کامیابی یقین کے ساتھ ہے

یقین ایک بہت چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے وجود کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ایک لامحدود سمندر ہے جس میں ڈوبنا ممکن نہیں۔

shehla_ajaz@yahoo.com

ابھی کل کی بات ہے کہ ایک عمر رسیدہ نوے سالہ شخص نے امریکا میں غریبوں کو مفت کھانا کھلانے کا اہتمام کیا۔ اس کھانے کے لیے مستحقین کی ایک بھیڑ تھی لیکن جلد ہی اس بوڑھے شخص کو امریکی پولیس نے ان کے طعام سمیت گرفتار کر لیا۔ ان بزرگ کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ وہ یہ جنگ جلد جیت لیں گے اور اپنے اس کام کو بخوبی انجام دیں گے۔

چند مہینوں پیشتر ہی امریکا میں اس قسم کے طعام پر پابندی عائد ہو چکی ہے، یہ ایک دلچسپ سا مرحلہ تھا جب ایک شخص جو اپنی زندگی کی ساری خوبصورت بہاریں گزار چکا ہے اور اپنا آخری وقت خدا کے ان بندوں کے لیے وقف کرنا چاہتا ہے جنھیں باآسانی خوراک میسر نہیں ہے لیکن حکومتی پابندی کا کیا ہو سکتا ہے جس کی کوئی منطق عقل میں نہیں سماتی لیکن ان بزرگ کو یقین ہے کہ جلد ہی وہ اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔

یقین ایک بہت چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے وجود کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ایک لامحدود سمندر ہے جس میں ڈوبنا ممکن نہیں۔ دراصل کامیابیوں کا راز ہی اس یقین میں ہے لیکن اگر یقین کا ساتھ منفی رجحانات سے ہو تو شبہ ہے کہ ایسا یقین اپنے ساتھ بہت سے دوسروں کو بھی لے ڈوبے۔

ہمارے مذہب میں یقین کی حد خدا باری تعالیٰ سے ایک ایسا مضبوط رشتہ جوڑتی ہیں جو انسان کے دل میں سکون اور اعتماد کی ایسی فضا برقرار رکھتی ہے کہ جو اسے ہر منزل ہر قدم متزلزل نہیں ہونے دیتی اور اسی سکون اور اعتماد کی بدولت انسان ہر مختلف اور پیچیدہ صورتحال سے باآسانی نبٹ لیتا ہے اور اسے ہی ہم اپنے یقین کا مظہر بھی کہتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ صرف کامیابیاں ہی مقرر ہوں لیکن کئی بار ناکامی بھی کامیابی کا عکس ہوتی ہے لیکن اس کی ہمیں سمجھ نہیں آتی ہم شکوہ کرنے لگتے ہیں اور جب ناکامی کے بعد کامیابی کی منزل پر پہنچتے ہیں تو اسے اپنی عقل کا کمال سمجھتے ہیں جب کہ درحقیقت یہ اسی ذات باری کا کمال ہے جو ناکامی کے بعد کامیابی اور کامیابی کے بعد ناکامی کا رخ دکھاتا ہے دراصل یہ دونوں رخ اسی ذات کی جانب سے ہوتے ہیں کسی نے بہت خوبصورت بات کہی کہ ''مشکل وقت تو گزر جاتا ہے اور اللہ تو آپ کا ظرف آزماتا ہے'' اس کا سادہ الفاظ میں مفہوم یوں ہے کہ مشکل وقت میں ہم کس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔


اپنے آپ کو کوسنے کاٹنے یا خدا سے گلہ شکوہ کرتے ہیں، نصیبوں کو روتے ہیں یا اپنے خدا پر مکمل یقین رکھتے ہوئے اس کٹھن گھڑی سے نبٹنے کی سوچتے ہیں، کتابوں میں تو یوں بھی لکھا ہے کہ ہمارا یہ یقین ہمیں ان بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے کہ جب ایسے مشکل اور دشوار مرحلوں میں خدا اپنے بندوں کی مدد کے لیے فرشتے بھیجتے ہیں تاکہ مشکل اور کانٹوں بھرا دشوار راستہ ایسا نرم پھولوں جیسا ہوجائے کہ ان کے پیارے بندوں کو اس کی اذیت نہ ہو، وہ مصائب کو دیکھے، محسوس بھی کرے لیکن باآسانی سہل طریقے سے گزر جائے۔ اسے باآسانی آزما کر دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنے دل کو بھی اتنا صاف اور پاکیزہ کر لینا ضروری ہے کیونکہ یہ دل ہی تو ہے جو اس یقین پر اپنی پکی مہر ثبت کرتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے اپنے یقین کے بل بوتے پر کامیابیاں حاصل کی ہیں خاص کر اسلامی تاریخ کے حوالے سے یہ درج ہے کہ خدا پر یقین نے مٹھی بھر لوگوں کو بڑے بڑے لشکروں پر فتح دی، لیکن آج کل کی عملی دنیا پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو یقین کی باتیں ایسے جذباتی انداز میں سننے کو ملتی ہیں کہ جس سے پہاڑوں سے دودھ کا دریا نکالا جا سکتا ہے یا ستارے توڑ کر زمین پر بکھرے جاتے ہوں لیکن درحقیقت صرف خالی خولی الفاظ کے سہارے کام چلایا جاتا ہے۔

ایک ریاست کے حوالے سے یقین کی بہت اہمیت ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی، مفروضوں پر ہی عمل کر کے اپنے کام جھاڑ کر ذمے داریوں سے سبکدوش ہوا جاتا ہے، ہمارے یہاں بہت سی فلاحی تنظیموں کے بارے میں معلوم کیجیے لوگوں نے کس طرح اپنے یقین کی بدولت کس طرح کام شروع کیا اور آج وہ عوام میں کس طرح بنا کسی سیاسی اور دنیاوی فائدے کے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں یہ یقین ہی تو ہے جو برکت کی صورت میں اتنا پھیل جاتا ہے کہ کدھر سے آ رہا ہے پتہ نہیں چلتا لیکن سلسلہ خدمت پھیلتا ہی جاتا ہے۔

خوش قسمتی سے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لیکن اس ریاست میں اہم بنیادی ڈھانچے میں ساٹھ برس سے زائد گزر جانے کے بعد تعمیراتی مراحل جاری ہیں کیونکہ ہم اپنے آپ پر یقین نہیں کرتے ہم کبھی مشرق تو کبھی مغرب کی سمت پکڑتے ہیں انگریزوں کے بنائے قوانین کو برا بھی کہتے ہیں فرسودگی کا رونا بھی روتے ہیں لیکن ان فرسودہ قوانین پر بھی پوری طرح عمل نہیں کرتے حالانکہ قوانین تو ہمارے سامنے واضح ہیں لیکن ہم ان سے احتراز برتتے ہیں، ترقی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے سامنے قوم کے بچوں سے پہلے اپنے اور اپنے عزیز رشتے داروں کے بچے آ کھڑے ہوتے ہیں اور اچھا وقت جلدی گزر جانے کا خوف ہم سے ترقی کرنے کا حق چھین لیتا ہے ہم عہدوں پر اہل اور حق دار کی بجائے اپنے چاچا، ماموؤں کی اولاد کو بٹھانے پر ذرا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔

''ابھی ورنہ کبھی نہیں'' کے مفروضے پر عمل کرتے ہوئے جلدی جلدی اپنی جیبیں بھرتے ہیں، کیونکہ انھیں یقین ہے کہ انھوں نے اپنے ہی لوگوں کے ساتھ اتنا برا کیا ہے اس کے ردعمل میں انھیں کیا ملنا ہے، اگر اسے ذرا طوالت کے پیرائے میں ڈالا جائے تو اگر خدا پر یقین کو پختہ کیا جاتا تو اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے لوگوں کی ضرورتوں اور ان کے حقوق کا خیال رکھتے اور بدلے میں اتنی برکت اتنی کشادگی اور وسعت ملتی کہ ایک دس کا نوٹ بھی ہزار روپے پر بھاری ہو جاتا۔ لیکن ابھی تک ہماری قوم پر یقین کی یہ کیفیت آئی نہیں ہے اسی لیے پانچ کروڑ کی پانچ لاکھ اور پانچ لاکھ کی حقیقت چند سو روپے پر آ گئی ہے۔ آگے بڑھنے کا سفر محض وقت گزاری نہیں ہے بلکہ یقین اعتماد اور بھروسے کا وہ پیمانہ ہے کہ جسے مضبوطی سے تھام کر دنیا کے نقشے پر بہت سے چھوٹے ممالک کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں اور ہم ابھی تک ابہام اور قیاسوں میں الجھے ہیں۔
Load Next Story