انقلاب سے آزادی تک

مارے یہاں سیاست اور حکومت ایک بند، گہرے، گھٹاٹوپ اندھیرے کنوئیں میں بقائے زندگی کے لیے لڑتی ہوئی ملتی ہے۔


Doctor Nasir Mustehsan November 20, 2014

آج کل ایوان بالا ہو یا ایوان زیریں، پارلیمنٹ ہاؤس ہو یا سینیٹ، عدالت عظمیٰ ہو یا جنرل ہیڈکوارٹر، یونیورسٹیز اور کالجز کی سطح تک، پھر بیوروکریٹس سے لے کر ٹیکنو کریٹس تک، ایک اعلیٰ سرکاری ملازم سے لے کر سبزی بیچنے والے تک ان سب کا ایک ہی موضوع گفتگو ہے کہ کیا ''میاں نواز شریف مسند اقتدار سے ہٹ جائیں گے، سیاسی بحران تو خیر اپنی جگہ معاشی بحران کب کنارے پہنچے گا۔ ''

2013ء کے الیکشن میں اور الیکشن کی گہما گہمی میں مختلف سیاسی جماعتوں نے متعدد ذرایع ابلاغ استعمال کرتے ہوئے عوام سے لاتعداد وعدے کیے ان کو سبز باغ دکھائے، ان کی امیدوں کو بڑھایا۔ نوکریوں اور اچھے مستقبل کی امیدیں دلائیں، لیکن اقتدار کی چکا چوند کر دینے والی زندگی میں قدم رکھتے ہی وہ عوام کو بھول گئے، وزیر اعظم اپنے وزرا کے کہنے میں آ گئے لہٰذا آج جو کچھ بھی پاکستان کی گلیوں میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے ناقص حکمت عملی، سست معاشی رفتار، تابڑ توڑ مہنگائی، کمزور اقتصادی صورتحال، انصاف کی عدم دستیابی، قومی دولت کا زیاں، نہ ہونے کے برابر روزگار کے مواقعے، جھوٹے وعدے، اپنے اتحادی اور حریفوں سے بڑھتی ہوئی دوریاں، یہی اس وقت انارکی کی ذمے دار ہیں۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اگر آج سڑکوں پر ہے تو اس کی بڑی معقول وجہ ہے ہم دنیا بھر میں رائج جمہوری رویوں، جمہوری اقدار اور جمہوریت کے ثمرات تو دیکھتے ہیں لیکن اس جمہوریت کے لیے اپنے ملک میں کچھ نہیں کرتے ہم ڈیموکریٹک ریفارمز، سماجی و معاشی اصطلاحات نہیں بناتے۔ پچھلے چند سالوں میں ہم نے جمہوریت کی دھجیاں بکھرتی ہوئی دیکھی ہیں، سسٹم کا مذاق بنتے ہوئے دیکھا ہے لہٰذا لفظ ''جمہوریت'' اور ''سسٹم'' اب ہماری سماعتوں میں رس نہیں گھولتا بلکہ برچھیوں کی طرح چبھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، ہم پاکستان سے سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور سیاستدانوں نے سب کچھ حاصل کر بھی لیا ہے لیکن ہم پاکستان کو کچھ دینا نہیں چاہتے یہاں ایک ہاتھ سے تالی بج رہی ہے۔

ہمارے یہاں سیاست اور حکومت ایک بند، گہرے، گھٹاٹوپ اندھیرے کنوئیں میں بقائے زندگی کے لیے لڑتی ہوئی ملتی ہے، ہمیں کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کس چیز کو اس کی صحیح جگہ سے اٹھا کر کہاں رکھ رہے ہیں، ہم بار بار غلطیاں کرنے کے عادی ہیں ہم وہ ہیں جو سو پیاز بھی کھاتے ہیں اور سو جوتے بھی لیکن ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھتے۔ ہم اقتدار میں آتے ہی اپنے بھائی بندوں کو اس جگہ لگا دینا چاہتے ہیں جس کے نہ وہ اہل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان سے انصاف ہو پاتا ہے، ہم اقتدار محض اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے حاصل کرتے ہیں ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے نہیں، ہم نقار خانے میں طوطی کی آواز تو سن سکتے ہیں لیکن گلہ پھاڑ پھاڑ کر، دہائیاں دیتے ہوئے جمہور کی آواز نہیں سن سکتے، ہم خواتین کے مساوی حقوق پر سیمینار اور تقریریں تو کرتے ہیں لیکن ان کی عزتوں کی پامالی بھی ہم ہی کرتے ہیں۔

ہم اپنے لیے تو انصاف چاہتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کے حقوق غصب کرتے ہیں، ہم جمہوریت کے ثمرات تو دیکھتے ہیں لیکن جمہور کو ان ثمرات سے محروم رکھتے ہیں، ہم انسانیت کو اچھا تصور کرتے ہیں لیکن پھر خود ہی ہم ہٹلر، میسولینی اور اسٹالن بن جاتے ہیں، ہم جالب، مخدوم و فراز کی آواز میں آواز تو ملاتے ہیں لیکن معاشی و سماجی استحصال و بربریت پر لب سی لیتے ہیں، یہ زندہ معاشرے کی عکاسی تو نہیں ہے، اور نہ ہی یہ سماجی قدریں ہیں، یہ صرف اور صرف آنکھیں بند رکھنے اور طوفان ٹل جانے کا انتظار ہے، اگر آج ہم حق نہیں مانگ سکتے تو کبھی بھی اپنے حقوق کے لیے کھڑا نہیں ہوسکتے۔

اس وقت پاکستان جس خلفشار کا شکار ہے ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا ہے، ایک طرف فوج ضرب عضب لگا رہی ہے ، ہندوستان ہماری سرحدوں پر اشتعال انگیز فائرنگ کر رہا ہے، اس وقت پاکستان تمام اقوام عالمی میں تنہا ہے، خود اصغر خان نے کہا تھا انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم عوام اور حکومتی کارندے دو طبقات میں بدل چکے ہیں اور ان دونوں طبقات کے بیج جو خلیج حائل ہے وہ چاہتے ہوئے بھی پٹ نہیں سکتی یہاں سرمایہ دار، صنعتکار اور جاگیردار جو غریب کسانوں و ہاریوں کی خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت پر ناگ بن کر بیٹھ گئے ہیں، اس سے عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ غالب آ گیا ہے، اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کسی طریقے سے فوری طور پر اس سے نکلنے کی کوشش نہ کی گئی تو ملک خداداد میں خانہ جنگی ہونے کا خدشہ ہے، خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔

پاکستان سے باہر ایک پوری دنیا آباد ہے جو شخصی و اجتماعی جمہوریت، مساوات اور بھائی چارے کے فروغ میں پیش پیش رہی ہے وہاں جمہوریت ایسا گھنا، سایہ دار درخت ہے جس کی چھاؤں میں ایک ہاکر، گھروں میں اخبار ڈالنے والا اور وزیر اعظم دونوں آنکھیں میچ کر سستا لیتے ہیں اور ایک ہی برتن میں کھاتے اور پانی پیتے ہیں، ہمارے یہاں ایسی جمہوریت کا تصور بھی نہیں ہے۔

ہمارے نبیؐ اور ان کے اصحاب نے ساری دنیا کو جمہوریت کے آداب سکھائے لیکن ہم ان کے نام لیوا اس حقیقی جمہوریت سے کوسوں دور ہیں۔ دنیا میں شخصی آزادی اور روشن خیالی پائی جاتی ہے، ہم پاکستانی آمریت کے شامیانے کے نیچے خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے شومی قسمت پاکستان میں گر چند تعمیراتی کام ملک کے وسیع تر مفاد میں ہوئے تو وہ آمروں ہی کے ہاتھوں سے ہوئے جمہوریت میں تو کالا باغ ڈیم کا مسئلہ اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، ہمارا دانا پڑوسی ہمارے ساتھ ہی وجود میں آیا بلکہ ہم سے ایک دن بعد وجود میں آیا اور آج وہ ساری دنیا کو جتلا رہا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والا ملک ہے۔

ہر جمہوری ملک میں اس ملک کا شہری، سکون و اطمینان سے رہتا ہے وہ جانتا ہے کہ وہ وزیر جو اس کے ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے وہ اس کی آواز ہے وہ آن واحد میں اس سیاستدان سے مل سکتا ہے، اس سے ملکی حالات پر تبادلہ خیال کر سکتا ہے، ہمارے یہاں وزیر اعظم سے ملنا تو دور کی بات ہے، ضلعی انتظامیہ کے ہیڈ سے ملنے کے لیے بھی ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے، ہم امید پرست Optimist لوگ ہیں، جو صورت حال ہم کو نظر آ رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے آج ہر پاکستانی پریشان نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کو اپنی جان و مال عزت و ناموس خطرے میں نظر آ رہی ہے۔

ان سب کو پاکستان کی معیشت کی فکر نہیں ہے وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے، لیکن ہم سے جینے کا، سانس لینے کا حق تو نہ چھینیں۔ آپ جو چاہے کریں دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لٹائیں، ایک آدمی کے لیے 100 اقسام کے کھانے بنوائیں، پورے جہاز میں اکیلے سفر کریں سب منظور ہے لیکن میری ماؤں، بہنوں کی عزت محفوظ رہے، میرے نوجوانوں کو اچھے سے اچھا روزگار ملے، میرے ملک میں راوی چین ہی چین لکھے، ہر ایک پاکستانی، پاکستان سے محبت کرے، پاکستان کی تعمیر کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں