انارکسزم کیا ہے آخری حصہ
غیر ملکی جارحیت کے خلاف اگر سارے عوام مقابلہ کریں تو ہمیشہ جارح حملہ آوروں کو شکست ہو گی اور تاریخ میں ایسا ہی ہوا ہے۔
انارکسٹ ریاست کی بے مصرفی کے بارے میں اپنے فیصلے کی حمایت میں ٹھوس مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تعلیم کے لیے ریاست کی کو ئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کارکنوں کی اکثریت کو مناسب فراغت میسر ہو کہ وہ ایک دوسرے کو تعلیم دینے لگیں تو ان میں سے وہ جن میں تعلیم دینے کا شوق ہو گا، دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بے چین رہیں گے اور رضاکارانہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گا اور ایک دوسرے پر اعلیٰ تدریسی معیار قائم کر نے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خواہش مند ہوں گے۔
غیر ملکی جارحیت کے خلاف اگر سارے عوام مقابلہ کریں تو ہمیشہ جارح حملہ آوروں کو شکست ہو گی اور تاریخ میں ایسا ہی ہوا ہے۔ کرو پوتکن کا کہنا ہے کہ 'با قاعدہ فوج کو ہمیشہ عوامی فوج نے شکست دی ہے'۔ جیسا کہ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، اسپین کی عوامی جنگ، انقلاب روس، انقلاب چین، انقلاب ویتنام وغیرہ وغیرہ، جن کے منظم کر نے میں ریاست کا کو ئی دخل نہیں رہا۔ ریاست کا ریکارڈ افراد کو تحفظ کی ضمانت دینے کے معاملے میں بھی کوئی اچھا نہیں۔ ریاست ابھی تک شہری کو بد قماش لوگوں سے بچا نے میں ناکام رہی ہے بلکہ بد قماشوں کو ریاست جنم دیتی ہے۔ یہ افلاس کے ذریعے لوگوں کو جرائم کی طرف ہانکتی ہے، پھر ان لو گوں کو قید خانوں میں ڈال کر سزا دیتی ہے۔ اس طرح ان
لوگوں پر جرائم پیشہ ہونے کا ایسا ٹھپہ لگا دیتی ہے جس سے ان کے لیے مستقبل میں دیانتداری سے حصول روزگار ناممکن ہو جاتا ہے۔ آرٹ، سائنس اور کاروبار میں وہ شعبے، جن میں انسانی توانائی کا بڑا حصہ صرف ہو تا ہے، جہاں بہت ترقی حا صل ہو تی ہے، اس میں ریاست عدم مدا خلت کا رویہ ظاہر کرتی ہے۔
یہاں لوگوں کی تمام شعبوں میں سرگرمیاں رضاکارانہ اداروں میں ظاہر ہو تی ہیں، جیسے کلب، تعلیمی انجمنیں اور سوسائٹیز وغیرہ۔ کرو پوتکن اپنے نظریے کی حمایت میں بین الا قوا می ریلوے ٹریفک کی روا نی کے لیے کیے گئے انتظامات کو مثال کے طور پر پیش کر تا ہے۔ ایک مسا فر جو میڈریڈ (اسپین) سے ماسکو (روس) تک ریل پر سفر کرتا ہے، اس پٹری کو لا کھوں کارکنوں نے بچھایا تھا اور ان ٹرینوں کو درجنوں کمپنیاں چلا تی ہیں۔ پھر بھی وہ نہایت پیچیدہ انتظامات جو ہموار اور رواں سفر کو یقینی بنا نے کے لیے درکار ہو تے ہیں، ان کی تکمیل متعلقہ پارٹیوں نے خود رو باہمی تعاون سے کی ہے۔
جبری انتظام کی جگہ آزادانہ تعاون نے لے لی ہے اور رضاکارانہ انتظامات نے سخت ضابطوں کی جگہ لے لی ہے۔ (فرق صرف یہ ہے کہ امداد باہمی کے آ زاد سماج میں یہ سب کچھ بے غرض، بے لوث، رضا کا رانہ اور قدر زائد کے حصول کے بغیر ہو گا)۔ اس سمت میں ہمیں تلاش ہو گی کہ سماج کا ڈھانچہ کس طرز کا ہو جو ریاست کی جگہ لے۔ جب ہم اس بات پر غور کر تے ہیں کہ کس طرح امن و امان قائم ہو گا اور عوامی کاروبار کس طرح چلے گا، جب ریاست ختم ہو جائے گی۔ اس کی جگہ رضا کار تنظیموں کے ذریعے جو فی الفور قائم ہو نگی اور خصوصی مقاصد کی تکمیل میں مدد کریں گی۔
ہر تجارت اور کاروبار کو ایسی سوسائٹی چلا ئے گی جو رضاکارانہ بنیاد پر قائم ہو گی، جسے ایسے افراد تشکیل دیں گے جو مخصوص کام سر انجام دینا خود ہی پسند کریں گے۔ یہ ادارہ اپنے عملے کا خود ہی انتخاب کرے گا۔ خود ہی معزول کرے گا۔ اپنی پالیسی خود مر تب کرے گا اور اپنے ہی جیسے دوسرے اداروں سے آزادانہ تعاون کرے گا۔ یہ ایک پیچیدہ تانا بانا ہو گا، جہاں ہر جگہ نظم و ضبط ہو گا مگر جبر عنقا۔ ان ہی خطوط پر ایک انارکسٹ سماج قائم ہو گا۔ انارکی کے لیے جیسا مسٹر لوئس ڈکنسن کا کہنا ہے، اس میں نظم و ضبط غیر مو جود نہ ہو گا بلکہ اس میں جبر و غلبہ مفقود ہو گا۔
