسی اسلامی ریا ست ہے جہاں مدارس سے بچیوں کو اغوا کر لیا جائے اور پھر ان کے والدین کی مرضی کے خلاف ان کی شا دیا ں کرا کے انھیں تا حیات اپنا غلام بنا لیا جا ئے۔ یہ اسلا م نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ اسلامی تعلیما ت ہیں۔ ہم اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا پڑے گا کہ ہم اپنے دین اور اپنے رسول ﷺ کی تعلیما ت پر عمل کر رہے ہیں یا اسلام پر جگ ہنسائی کا با عث بن رہے ہیں۔ اگر ہم صحیح معنوں میں اسلام کی ترقیج چا ہتے ہیں تو ہمیں کسی تنظیم یا تحریک کی بیسا کھی کی ضرورت نہیں ہے ہمارا کردار ہی اسلام کو پھیلانے کے لیے ہما را سہا را بن سکتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
امن کی خا طر قائم کردہ دنیا کا سب سے بڑا عالمی ادارہ اگرچہ اپنے باقی تمام مقاصد کے حصول کے لیے ٹھیک سمت میں کام کررہا ہوگا مگر شدت پسندی کے شعلوں کے سامنے ، برف کی دیوار کی مانند لگتا ہے۔ دنیا کے ہر خطے خصوصاً مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک عالمی طاقتیں محض تما شائی بنی دکھا ئی دیتی ہیں۔ عالمی سطح پر سوائے اجلاس ، سروے یا متا ثرہ علاقوں کے دوروں کے سوا کوئی پیش رفت دکھا ئی نہیں دیتی۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ داعش جیسی گمنا م تنظیم کو بین الاقوامی شہرت دلانے میں کس کا ہا تھ ہے؟ اور اسی داعش کے ہاتھوں بے گنا ہ شامیوں اور عراقیوں کے لہو کی ہولی کھلینا آخر کس کے مفاد میں ہے؟ نا ئجیریا میں اسلامی ریا ست کیا بوکو حرام کی شدت پسندانہ کاروائیوں کے بعد ہی آسکتی ہے؟ کیا کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی نسل کشی کے بعد ہی حل ہو سکتا ہے؟ افغا نستان میں آئے روز دھماکوں کے بعد ہی غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ممکن ہو سکتا ہے۔ آخر ہر مسئلے کا حل شدت پسندانہ رویہ ہی کیوں بن چکا ہے۔ ہانگ کا نگ مظاہرے ہو ں یابرطانوی پا رلیمنٹ پر حملہ، برکینا فاسو سے ما ر شل لا کا خا تمہ ہو یا شمالی کوریا کے یوم آزدای پر جنوبی کوریا کے خلاف غبا رے اڑانے کی تقریب، امریکا میں صدر کی نا قص کا رکردگی ہو یا اٹلی میں طلبہ کی گمشدگی کا معاملہ، ہر ایک مسئلے کا حل احتجاج ہے۔ ایشیا میں مظاہروں کا رواج تو عام تھا ہی لیکن یورپ میں بھی حالیہ برس دھرنوں اور ان کے نتیجے میں تصادم میں کئی گنا اضا فہ ہوا ہے۔
گلوبل ٹیرررزم انڈیکس کے مطا بق پر تشدد واقعات کی ایک وجہ حکومت کی سرپرستی میں کیے جانے والی تشدد کی کاروائیاں ہیں۔ شدت پسندی سطح میں مجموعی طور پر اضا فہ ہو رہا ہے۔ شدت پسندی اب ہر رنگ میں دکھا ئی دیتی ہے ، ہر نسل اس کا شکار ہے۔لیکن اس کا شاخسانہ ہمیشہ ترقی پذیر ممالک ہی بنتے ہیں۔ حال ہی میں دہشت گردی کے عالمی جا ئزے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں حالیہ برس میں دس ہزار پر تشدد واقعات کا انکشاف کیا ہے۔ جن میں سے زیادہ تر ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں پیش آئے ہیں۔ان ممالک میں یورپی ممالک کا نام سب سے نچلے درجے پر ہے جبکہ پا کستان سمیت ایشیا کے کئی ممالک سر فہرست ہیں۔
دنیا میں جہاں کئی بھی رینکنگ کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلا سوال یہی دما غ میں اٹھتا ہے کہ پا کستان اس فہرست میں کہاں ہے۔ تو دہشت گردی کی بات ہو اور پاکستان کی بات نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ شدت پسندانہ واقعات میں جہاں عراق پہلے نمبر ہے وہی پاکستان تیسرے نمبر جبکہ بھارت پا نچویں نمبر پر ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں سے چودہ ہزار کا تعلق ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ علاقوں سے ہے۔ خوش آئند با ت یہ ہے کہ کچھ اسلامی ممالک ابھی تک ان 162 ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں جو شدت پسندی کا شکار ہیں لیکن ان ممالک کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
لیکن قابل غور بات یہ بھی ہے کہ عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا میں جتنے بھی پر تشدد واقعات رونما ہوئے ہیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی مذہبی جماعت کا ہی ہا تھ ہے۔ آج دنیا میں چار بڑی شدت پسندانہ جما عتیں اپنا تسلط قا ئم کرنے میں مصروف ہیں اور یہ چا ر بڑی جماعتیں اسلام کے نفاذ کی دعویدار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کونسا اسلام ہے جو بے گنا ہوں کے لہو کی آبیا ری سے سیراب ہو رہا ہے؟ یہ کس مذہب کی تعلیمات ہیں جن کے تحت معصوم لوگوں کو ان کے ملک سے دربدر کر کے مہا جرین جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جائے؟ یہ کیسی اسلامی ریا ست ہے جہاں مدارس سے بچیوں کو اغوا کر لیا جائے اور پھر ان کے والدین کی مرضی کے خلاف ان کی شا دیا ں کرا کے انھیں تا حیات اپنا غلام بنا لیا جا ئے۔ یہ اسلا م نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ اسلامی تعلیما ت ہیں۔ ہم اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا پڑے گا کہ ہم اپنے دین اور اپنے رسول ﷺ کی تعلیما ت پر عمل کر رہے ہیں یا اسلام پر جگ ہنسائی کا با عث بن رہے ہیں۔ اگر ہم صحیح معنوں میں اسلام کی ترقیج چا ہتے ہیں تو ہمیں کسی تنظیم یا تحریک کی بیسا کھی کی ضرورت نہیں ہے ہمارا کردار ہی اسلام کو پھیلانے کے لیے ہما را سہا را بن سکتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