سندھ اور تحریک انصاف
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی 1988ء کےبعد ہونے والے تمام تر انتخابات کی وجہ سے سندھ کی اصل طاقتیں بن کرنمایاں ہوئی ہیں۔
مئی 2013ء کے انتخابات کے فوری بعد ہونے والے کئی ہفتوں میں بارہا میں اس کالم میں اصرار کرتا رہا کہ سندھ کے شہری اور دیہی حلقوں میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود تحریک انصاف کو جو متاثر کن ووٹ ملے ہیں وہ اس جماعت کے مستقبل کے لیے بہت خوش آیند ہیں۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی 1988ء کے بعد ہونے والے تمام تر انتخابات کی وجہ سے سندھ کی اصل طاقتیں بن کر نمایاں ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم نے بتدریج خود کو نام نہاد شہری سندھ کا اجارہ دار بنا لیا اور جواباً پیپلز پارٹی خود کو سندھ کی اصل آواز ثابت کرنے کی ضد میں مبتلا ہوگئی۔ نواز شریف کے گزشتہ دو ادوار اور مشرف کے نو سالوں میں پیپلز پارٹی سے ناراض اپنی ذات میں انجمن نوعیت کے وڈیروں کو کبھی نواز، کبھی پیرپگاڑا اور بالآخر چوہدری شجاعت حسین کی پاکستان مسلم لیگ میں جمع کرنے کے بعد ایم کیو ایم کے تعاون سے مخلوط حکومتیں بنائی گئیں۔
ایسی حکومتوں نے متحدہ کی شہروں میں بالادستی کو مضبوط تر بنا دیا۔ شاید معاملات اسی صورت مزید کئی برس تک چلتے رہتے۔ مگر 2008ء کے بعد آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو ہر صورت اپنے ساتھ رکھنے کا تہیہ کرلیا۔ چھوٹی موٹی مگر آئے روز کی چپقلشوں کے باوجود یہ دونوں جماعتیں پانچ سال تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں ایک ساتھ بیٹھی رہیں۔ ان دونوں کے اس بھائی چارے نے مگر سندھ میں 1970ء کی دہائی سے ابھری لسانی اور نسلی تفریق کو ختم نہ سہی تھوڑا کم کرنے میں بھی کوئی مدد نہ کی۔ ان دونوں جماعتوں کے متحرک کارکن اپنے لیڈروں کی سیاسی محبتوں کے منافقانہ اظہار کے باوجود ایک دوسرے سے متنفر ہی رہے۔
سندھ کو ان دونوں جماعتوں کا بھائی چارہ گڈ گورننس کی ذرا سی جھلک بھی نہ دکھا پایا۔ عصبیت کی بنیاد پر سیاست کے ذریعے بلکہ کراچی میں موجود دوسرے نسلی گروہوں نے بھی اپنے اپنے نو گو ایریاز قائم کرنا شروع کردیے۔ نوگو ایریاز بنانے کے بعد ان پر کنٹرول کے جنگیں شروع ہوگئیں۔ لیاری اور پشتون آبادی والے علاقوں میں سیاستدانوں کے بجائے وارلارڈز نے ابھرنا شروع کردیا۔
اس صورت حال میں نچلے اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوان خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل گروہ سے تھا بڑے خلوص سے کسی ایسی سیاسی جماعت کا انتظار کرنا شروع ہوگئے جو نسلی اور لسانی تفریق سے بالاتر ہوکر سندھ کو امن وامان، معاشی ترقی اور گڈگورننس فراہم کرسکے۔ کپتان اور ان کی تحریک انصاف میں انھوں نے یہ امکانات دیکھے۔ تحریک انصاف کی مقامی اور مرکزی قیادت نوجوانوں کے دلوں میں پلتے ان جذبات کا پوری طرح اندازہ نہ لگا پائی۔ ''خوفِ فسادِ خلق'' سے عمران خان کراچی کو مسلسل نظرانداز کرتے رہے۔
ان کی عدم دلچسپی کے باوجود کراچی کے کئی علاقوں میں نوجوانوں نے ازخود منظم اور متحرک ہوکر تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کی حمایت میں مئی 2013ء کے انتخابات کے دوران دن رات کام کیا۔ ان کے جذبے اور جنون کی سب سے نمایاں مثال ہمیں ڈاکٹر عارف علوی کے حلقے میں نظر آئی۔ مئی 2013ء کے انتخابی نتائج آجانے کے بعد تحریک انصاف کو اپنے امکانات کی دریافت کے بعد کسی طویل المدتی حکمت عملی کے تحت سندھ میں متحرک ہوجانا چاہیے تھا۔ اسپتال سے صحت یاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچنے کے بعد عمران خان مگر پنجاب کے ''چار حلقوں'' کے انتخابی نتائج کے فرانزک آڈٹ کی ضد میں مبتلا ہوگئے اور سندھ میں موجود اپنی ابھرتی ہوئی Constituencyکو بھول بھال گئے۔
بہت دیر کے بعد اب ایک بار پھر عمران خان کو سندھ کی یاد آئی ہے۔ لاڑکانہ میں وہ 21نومبر کو ایک جلسے سے خطاب کررہے ہیں۔ یہ جلسہ ''تاریخی'' ہوگا یا نہیں میری نظر میں ایک فروعی سوال ہے۔ اس شہر کی انڑ برادری گزشتہ کئی برسوں سے لاڑکانہ میں اپنا طاقتور وجود دنیا کو دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔ چانڈیو قبائل کا ایک معتدبہ حصہ جو قمبر اور شہداد کوٹ کا رہائشی ہے پیپلز پارٹی سے بہت زیادہ خوش نہیں۔ مگسیوں کے کچھ خاندان آصف علی زرداری کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ خود لاڑکانہ شہر میں ایک نسبتاً پڑھی لکھی اور خوشحال شیخ برادری بھی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے پیپلز پارٹی کی خفیہ یا علانیہ انداز میں مخالفت کرتی رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی کی ''غوثیہ تحریک'' سے وابستہ مریدین کا کافی بڑا گروہ بھی اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے سرگرم ہے۔ سردار ممتاز بھٹو کا اپنا حلقہ اثر ہے اور ڈاکٹر صفدر عباسی کے خاندان کے کئی پرستار بھی اس علاقے میں سرگرم ہیں۔یہ تمام حضرات باہم مل کر ہر وہ ممکن کوشش کریں گے جوعمران خان کے 21نومبر والے جلسے کو ''تاریخی'' ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔ جلسے کا ''تاریخی'' بن جانا آیندہ انتخابات میں کتنا مؤثر ہوگا۔ یہ ایک قطعی الگ سوال ہے۔ اس جلسے کی کامیابی کو سندھ کے ''تبدیل'' ہوجانے کا پیغام سمجھنا بھی کچھ زیادہ مناسب نہیں ہوگا۔
فی الوقت مجھے زیادہ پریشانی ان ٹیلی فونوں اور ای میلز کی وجہ سے ہورہی ہے جو اندرون سندھ سے مسلسل وصول ہورہے ہیں۔ مجھے پیغامات دینے والوں کی اکثریت پیپلز پارٹی کے ''جیالوں'' پر مشتمل نہیں۔ وہ اس کی حکومت سے بلکہ نالاں اور پریشان ہیں۔ پیپلز پارٹی سے اپنی مایوسیوں کے باوجود مجھ سے بات کرنے والے لوگ اس بات پر بہت خفاہیں کہ عمران خان اپنے جلسوں میں باربار یہ دعوے کیوں کررہے ہیں کہ وہ سندھ کے عوام کو ''آزاد'' کروانے جارہے ہیں۔ انھیں اس بات کا دُکھ ہے کہ سندھ کے لوگوں کو ایسے مجبور اور بے کس افراد کی بھیڑوں جیسی بھیڑ کیوں سمجھا جارہا ہے جو اپنے سیاسی فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں۔ اپنے طاقتور وڈیروں کی اندھی تقلید اور غلامی میں مبتلا عمران خان نے ''غیرت مند پٹھان'' نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔اب انھیں سندھ کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھنا ہوں گی۔
تاریخ میں زیادہ دور جانے کے بجائے فی الحال وہ صرف حرتحریک کے بارے میں کچھ پڑھ لیں۔ ذرا یہ بھی یاد کرلیں کہ جب پنجاب میں انگریزوں کی ٹوڈی یونینسٹ پارٹی حکمران تھی تو قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد پہلے بنگال اسمبلی اور پھر سندھ اسمبلی نے پاکستان کے قیام کی حمایت میں باقاعدہ قراردادیں منظور کی تھیں۔ حالیہ تاریخ میں ایک تحریک 1983ء میں ایم آر ڈی کے نام سے چلی اور پھر آیا 1988ء جب پیرپگاڑا اور غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے طاقتور پیروں اور وڈیروں کی اس سال کے انتخابات میں ضمانتیں ضبط ہوگئی تھیں۔ سندھیوں پر ''رحم'' کھا کر انھیں ''آزاد'' کرنے کے دعوؤں کے بجائے عمران خان کو ان کے سیاسی شعور کا دل سے احترام کرنا ہوگا۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی 1988ء کے بعد ہونے والے تمام تر انتخابات کی وجہ سے سندھ کی اصل طاقتیں بن کر نمایاں ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم نے بتدریج خود کو نام نہاد شہری سندھ کا اجارہ دار بنا لیا اور جواباً پیپلز پارٹی خود کو سندھ کی اصل آواز ثابت کرنے کی ضد میں مبتلا ہوگئی۔ نواز شریف کے گزشتہ دو ادوار اور مشرف کے نو سالوں میں پیپلز پارٹی سے ناراض اپنی ذات میں انجمن نوعیت کے وڈیروں کو کبھی نواز، کبھی پیرپگاڑا اور بالآخر چوہدری شجاعت حسین کی پاکستان مسلم لیگ میں جمع کرنے کے بعد ایم کیو ایم کے تعاون سے مخلوط حکومتیں بنائی گئیں۔
ایسی حکومتوں نے متحدہ کی شہروں میں بالادستی کو مضبوط تر بنا دیا۔ شاید معاملات اسی صورت مزید کئی برس تک چلتے رہتے۔ مگر 2008ء کے بعد آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو ہر صورت اپنے ساتھ رکھنے کا تہیہ کرلیا۔ چھوٹی موٹی مگر آئے روز کی چپقلشوں کے باوجود یہ دونوں جماعتیں پانچ سال تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں ایک ساتھ بیٹھی رہیں۔ ان دونوں کے اس بھائی چارے نے مگر سندھ میں 1970ء کی دہائی سے ابھری لسانی اور نسلی تفریق کو ختم نہ سہی تھوڑا کم کرنے میں بھی کوئی مدد نہ کی۔ ان دونوں جماعتوں کے متحرک کارکن اپنے لیڈروں کی سیاسی محبتوں کے منافقانہ اظہار کے باوجود ایک دوسرے سے متنفر ہی رہے۔
سندھ کو ان دونوں جماعتوں کا بھائی چارہ گڈ گورننس کی ذرا سی جھلک بھی نہ دکھا پایا۔ عصبیت کی بنیاد پر سیاست کے ذریعے بلکہ کراچی میں موجود دوسرے نسلی گروہوں نے بھی اپنے اپنے نو گو ایریاز قائم کرنا شروع کردیے۔ نوگو ایریاز بنانے کے بعد ان پر کنٹرول کے جنگیں شروع ہوگئیں۔ لیاری اور پشتون آبادی والے علاقوں میں سیاستدانوں کے بجائے وارلارڈز نے ابھرنا شروع کردیا۔
اس صورت حال میں نچلے اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوان خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل گروہ سے تھا بڑے خلوص سے کسی ایسی سیاسی جماعت کا انتظار کرنا شروع ہوگئے جو نسلی اور لسانی تفریق سے بالاتر ہوکر سندھ کو امن وامان، معاشی ترقی اور گڈگورننس فراہم کرسکے۔ کپتان اور ان کی تحریک انصاف میں انھوں نے یہ امکانات دیکھے۔ تحریک انصاف کی مقامی اور مرکزی قیادت نوجوانوں کے دلوں میں پلتے ان جذبات کا پوری طرح اندازہ نہ لگا پائی۔ ''خوفِ فسادِ خلق'' سے عمران خان کراچی کو مسلسل نظرانداز کرتے رہے۔
ان کی عدم دلچسپی کے باوجود کراچی کے کئی علاقوں میں نوجوانوں نے ازخود منظم اور متحرک ہوکر تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کی حمایت میں مئی 2013ء کے انتخابات کے دوران دن رات کام کیا۔ ان کے جذبے اور جنون کی سب سے نمایاں مثال ہمیں ڈاکٹر عارف علوی کے حلقے میں نظر آئی۔ مئی 2013ء کے انتخابی نتائج آجانے کے بعد تحریک انصاف کو اپنے امکانات کی دریافت کے بعد کسی طویل المدتی حکمت عملی کے تحت سندھ میں متحرک ہوجانا چاہیے تھا۔ اسپتال سے صحت یاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچنے کے بعد عمران خان مگر پنجاب کے ''چار حلقوں'' کے انتخابی نتائج کے فرانزک آڈٹ کی ضد میں مبتلا ہوگئے اور سندھ میں موجود اپنی ابھرتی ہوئی Constituencyکو بھول بھال گئے۔
