شہری مسائل کب حل ہوں گے

پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا ہو ان مسائل کی حکومتی اداروں تک رسائی کاایک اہم اورمؤثرذریعہ ثابت ہوتا ہے۔

گوئٹے کہتا ہے! ''بے عمل زندگی موت سے پہلے موت ہے'' ہمارا معاشرہ مسائل کا گڑھ ہے دنیا کا کوئی حصہ نہیں جو مسائل سے خالی نہ ہو، جہاں محض انفرادی مفاد وابستہ ہوں وہاں مسائل کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جب تک ہم انفرادی طور پر ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس کر لیں تو آدھے مسائل ہمارے خود بخود حل ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر مسائل ہمارے ہی خود ساختہ ہوتے ہیں۔ مگر کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جو حکومتی یا ریاستی اداروں کے تعاون کے بغیر نہ ممکن ہوتے ہیں۔

پریس میڈیا خواہ وہ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا ہو ان مسائل کی حکومتی اداروں تک رسائی کا ایک اہم اور مؤثر ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کا کثیر آبادی کا شہر اور سابقہ دارالحکومت کراچی اپنی علاقائی وسعت، صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کے لحاظ سے مِنی پاکستان کہلاتا ہے۔ اس شہر میں آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے مسائل بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا نظام ہے۔

سابقہ شہری حکومتوں کے دور میں ٹریفک کے مسائل کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور قابلِ ذکر کام بھی ہوا جس میں نمایاں طور پر مختلف مقامات پرسگنل فری فلائی اوورز کی تعمیر جس کا کام راتوں رات انجام دیا گیا۔ ٹریفک کی بلا رکاوٹ روانی کی غرض سے یو ٹرن، پیدل سڑک عبور کرنے والوں کے لیے پیڈسٹرین پُل تعمیر کیے گئے تا کہ ہر خاص و عام بآسانی سڑک کے ایک طرف سے دوسری طرف عبور کر سکیں۔ لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ پیڈسٹرین قابلِ استعمال نہیں ہیں ۔

اُس کی وجہ یہ ہے کہ پُل پر نشے بازوں کا قبضہ ہے۔ کبھی کبھی یہاں سے گزرنے والے افراد لوٹ مار کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے شہر کے کچھ پیڈسٹرین اُن کے استعمال میں نہیں ہیں وہ سڑک کے درمیان میں بنے ہوئے آہنی گرل توڑ کر سڑک کراس کرنے پر مجبور ہیں۔ اکثر و بیشتر ان گرل کو کراس کرنے کا عمل عجلت میں کرنے کی وجہ سے مہلک حادثات کا سبب بن رہے ہیں۔

شہر میں بیشتر اموات ٹریفک کی لا قانونیت کی وجہ سے ہی ہو رہی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ انفرادی طور پر شہریوں کا بھی فرض ہے کہ سڑک کراس کرتے وقت صبرو تحمل اور ٹریفک قوانین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ کریں جس سے نا صرف حادثات میں کمی آ سکتی ہے بلکہ ٹریفک میں روانی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتی ہے۔ فیڈرل بی ایریا میں تعمیر شدہ طویل ترین سگنل فری فلائی اوور جو کریم آباد سے لیاقت آباد پر ختم ہوتا ہے۔


جب ہم کریم آباد سے فلائی اور پر چڑھتے ہیں تھوڑے ہی فاصلے پر سڑک کے درمیان میں لوہے کی دھاردار بلیڈ نما پٹی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے جو سڑک کی سطح سے خاصی بلند ہے۔ جب گاڑی یا موٹر سائیکل کا اس پٹی سے گزر ہوتا ہے تو ٹائر جھٹکے سے پھٹ جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے اس پٹی سے بچنے کے لیے لوگ فٹ پاتھ کا استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ اس پٹی کو سڑک کے ساتھ ہموار کر دیا جائے تا کہ تیز رفتار ٹریفک میں کسی قسم کا خلل نہ ہو پائے ۔

ہم چونکہ عوام میں ہی رہتے ہیں اس لیے ہمارا شمار بھی ایک آدمی کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عام آدمی کے مسائل اور ان کے تدارک کے بارے میں وہی شخص جان سکتا ہے جو خود اپنی ذات میں عوامی ہو۔ بہرحال یہاں ہمارا مشاہداتی زاویہ نگاہ ایک اہم قومی اور عوامی پہلو جو یہاں بیان کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ آئی آئی چندریگر روڈ کراچی کی مصروف ترین قدیم سڑک جو شاہین کمپلیکس سے ٹاور کی طرف جاتی ہے اور اس کو مصروف ترین اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سڑک کو کمرشل ہب ہونے کی وجہ سے اس پر تمام کمرشل اور تجارتی بینکوں کے مرکزی دفاتر، پولیس ہیڈ آفس، اسٹیٹ بینک، کراچی اسٹاک ایکسچینج، جنرل پوسٹ آفس، اخباری دفاتر اور مختلف الیکٹرانک میڈیا کے مرکزی دفاتر کے علاوہ ریلوے کا سٹی اسٹیشن قائم ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس سڑک پر صبح و شام آئی جی، ڈی آئی جی، گورنر اسٹیٹ بینک اور اعلیٰ حکام کا گزر رہتا ہے۔

گو کہ اس سڑک پر بھاری گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے اس کے باوجود اس سڑک پر ٹریفک کا رش روز کا معمول ہے۔ شاہین کمپلیکس اور حبیب بینک پلازہ ایسے خطرناک مقامات ہیں جہاں پانچ اطراف سے مختلف سڑکوں کا ملاپ ہے۔ ان دو مقامات پر سڑک عبور کرنا ایک نہایت ہی جان لیوا اور مشکل کام ہے، سڑک کراس کرتے ہوئے گردن ریوالونگ رکھنی پڑتی ہے۔ ان دو مقامات پر پیڈسٹرین کی تعمیر بہت ضروری ہے تا کہ سڑک عبور کرنے کے عمل کو محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔

بالخصوص حبیب بینک پلازہ کے بالمقابل واقع مسجد تک جانے کے لیے پیڈسٹرین کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ارد گرد میں کام کرنے والے نمازی حضرات مسجد تک پہنچنے میں تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا وقت سڑک کو عبور کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی وجہ سے 24 گھنٹے مسافروں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی قائم رہتا ہے۔ ہم اس کالم کے توسط سے متعلقہ حکام ، شہری بلدیاتی ادارے بالخصوص ایڈمنسٹریٹر کراچی جناب شعیب احمد صدیقی کی توجہ اس گھمبیر مسئلے کی طرف کرانا چاہتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ ترجیحی بنیادوں پر ان دو مقامات پر پیڈسٹرین تعمیر کر دیا جائے جس کے ہم اُن کے دلی طور پر مشکور رہیں گے۔

ہمارا قومی المیہ اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جب تک ہم کسی خطرناک حادثے سے دو چار نہ ہو جائیں ہم نہیں جاگتے۔ سانپ گزر گیا لکیر پٹتے رہیں گے کے مصداق اپنے وقت کا ضیاع کرتے رہیں گے۔ کچھ کام اپنی مدد آپ کے تحت بھی سر انجام دیے جا سکتے ہیں بجائے حکومتی ارکان کو تنقید کا نشانہ بنانے کے...
Load Next Story