یہ ایسوسی ایشنز، گروہ اور فیڈریشن مختلف قسموں، جسامت اور تعداد کی ہونگی اور یہ ہر قسم کے کام اور مختلف مقاصد کے لیے ترتیب پائیں گی۔ سماج میں ہم آہنگی ان قوتوں کے توازن اور اثرونفوذ سے حا صل کر لی جا ئے گی۔ ان کے اثر سے سمت اور حدود کی تبدیلی آتی رہے گی۔ یوں ان میں پائے جانے وا لے توازن کو بار بار ہم آہنگ کر نے کی ضرورت پڑے گی۔جہاں کو ئی خوشہ چین ایسوسی ایشن یا مراعات یافتہ طبقہ نہ ہو گا، مزید براں جہاں کو ئی ریا ست نہ ہو گی جو سماج کے ایک طبقے کی حفاظت دوسرے کو نقصان پہنچا کر کرے، وہاں ایسا توازن حاصل کر نا کہیں آسان ہو گا بہ نسبت موجودہ حالت کے مقا بلے میں۔
رضا کارانہ انجمنیں موجود ہونگی تا کہ ہر وہ مقصد حاصل کیا جا ئے جو لو گوں میں مشترک ہو۔ ان میں سے کچھ پیشوں کی بنیاد پر اور کچھ خطوں کی بنیاد پر ہونگی۔ باہمی طور پر وہ تمام فرا ئض ادا کریں گی، جن پر آ ج کل ریا ست کا اجا رہ ہے۔ یوں ایک جدید اصطلاح اختیار کر تے ہو ئے کہا جا سکتا ہے کہ انارکزم سب سے آ گے اور سب سے پہلے عدم مرکزیت کی و کا لت کر تا ہے۔ جس میں علا قائی اور عملی دو نوں صورتیں شامل ہیں۔ یہ سماج کا ڈھا نچہ چھو ٹی سے چھوٹی انجمن پر کھڑا ہو گا، چا ہے وہ کسی دیہہ کی ہوں یا کسی کارخانے کی، اس کے بعد بقیہ سماجی تانا اسی بنیادی عمارت اور اکا ئی سے ترتیب پائے گا۔
یہ ترقی ہمیشہ فطری طور پر ایک سا دہ ترقی سے شروع ہو کر نہایت پیچیدہ ترقی کی طرف بڑھے گی۔ یوں آج کل کے برعکس، جہاں سب سے چھو ٹے اور سادہ گروہ کو حقیر سمجھا جا تا ہے، انارکزم کے تحت یہی سا دہ اور چھو ٹے گروپ انتہا ئی اہم حیثیت حا صل کر لیں گے بلکہ یہ ترقی کے لیے ایک مرکزی کھونٹے کا کام انجام دیں گے، جس پر سارے نظام کا دارو مدار ہو گا۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہوگا جو مفادات میں کمی بیشی کو پو را کرے گا، بکھر نے سے بچائے گا اور متفرق گروہوں میں خیر سگالی قائم رکھے گا؟ جب لوگ مناسب تعلیم یافتہ ہوں گے اور جب غریب اور امیر کی نا برابری نہ ہو گی جو عدم اطمینان پیدا کر تی ہے اور اجارہ داریوں کے لیے ریاستی حفاظت نہ ہو گی جو جلتی پر تیل کا کام کر تی ہے۔
مفادات میں شاذ و نادر تصادم ہو گا اور نا اتفاقی کے واقعات نہ ہو نے کے برابر ہونگے۔ لوگوں کی پہل کرنے کی صلاحیت کے سوتے حکومت کی دا دی اماں والی عادت کی عدم موجودگی سے نہ سوکھیں گے اور جن کے مفادات حکومتی مداخلت کی وجہ سے نا کام ہونگے وہ آزادانہ پر وان چڑھیں گے۔ پھر آ زاد اور پو ری ترقی سے ملنساری کے لطیف جذبات ان حدود کو چھوئیں گے، جنھیں ابھی تک کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ یہ مسابقت ہے جو دشمنی کو جنم دیتی ہے۔
مسابقت کو اڑا دیجیے، پھر دیکھیے انسان کی دوستانہ فطرت کس طرح پروان چڑھتی ہے اور گہری ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ ہر اجنبی گروہ ایک حریف سمجھ کر اس سے ڈر نے اور اسے نیچا دکھا نے کے بجا ئے دوست سمجھا جانے لگے گا۔ وہ اسے ایک دوست سماج سمجھیں گے۔ جسے ان کے خوشگوار تعاون کی ضرورت ہو گی اور وہ اس کے حصول کے لیے انھیں مد عو کریں گے۔ یہ در اصل ایک جنت نما دنیا ہو گی، ساری دولت سا رے لوگوں کی ہو گی۔ کو ئی سرحدیں ہو نگی اور نہ کوئی طبقہ، چہار طرف محبتوں کی خوشبو سے دنیا معطر ہو گی۔