بہت دیر کے بعد اب ایک بار پھر عمران خان کو سندھ کی یاد آئی ہے۔ لاڑکانہ میں وہ 21نومبر کو ایک جلسے سے خطاب کررہے ہیں۔ یہ جلسہ ''تاریخی'' ہوگا یا نہیں میری نظر میں ایک فروعی سوال ہے۔ اس شہر کی انڑ برادری گزشتہ کئی برسوں سے لاڑکانہ میں اپنا طاقتور وجود دنیا کو دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔ چانڈیو قبائل کا ایک معتدبہ حصہ جو قمبر اور شہداد کوٹ کا رہائشی ہے پیپلز پارٹی سے بہت زیادہ خوش نہیں۔ مگسیوں کے کچھ خاندان آصف علی زرداری کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ خود لاڑکانہ شہر میں ایک نسبتاً پڑھی لکھی اور خوشحال شیخ برادری بھی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے پیپلز پارٹی کی خفیہ یا علانیہ انداز میں مخالفت کرتی رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی کی ''غوثیہ تحریک'' سے وابستہ مریدین کا کافی بڑا گروہ بھی اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے سرگرم ہے۔ سردار ممتاز بھٹو کا اپنا حلقہ اثر ہے اور ڈاکٹر صفدر عباسی کے خاندان کے کئی پرستار بھی اس علاقے میں سرگرم ہیں۔یہ تمام حضرات باہم مل کر ہر وہ ممکن کوشش کریں گے جوعمران خان کے 21نومبر والے جلسے کو ''تاریخی'' ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔ جلسے کا ''تاریخی'' بن جانا آیندہ انتخابات میں کتنا مؤثر ہوگا۔ یہ ایک قطعی الگ سوال ہے۔ اس جلسے کی کامیابی کو سندھ کے ''تبدیل'' ہوجانے کا پیغام سمجھنا بھی کچھ زیادہ مناسب نہیں ہوگا۔
فی الوقت مجھے زیادہ پریشانی ان ٹیلی فونوں اور ای میلز کی وجہ سے ہورہی ہے جو اندرون سندھ سے مسلسل وصول ہورہے ہیں۔ مجھے پیغامات دینے والوں کی اکثریت پیپلز پارٹی کے ''جیالوں'' پر مشتمل نہیں۔ وہ اس کی حکومت سے بلکہ نالاں اور پریشان ہیں۔ پیپلز پارٹی سے اپنی مایوسیوں کے باوجود مجھ سے بات کرنے والے لوگ اس بات پر بہت خفاہیں کہ عمران خان اپنے جلسوں میں باربار یہ دعوے کیوں کررہے ہیں کہ وہ سندھ کے عوام کو ''آزاد'' کروانے جارہے ہیں۔ انھیں اس بات کا دُکھ ہے کہ سندھ کے لوگوں کو ایسے مجبور اور بے کس افراد کی بھیڑوں جیسی بھیڑ کیوں سمجھا جارہا ہے جو اپنے سیاسی فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں۔ اپنے طاقتور وڈیروں کی اندھی تقلید اور غلامی میں مبتلا عمران خان نے ''غیرت مند پٹھان'' نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔اب انھیں سندھ کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھنا ہوں گی۔
تاریخ میں زیادہ دور جانے کے بجائے فی الحال وہ صرف حرتحریک کے بارے میں کچھ پڑھ لیں۔ ذرا یہ بھی یاد کرلیں کہ جب پنجاب میں انگریزوں کی ٹوڈی یونینسٹ پارٹی حکمران تھی تو قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد پہلے بنگال اسمبلی اور پھر سندھ اسمبلی نے پاکستان کے قیام کی حمایت میں باقاعدہ قراردادیں منظور کی تھیں۔ حالیہ تاریخ میں ایک تحریک 1983ء میں ایم آر ڈی کے نام سے چلی اور پھر آیا 1988ء جب پیرپگاڑا اور غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے طاقتور پیروں اور وڈیروں کی اس سال کے انتخابات میں ضمانتیں ضبط ہوگئی تھیں۔ سندھیوں پر ''رحم'' کھا کر انھیں ''آزاد'' کرنے کے دعوؤں کے بجائے عمران خان کو ان کے سیاسی شعور کا دل سے احترام کرنا ہوگا۔