مینگل اور مجیب کے 6 نکات

بلوچ رہنما اختر مینگل نے جو 6 نکات پیش کیے ہیں اس کا کوئی موازانہ مجیب الرحمٰن کے نکات سے ہرگز نہیں کرایا جا سکتا


Tahir Sarwar Mir September 30, 2012
[email protected]

ہمارے ہاں ان دنوں بلوچوں سے معافی مانگنے اور اپنے کردہ گناہ بخشوانے کی تشہیری مہم چلائی جا رہی ہے۔

حکومت اور ریاستی اداروں نے تو بلوچستان کے مسئلے کو ''موسمی خرابی'' کا نتیجہ قرار دے کر اپنا پلہ جھاڑ دیا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کا رویہ تو اتنا تکلیف دہ ہے کہ بلوچستان کے مقدمہ کو قدرتی آفت سمجھ کر NDM (نیشنل ڈیزاسٹرز مینجمنٹ) تک کے سپرد نہیں کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اتنا تردد ضرور کیا جا رہا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اور بعض قائدین ناراض بلوچی لیڈروں کے ساتھ '' فوٹوشوٹ'' کرا کر گونگلووں (شلجموں) سے مٹی جھاڑنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں، میرے نزدیک قائدین کی یہ کوشش بہرحال سراہے جانے کے لائق ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا کہ

مارنے کے بعد اس کو دیر تک روتے ہیں وہ
اپنے کردہ جرم سے ایسے رہا ہوتے ہیں وہ

ہماری ٹریجڈی یہ ہے کہ ہم آج بھی بلوچوں پر ہونے والے ظلم و ستم، استحصال، دھونس اور ریاستی جبر کو تسلیم کرنے کے بجائے سچ اور حقائق کی پلاسٹک سرجری کرنے میں مصروف ہیں۔ آج بھی کئی سیاسی شیدے یہ کہہ رہے ہیں کہ اختر مینگل اور شیخ مجیب الرحمٰن کے 6 نکات ایک جیسے اثرات کے حا مل ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے جس کا احاطہ سفید جھوٹ کی اصطلاح کرنے سے قاصر ہے۔ بلوچ رہنما اختر مینگل نے جو 6 نکات پیش کیے ہیں اس کا کوئی موازانہ مجیب الرحمٰن کے نکات سے ہرگز نہیں کرایا جا سکتا۔

اخترمینگل اور مجیب نکات کے موازانہ کے لیے پہلے مینگل کے نکات پر نظر ڈالتے ہیں (1) بلوچ عوام کے خلاف تما م خفیہ اور کھلے ملٹری آپریشن بند کیے جائیں (2 ) تما م لاپتہ افراد کو بازیاب کرا کر عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے (3) تمام ڈیتھ اسکواڈ ختم کیے جائیں (4) بلوچ سیاسی جماعتوں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر سیاسی سرگرمیاں چلانے کی اجازت دی جائے (5) بلوچ رہنماوں اور کارکنوں پر غیر انسانی تشدد، اذیت رسانی، قتل اور لاشوں کو گم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے (6) کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہزاروں بلوچ عوام کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اختر مینگل نے جو 6 نکات پیش کیے انھیں لفظوں کا کوئی بڑے سے بڑا ''اشوکا دی گریٹ'' اور سیکنڈ آپشن کے طور پر ''الیگزینڈر دی گریٹ'' مجیب الرحمان کے 6 نکات کے مشابہ قرار نہیں دے سکتا۔

بلوچ رہنما سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ میرے 6 نکات کو شیخ مجیب کے نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے۔اختر مینگل اور مجیب کے نکات کو محدب عدسوں سے پڑھا جائے تو ان میں اتنا ہی فرق ہو گا جتنا سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ اور ہندووں کی گیتا میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اختر مینگل اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے 6 نکات کو شیخ مجیب کے نکات سے علیحدہ نہ سمجھا جائے تو وہ ہمیں خبر دار کر رہے ہیں کہ کہیں اس بار پھر دیر نہ ہوجائے!!!! مجیب الرحمٰن نے جو چھ نکات پیش کیے تھے ان پر عمل کیا جاتا تو خدانخواستہ پاکستان کے 6 ٹکڑے ہو جاتے۔

