دوسری شادی ’وحشیانہ تہذیب ‘

قائق کچھ یوں ہیں کہ کینیڈا میں جسم فروشی، کوٹھے اور دلالی کا کام قانوناً جائز ہے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔


Dr Naveed Iqbal Ansari November 20, 2014
[email protected]

کیا کسی مرد کی ایک سے زائد شادیاں 'وحشیانہ تہذیب' ہے؟ یہ ایک سوال تھا جو کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے مختلف لوگوں کے درمیان زیر بحث تھا اور اس کا جواب تلاش کر نے کے لیے بحث جاری تھی۔ میں بھی ان افراد کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا، یہ ولیمے کی اک تقریب تھی، چونکہ ہمارے ہاں ایسی تقریبات میں کھانا بہت دیر سے پیش کیا جا تا ہے لہذا کھانے کے انتظار میں بیٹھے سب ہی لوگوں کے پاس وقت کی کوئی کمی نہ تھی۔ چنانچہ ہر جانب سے '' دھواں دھار'' دانشمندی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ہر کوئی اپنی بات منوانے کے لیے پر تول رہا تھا۔

ایک صاحب کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ ایک سے زائد شادیوں کو 'وحشیانہ تہذیب' کینیڈا کے ایک وزیر نے قرار دیا ہے اور یہ کہ کینیڈا نہ تو اسلامی ریاست ہے اور نہ ہی وزیر موصوف مسلمان ہیں لہذا یہ موقف بالکل جھوٹا اور غلط ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں کینیڈا کے وزیر برائے امیگریشن کرس الیگزینڈر نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کینیڈا میں رہائش کرنے والوں کو یہ واضع پیغام دینا چاہتی ہے کہ انسانی حقوق کے منافی کسی تہذیبی روایت کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا اور دوسری شادی کرنے والوں کو کینیڈا کی شہریت نہیں دی جائے گی۔

راقم کا خیال تھا کہ اس سوال کا جواب کہ کیا دوسری شادی کرنا واقعی 'وحشیانہ تہذیب ' ہے؟، اس بات کا سہارا نہیں لینا چاہیے کہ یہ فیصلہ کرنے والے غیر مسلم ہیں ، بلکہ حقائق اور دلیل کی بنیاد پر بھی اس کا جائزہ غیر جانبداری سے لینا چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں بھی بعض ایسے روشن خیال لوگ موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مرد کی ایک سے زائد شادی کا حق، عورت کے ساتھ نا انصافی یا ظلم ہے۔

یوں تو اس سوال کا بہترین جواب اس وقت ہی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ جب مغرب کے تصور آزادی اور انسانی حقوق کے فلسفے کو سمجھا جائے، عرض ہے کہ کینیڈا اور دیگر ممالک جو مرد کی ایک سے زائد شادیوں کو بہت بڑا جرم سمجھتے ہیں اور ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس سے خواتین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، خود ان ممالک کا یہ فیصلہ ان کے ہاں کی خواتین کے حق میں کس حد تک بہتر ہے؟

حقائق کچھ یوں ہیں کہ کینیڈا میں جسم فروشی، کوٹھے اور دلالی کا کام قانوناً جائز ہے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے جب کہ دوسری طرف چین میں جسم فروشی تو قانوناً درست ہے مگر دلالی اور کوٹھے قانوناً جرم ہیں، گویا چین کی نظر میں دلالی اور کوٹھے کا کام نہ صرف خواتین کے حقوق کے خلاف ہے بلکہ معاشرے کے لیے بھی درست نہیں۔ کینیڈا میں (خود ان کے اپنی ملکی اعداد و شمار کے مطابق) دس برس کی عمر سے کم کے دس ہزار بچے اور دس سے پندرہ سال کے افراد کی ایک کثیر تعداد جسم فروشی کی مرتکب ہوتی ہے۔

ایک اور روشن خیال اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ملک برطانیہ کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں کی جی ڈی پی میں جتنا حصہ زراعت کا ہے اتنا ہی حصہ جسم فروشی اور منشیات کا ہے۔ صرف 2009ء میں برطانوی جی ڈی پی کا پانچ اشاریہ تین ملین پاؤنڈ حصہ جسم فروشی کی بدولت تھا۔ ایک دو نہیں بے شمار ممالک میں خواتین کے اس غلط کاروبار سے ملکی معیشت کو سہارا دینے کا سلسلہ جاری ہے اور اگر اولمپک گیمز جیسا کوئی ایونٹ ہو تو اس میں مزید اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ گویا کیا خوب تہذیب تشکیل دی گئی ہے کہ صنف نازک کو بطور جنس یا مال استعمال کو قانونی تحفظ بھی دیا جائے اور ملکی معیشت کو بڑھاوا بھی دیا جائے اور یہ دعویٰ بھی کیا جائے کہ اس طرح بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے بلکہ مضبوط ہوتے ہیں۔

ویسے تو اور بھی چشم کشا حقائق ہیں لیکن یہاں نہایت مختصر طور پر پیش کیے ہیں، مزید حقائق جاننا چاہیں تو گوگل پر کمپیوٹر کے ذریعے معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں ان حقائق کو مختصر پیش کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ کینیڈا سمیت وہ تمام ممالک اور روشن خیال حلقے جو مرد کی دوسری شادی کو عورت کے ساتھ ظلم قرار دے رہے ہیں وہ تمام دوسری طرف خواتین کو جسم فروشی سمیت ہر زاویے سے نقصان پہنچانے کی دانستہ یا نا دانستہ کوشش کر رہے ہیں اور اس عمل کو باقاعدہ قانونی تحفظ بھی فراہم کر رہے ہیں۔

دوسری شادی کا رواج جن معاشروں میں ہے وہاں عورت کو معاشرتی اور مذہبی لحاظ سے بھی شادی کے نام پر تحفظ ملتا ہے، مثلاً کم از کم اس کے نان نفقہ کی یعنی تمام ضروریات زندگی کی ضمانت شوہر اپنے ذمے لے لیتا ہے جب کہ دینی یا مذہبی اعتبار سے مرد کو یہ ہدایت بھی ہوتی ہے کہ وہ نئی اور پرانی تمام بیویوں کے درمیان انصاف یا برابری کا سلوک کرے۔ دوسری شادی میں ضروریات زندگی، تحفظ اور عزت و ناموس عورت کو مل جاتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جن معاشروں میں عورت کو دوسری شادی کا درجہ ملتا ہے انھیں اس درجے کے ساتھ ہی ضروریات زندگی کے علاوہ عزت و ناموس اور تحفظ مل جاتا ہے، کوئی غیر شخص اس کی طرف غلط نگاہ تک ڈالنے کی جرأت نہیں کر تا، لیکن 'وحشیانہ تہذیب' کی اصطلاح استعمال کرنے والوں کے معاشروں میں کیا ہو رہا ہے؟ وہ دوسری شادی کے بجائے عورتوں کو بازاروں کی زینت اور جسم فروشی کے کاروبار میں اس قدر تحفظ فراہم کر رہے ہیں کہ ان کی معیشت میں جی ڈی پی کا خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

اب فیصلہ کیجیے کہ 'وحشیانہ تہذیب' کونسی ہے؟ وہ جو صنف نازک کو اس معاشرے میں لے جائے جہاں کوئی بھی اسے نہ صرف جنسی تسکین کے لیے استعمال کرے یا کاروبار کے مواقعے پیش کرے یا وہ تہذیب جو صنف نازک کو اس سارے کاروبار سے نکال کر گھر کی چار دیواری کا تحفظ فراہم کرے اور فکر معاش سے آزاد کرے؟

اب بھی اگر کوئی دوسری شادی کو 'وحشیانہ تہذیب' ہی قرار دے تو راقم کا سوال صرف یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس چوائس ہو کہ آپ کی بیٹی یا بہن کسی مرد سے دوسری شادی بھی کر سکتی ہو اور کینیڈا یا برطانیہ وغیرہ جیسے ممالک کی طرح ملکی جی ڈی پی میں اضافہ بھی کر سکتی ہو نیز بیک وقت کئی بوائے فرینڈ بھی رکھ سکتی ہو، تو آپ کی چوائس کیا ہو گی؟ دوسری شادی یا۔۔۔؟

اگر آپ کا جواب دوسری شادی ہے تو اس کا مطلب 'دوسری شادی وحشیانہ تہذیب ' نہیں بلکہ وہ کلچر ہے جس سے مغربی ممالک اپنا جی ڈی پی بڑھا رہے ہیں! آیئے غور کریں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں