انتخابی اصلاحاتوقت کی ضرورت
دنیا بھر میں انتخابی عمل، جمہوریت اورجمہوری عمل کے تسلسل کے لیے جزو لاینفک یا ایک سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اچھی حکمرانی اور جمہوری عمل کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ شفاف،غیرجانبدارانہ اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ انتخابی عمل ضروری ہوتا ہے۔جو عوام کوآئینی اور قانونی طریقہ سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اس لیے دنیا بھر میں انتخابی عمل، جمہوریت اورجمہوری عمل کے تسلسل کے لیے جزو لاینفک یا ایک سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے۔انتخابی عمل کی شفافیت اورغیر جانبداری کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پرآزاد اور بااختیارہو ۔لیکن ساتھ ہی متحرک،فعال اور بااختیار عدلیہ اور قومی تقاضوں،مزاج اورجمہوری اقدار کا فہم و ادراک رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں اہم کردارادا کرتی ہیں ۔یہی سبب ہے کہ سماجی تنظیمیں انتخابی اصلاحات کے لیے سرگرم ہیں۔اس سلسلے میںگزشتہ جمعے کوانسانی حقوق کمیشن (HRCP) نے ایک مشاورتی نشست کا اہتمام کیا ۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ وطن عزیز میں1970 سے تادم تحریر10عام اور6بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں ۔1970 کے پہلے عام انتخابات کو چھوڑ کر باقی 9عام اور6بلدیاتی انتخابات میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس پرمختلف نوعیت کے اعتراضات اورتحفظات نہ کیے گئے ہوں ۔اس لیے یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ پاکستان کے انتخابی نظام کے اندر بے تحاشہ خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔
جن کے بارے میں سول سوسائٹی، ذرایع ابلاغ اور متوشش شہریوں کی جانب سے مختلف اوقات میں آوازیںاٹھتی رہی ہیں اور تجاویز سامنے آتی رہی ہیں۔گوکہ44برسوں کے دوران انتخابی عمل میں بہتری لانے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کی کوششیں ضرور ہوتی رہی ہیں، مگر پورے انتخابی ڈھانچے پر نظرثانی کرنے اور اس میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں لانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ لہٰذا انتخابات کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی قوانین میں وقت اور حالات کے تحت کی تیاری،ان کے نفاذ کا میکنزم اور مکمل طور پر غیر جانبدارالیکشن کمیشن کی تشکیل انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کسی معاشرے میںجمہوری نظم حکمرانی کا مطالعہ کرتے وقت وہاں مروج انتخابی طریقہ کارکا مشاہدہ پورے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔
پاکستان میں جاری انتخابی عمل کے حوالے سے اس وقت تین پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اول،انتخابی نظام میں مجموعی طور پر کیا خامیاں اور نقائص پائے جاتے ہیں؟دوئم، گزشتہ پارلیمان نے جو اصلاحات کیں، ان کے انتخابی عمل پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟سوئم،مزید کیا تبدیلیاںاور اصلاحات ضروری ہیں،تاکہ انتخابی عمل کو شفاف، غیر جانبدارانہ اور غیر متنازعہ بنایا جاسکے ۔
جہاں تک موجودہ انتخابی عمل کا تعلق ہے،تو اس میں اتنے نقائص اورخامیاں ہیں کہ ہرسطح پردھاندلیوں کے وسیع امکانات موجود رہتے ہیں ۔الیکشن کمیشن کی تشکیل سے انتخابی فہرستوں کی تیاری ، انتخابات کے انعقاد اور پھر اس کے بعد کے تمام مراحل انتہائی ناقص، فرسودہ اور غیر ذمے دارانہ چلے آ رہے ہیں ۔سابقہ پارلیمان نے اس نظام میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے،جو آٹے میں نمک تھے ۔جن میںصرف چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے مشروط کر دیا گیا تھا۔دوسرے گورننس اورانتخابی عمل پر کام کرنے والی مختلف تنظیموں کی سفارشات پر نادرا کےDatabaseسے تصدیق شدہ انتخابی فہرستیں استعمال کی گئیں۔
لیکن ان اقدامات کے باوجود مئی2013ء میں ہونے والے انتخابات پرشاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جس نے دھاندلی کے الزامات عائد نہ کیے ہوں ۔ اس لیے پورے انتخابی نظام کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انتخابی انتظام یعنی (Election Management) ، انتخابی قوانین اور طریقہ کار میں مناسب ردوبدل کی جائے ۔اس مقصد کے لیے پارلیمان کو ڈی چوک پہ جنم لینے والے طوفان کا ادراک کرتے ہوئے، انتخابی عمل میں بعض کلیدی نوعیت کی تبدیلیوں کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غورکرنا ہوگا ۔
انتخابی انتظام میں بہتری کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو،اس کی انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت ہے ۔ ملک میں اعلیٰ سطح کی تقرریوں جن میں چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین، صوبائی الیکشن کمشنر،نادرا کے چیئرمین سمیت خود مختار اور نیم خود مختار کارپوریشنوں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری کے لیے پارلیمان کا ایک کمیشن تشکیل دیا جائے، جس میں پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی نمایندگی ہو۔
چیف الیکشن کمشنر اور نادرا کا چیئرمین وزیر اعظم کے بجائے پارلیمان کو جوابدہ ہوں ۔چونکہ آیندہ انتخابات نادراکی فہرستوں پر منعقد ہونا ہیں، اس لیے اس کے چیئرمین کی پارلیمان کے ذریعے تقرری ضروری ہے تاکہ حکومت میں موجود سیاسی جماعت نادرا کے Databaseپر اثر انداز نہ ہوسکے ۔ ضروری نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر عدلیہ ہی سے لیا جائے، بلکہ سول سروس کے اچھی شہرت رکھنے والے بیوروکریٹس کوبھی یہ ذمے داری سونپی جاسکتی ہے ۔اسی طرح دیگر اراکین اور صوبائی الیکشن کمشنر کی تقرری میں بھی یہی کلیہ اختیار کیا جانا چاہیے ۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر(DROs)،ریٹرننگ آفیسرز(ROs)اس وقت بالترتیب ڈسٹرکٹ سیشن جج اورایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج(ADJs)ہوتے ہیں۔یہ ذمے داریاںبھی انتظامی نوعیت کی ہیں،اس لیے ان پر سول سرونٹ سمیت ٹیکنوکریٹس کی تقرری بھی ممکن ہے۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان ذمے داریوں کے لیے منتخب کردہ افراد کی تربیت کا بندوبست کیا جائے ۔ کیونکہ گزشتہ انتخابات میںآئین کے آرٹیکل62 اور63کا غیر سنجیدہ استعمال کیا گیا۔
امیدواروں سے ٹیکس ،یوٹیلٹی بلز کے بجائے بیویوں کی تعداد جیسے سوالات کرکے اس پورے عمل کو غیر سنجیدہ بنا دیا گیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انتخابی عملے کی ہر سطح پرتربیت کی جائے تاکہ انتخابات میں کسی قسم کی کجی یا نقص نہ رہنے پائے۔اس سلسلے میں الیکشن کمیشن مختلف نوعیت کے تربیتی ماڈیولز (Modules)تیار کرے ۔جن میں ایک DROsاور ROsکی تربیت کے لیے ہو۔دوسرا پولنگ اسٹاف (پریزائیڈنگ،اسسٹنٹ پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران)کی تربیت کے لیے ہو ۔پہلے مرحلہ میں الیکشن کمیشنDROsاور ROsکی تربیت کرے۔ اس کے بعد متعلقہROsاپنے حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کیے جانے والے پولنگ عملہ کی تربیت کرے ۔
پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات کے انعقاد کی منطق بھی ناقابل فہم ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے 272 جب کہ صوبائی اسمبلی کی کل577نشستیں ہیں ۔قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے کم و بیش 200پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں،جب کہ ہر پولنگ اسٹیشن میںاوسطاً 4بوتھ ہوتے ہیں ۔اس طرح ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک پریزائیڈنگ افسر) (PrOکے ساتھ ہر بوتھ کے لیے ایک APOاور دو POsہوتے ہیں۔یوں ایک پولنگ اسٹیشن پراوسطاً 13افراد تعینات ہوتے ہیں ۔
چنانچہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کی صورت میںاوسطاً54,400 پولنگ اسٹیشن اور 07,200 7 افراد پر مشتمل عملہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جب کہ پولیس اور دیگر انتظامی اہلکار اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسا انتظام ہے، جس میں نقائص اور کمزوریوں کا باقی رہ جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ اس لیے بھارت کی طرح اگرہمارے یہاں بھی مختلف صوبوں میںمختلف تاریخوںمیںانتخابات کرائے جائیںاور ایک صوبے کا عملہ دوسرے صوبے میں تعینات کیا جائے، توالیکشن کمیشن پر دباؤ میں کمی لانے کے ساتھ یکمشت بہت بڑی تعداد میںعملے کی تقرری کی زحمت سے بچاجا سکتا ہے۔ساتھ ہی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔
ایک دوسرا مسئلہ پوسٹل بیلٹ اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا ہے ۔ جدید دنیا میں جب ٹیکنالوجی تک ہر فرد کی رسائی آسان ہوگئی ہے، تو وہ لاکھوں پاکستانی ووٹ کے حق سے کیوں محروم رہیں؟ جو روزگار کے حصول کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں اور وطن عزیز کو کروڑوں ڈالر کے Remittencesبھیجتے ہیں ۔ ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں نمایندوں کے چناؤ اورحکومت کی تشکیل میں حصہ لیں تاکہ ان کی بھیجی ہوئی رقوم کا صحیح استعمال ہوسکے۔
اس لیے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ان کی متعلقہ سفارت خانے میں ووٹنگ کا بندوبست کرے دوسرامسئلہ پوسٹل بیلٹ کاہے،جس کا انتظام توموجود ہے، مگر صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی ڈیوٹیوں پر مامور ووٹروں کی اکثریت حق رائے دہی سے محروم رہ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر ذمے داریوں کی ادائیگی کی سلسلے میں اپنے حلقہ انتخاب سے باہر ووٹر بھی ووٹ نہیں دے پاتے۔اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا پارلیمان اور اراکین اسمبلی لمبی لمبی تقاریر کے بجائے انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لیے قانون سازی پر توجہ مرکوز کریں،تو بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔
اس لیے دنیا بھر میں انتخابی عمل، جمہوریت اورجمہوری عمل کے تسلسل کے لیے جزو لاینفک یا ایک سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے۔انتخابی عمل کی شفافیت اورغیر جانبداری کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پرآزاد اور بااختیارہو ۔لیکن ساتھ ہی متحرک،فعال اور بااختیار عدلیہ اور قومی تقاضوں،مزاج اورجمہوری اقدار کا فہم و ادراک رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں اہم کردارادا کرتی ہیں ۔یہی سبب ہے کہ سماجی تنظیمیں انتخابی اصلاحات کے لیے سرگرم ہیں۔اس سلسلے میںگزشتہ جمعے کوانسانی حقوق کمیشن (HRCP) نے ایک مشاورتی نشست کا اہتمام کیا ۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ وطن عزیز میں1970 سے تادم تحریر10عام اور6بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں ۔1970 کے پہلے عام انتخابات کو چھوڑ کر باقی 9عام اور6بلدیاتی انتخابات میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس پرمختلف نوعیت کے اعتراضات اورتحفظات نہ کیے گئے ہوں ۔اس لیے یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ پاکستان کے انتخابی نظام کے اندر بے تحاشہ خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔
جن کے بارے میں سول سوسائٹی، ذرایع ابلاغ اور متوشش شہریوں کی جانب سے مختلف اوقات میں آوازیںاٹھتی رہی ہیں اور تجاویز سامنے آتی رہی ہیں۔گوکہ44برسوں کے دوران انتخابی عمل میں بہتری لانے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کی کوششیں ضرور ہوتی رہی ہیں، مگر پورے انتخابی ڈھانچے پر نظرثانی کرنے اور اس میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں لانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ لہٰذا انتخابات کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی قوانین میں وقت اور حالات کے تحت کی تیاری،ان کے نفاذ کا میکنزم اور مکمل طور پر غیر جانبدارالیکشن کمیشن کی تشکیل انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کسی معاشرے میںجمہوری نظم حکمرانی کا مطالعہ کرتے وقت وہاں مروج انتخابی طریقہ کارکا مشاہدہ پورے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔
پاکستان میں جاری انتخابی عمل کے حوالے سے اس وقت تین پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اول،انتخابی نظام میں مجموعی طور پر کیا خامیاں اور نقائص پائے جاتے ہیں؟دوئم، گزشتہ پارلیمان نے جو اصلاحات کیں، ان کے انتخابی عمل پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟سوئم،مزید کیا تبدیلیاںاور اصلاحات ضروری ہیں،تاکہ انتخابی عمل کو شفاف، غیر جانبدارانہ اور غیر متنازعہ بنایا جاسکے ۔
جہاں تک موجودہ انتخابی عمل کا تعلق ہے،تو اس میں اتنے نقائص اورخامیاں ہیں کہ ہرسطح پردھاندلیوں کے وسیع امکانات موجود رہتے ہیں ۔الیکشن کمیشن کی تشکیل سے انتخابی فہرستوں کی تیاری ، انتخابات کے انعقاد اور پھر اس کے بعد کے تمام مراحل انتہائی ناقص، فرسودہ اور غیر ذمے دارانہ چلے آ رہے ہیں ۔سابقہ پارلیمان نے اس نظام میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے،جو آٹے میں نمک تھے ۔جن میںصرف چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے مشروط کر دیا گیا تھا۔دوسرے گورننس اورانتخابی عمل پر کام کرنے والی مختلف تنظیموں کی سفارشات پر نادرا کےDatabaseسے تصدیق شدہ انتخابی فہرستیں استعمال کی گئیں۔
لیکن ان اقدامات کے باوجود مئی2013ء میں ہونے والے انتخابات پرشاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جس نے دھاندلی کے الزامات عائد نہ کیے ہوں ۔ اس لیے پورے انتخابی نظام کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انتخابی انتظام یعنی (Election Management) ، انتخابی قوانین اور طریقہ کار میں مناسب ردوبدل کی جائے ۔اس مقصد کے لیے پارلیمان کو ڈی چوک پہ جنم لینے والے طوفان کا ادراک کرتے ہوئے، انتخابی عمل میں بعض کلیدی نوعیت کی تبدیلیوں کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غورکرنا ہوگا ۔
انتخابی انتظام میں بہتری کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو،اس کی انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت ہے ۔ ملک میں اعلیٰ سطح کی تقرریوں جن میں چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین، صوبائی الیکشن کمشنر،نادرا کے چیئرمین سمیت خود مختار اور نیم خود مختار کارپوریشنوں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری کے لیے پارلیمان کا ایک کمیشن تشکیل دیا جائے، جس میں پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی نمایندگی ہو۔
چیف الیکشن کمشنر اور نادرا کا چیئرمین وزیر اعظم کے بجائے پارلیمان کو جوابدہ ہوں ۔چونکہ آیندہ انتخابات نادراکی فہرستوں پر منعقد ہونا ہیں، اس لیے اس کے چیئرمین کی پارلیمان کے ذریعے تقرری ضروری ہے تاکہ حکومت میں موجود سیاسی جماعت نادرا کے Databaseپر اثر انداز نہ ہوسکے ۔ ضروری نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر عدلیہ ہی سے لیا جائے، بلکہ سول سروس کے اچھی شہرت رکھنے والے بیوروکریٹس کوبھی یہ ذمے داری سونپی جاسکتی ہے ۔اسی طرح دیگر اراکین اور صوبائی الیکشن کمشنر کی تقرری میں بھی یہی کلیہ اختیار کیا جانا چاہیے ۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر(DROs)،ریٹرننگ آفیسرز(ROs)اس وقت بالترتیب ڈسٹرکٹ سیشن جج اورایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج(ADJs)ہوتے ہیں۔یہ ذمے داریاںبھی انتظامی نوعیت کی ہیں،اس لیے ان پر سول سرونٹ سمیت ٹیکنوکریٹس کی تقرری بھی ممکن ہے۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان ذمے داریوں کے لیے منتخب کردہ افراد کی تربیت کا بندوبست کیا جائے ۔ کیونکہ گزشتہ انتخابات میںآئین کے آرٹیکل62 اور63کا غیر سنجیدہ استعمال کیا گیا۔
امیدواروں سے ٹیکس ،یوٹیلٹی بلز کے بجائے بیویوں کی تعداد جیسے سوالات کرکے اس پورے عمل کو غیر سنجیدہ بنا دیا گیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انتخابی عملے کی ہر سطح پرتربیت کی جائے تاکہ انتخابات میں کسی قسم کی کجی یا نقص نہ رہنے پائے۔اس سلسلے میں الیکشن کمیشن مختلف نوعیت کے تربیتی ماڈیولز (Modules)تیار کرے ۔جن میں ایک DROsاور ROsکی تربیت کے لیے ہو۔دوسرا پولنگ اسٹاف (پریزائیڈنگ،اسسٹنٹ پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران)کی تربیت کے لیے ہو ۔پہلے مرحلہ میں الیکشن کمیشنDROsاور ROsکی تربیت کرے۔ اس کے بعد متعلقہROsاپنے حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کیے جانے والے پولنگ عملہ کی تربیت کرے ۔
پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات کے انعقاد کی منطق بھی ناقابل فہم ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے 272 جب کہ صوبائی اسمبلی کی کل577نشستیں ہیں ۔قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے کم و بیش 200پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں،جب کہ ہر پولنگ اسٹیشن میںاوسطاً 4بوتھ ہوتے ہیں ۔اس طرح ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک پریزائیڈنگ افسر) (PrOکے ساتھ ہر بوتھ کے لیے ایک APOاور دو POsہوتے ہیں۔یوں ایک پولنگ اسٹیشن پراوسطاً 13افراد تعینات ہوتے ہیں ۔
چنانچہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کی صورت میںاوسطاً54,400 پولنگ اسٹیشن اور 07,200 7 افراد پر مشتمل عملہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جب کہ پولیس اور دیگر انتظامی اہلکار اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسا انتظام ہے، جس میں نقائص اور کمزوریوں کا باقی رہ جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ اس لیے بھارت کی طرح اگرہمارے یہاں بھی مختلف صوبوں میںمختلف تاریخوںمیںانتخابات کرائے جائیںاور ایک صوبے کا عملہ دوسرے صوبے میں تعینات کیا جائے، توالیکشن کمیشن پر دباؤ میں کمی لانے کے ساتھ یکمشت بہت بڑی تعداد میںعملے کی تقرری کی زحمت سے بچاجا سکتا ہے۔ساتھ ہی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔
ایک دوسرا مسئلہ پوسٹل بیلٹ اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا ہے ۔ جدید دنیا میں جب ٹیکنالوجی تک ہر فرد کی رسائی آسان ہوگئی ہے، تو وہ لاکھوں پاکستانی ووٹ کے حق سے کیوں محروم رہیں؟ جو روزگار کے حصول کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں اور وطن عزیز کو کروڑوں ڈالر کے Remittencesبھیجتے ہیں ۔ ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں نمایندوں کے چناؤ اورحکومت کی تشکیل میں حصہ لیں تاکہ ان کی بھیجی ہوئی رقوم کا صحیح استعمال ہوسکے۔
اس لیے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ان کی متعلقہ سفارت خانے میں ووٹنگ کا بندوبست کرے دوسرامسئلہ پوسٹل بیلٹ کاہے،جس کا انتظام توموجود ہے، مگر صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی ڈیوٹیوں پر مامور ووٹروں کی اکثریت حق رائے دہی سے محروم رہ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر ذمے داریوں کی ادائیگی کی سلسلے میں اپنے حلقہ انتخاب سے باہر ووٹر بھی ووٹ نہیں دے پاتے۔اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا پارلیمان اور اراکین اسمبلی لمبی لمبی تقاریر کے بجائے انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لیے قانون سازی پر توجہ مرکوز کریں،تو بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