یہ بھی ایک تاریخی سوال ہے کہ ''بنگالی بھائیوں'' جنہوں نے تحریک پاکستان میں ہندوستان سے علیحدگی کے لیے ہراول دستے کا کام کیا تھا وہ ہم سے اس قدر متنفر کیوں ہوئے؟ شیخ مجیب الرحمٰن کو 6 نکات پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کی تفصیلات کو چھپانا ایک طویل عرصہ تک ہماری ریاستی پالیسی رہی ہے مگر کسی نہ کسی طرح قومی سلامتی کے غبارے سے ہوا نکلی اور عوام کے سامنے یہ راز افشاء ہوا کہ بنگلہ دیش بنانے کا سہرا مجیب الرحمٰن کے ساتھ، ساتھ فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل آغا یحییٰ خان کی جرنیلی پالیسیوں کے سر بھی ہے۔ جنہوں نے لگ بھگ چودہ سالوں پر محیط اپنے عرصہ حکمرانی کو پاکستانی عوام کے لیے قید بامشقت بنائے رکھا اور جب رہائی ملی تو آدھا پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔

شیخ مجیب الرحمٰن نے 25 مارچ 1966کو چھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ چار سال بعد 1970میں معمولی رد و بدل کے ساتھ یہی نکات عوامی لیگ کے انتخابی منشور کی اساس بنے۔ (1) ملک کا طرز حکومت وفاقی اور پارلیمانی ہو گا۔ وفاقی مقننہ میں نمایندگی آبادی کی بنیاد پر دی جائے گی۔ (2) وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور امور خارجہ کی وزارتیں ہوں گی جنہیں بعض نکات کے ساتھ مشروط کیا جائے گا۔ (3) ملک کے دونوں حصوں میں دو الگ، الگ کرنسیاں ہوں گی ( 4) صوبے اپنی اقتصادی پالیسی خود تیار کریں گے۔ (5) آئین کے تحت صوبوں کے زر مبادلہ کے لیے دو علیحدہ حسابات کا نظام قائم کیا جائے گا، جو کہ متعلقہ صوبہ کی حکومت کے زیر اہتمام ہو گا۔۔۔۔ اور سب سے آخر میں مجیب الرحمان کا نکتہ نمبر 6 یہ تھا کہ صوبائی حکومتیں سالمیت میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کے لیے نیم فوجی فورس قائم کرنے کی مجاز ہوں گی۔

دوسرے الفاظ میں ''بنگالی بھائی'' اپنے لیے ایک متوازی فوج بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ قارئین! مینگل اور مجیب الرحمٰن کے 6 نکات میں پائے جانے والے فرق کو سمجھنے کے لیے آپ کو 11بجے والے اینکر پرسن یا کسی ابو الکالم کے وعظ کی ضرورت نہیں۔ ہر کوئی مینگل اور مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کے مابین پائے جانے والے فرق کو سمجھ رہا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''بلوچستان میں کوئی ڈیتھ اسکواڈ ہے اور نہ آ پریشن ہو رہا ہے''۔ پاکستان کے سیاسی رسم و رواج کے مطابق اپوزیشن ببر شیر کی اور حکومت بکری ''فیم'' سیاست کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن بلوچستان کا مسئلہ اتنا سنگین اور سنجیدہ ہے کہ اس پر پوائنٹ اسکورننگ کرنے کے بجائے حکومت، فوج، عدالت، سیاسی جماعتوں، سیاسی قائدین، میڈیا اور دوسرے حلقوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ قومی سلامتی کا قبلہ رخ آزاد پارلیمان کی طرف کرنا ہو گا۔

خدا ہمیں 16 دسمبر1971جیسا دن نہ دکھائے جب صبح 9 بجے لیفٹیننٹ جنرل ٹائیگر خان نیازی نے ڈھاکا کے ریس کورس میدان میں بھارتی جنرل جگ جیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ''ٹائیگر'' نیازی اور بھارتی جنرل اروڑہ سنگھ نے مفتوح اور فاتح کی حیثیت سے سقوط ڈھاکا کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ بعض حضرات 1970 کے غیر جانبدارانہ عام انتخابات کو بنگلہ دیش کے قیام کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ جس میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے میدان مار کر پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا ''جواز'' فراہم کیا تھا۔

70 کے ان ''سبق آموز'' انتخابات کے بعد بھی آئی جے آئی سمیت قومی اسمبلی کی 15سے 25 نشستیں حاصل کرنے والی فاسٹ پیس (تیز طرار) پارٹیاں وجود میں لائی گئیں جن کے دم قدم سے ہنگ پارلیمنٹ کا پارلیمانی دھندہ شروع کرایا گیا۔ آیندہ قومی الیکشن میں ایسے مزید ہیروز متعارف کرائے جائیں گے۔ ان کیری پیکروں کو قومی سیاست کے اس کاروبار میں بلوچستان کو شامل کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں