مسحور کن شاعر فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 30 برس بیت گئے

فیض نے انقلاب اوررومانس کواپنے کلام میں ایسے انداز میں پیش کیا کہ ان کے اشعار کی مہک آج بھی تروتازہ لگتی ہے۔

1963 میں فیض کو لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا اور وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے ایشیائی ادیب تھے۔ فوٹو؛فائل

معروف شاعر اور ادیب فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 30 برس بیت گئے۔


اردو ادب کو جن تخلیق کاروں نے عالمی سطح پر نمایاں مقام دیا ان میں فیض احمد فیض کا نام سر فہرست ہے۔ فیض نے انقلاب اور رومانس کو اپنے کلام میں ایسے پر فکر اور مسحور کن انداز میں پیش کیا ہے کہ اشعار کی مہک آج بھی تروتازہ لگتی ہے۔ فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ کالج کی ادبی فضا میں ہی اگرچہ فیض نے شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا تاہم ترقی پسند تحریک کا رکن بننے کے بعد ان کی شاعری غمِ جاناں کے کرب سے آگے نگل گئی۔
فیض کا تخلیقی سرمایہ نو شعری ، دو نثری اور ایک مجموعہ خطوط پر محيط ہے، 1963 میں فیض کو لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا اور وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے ایشیائی ادیب تھے، فیض کا کلام دنیا کی کئی زبانوں میں منتقل ہوچکا ہے جب کہ ان کے الفاظ ، استعارے اور شاعرانہ اسلوب آج بھی آگہی کے محرک کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ ان کے مقبول شعری مجموعوں میں نقش فریادی، زندان نامہ، میرے دل میرے مسافر شامل ہیں اور ان کے تمام مجموعے نسخہ ہائے وفا کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔

9 مارچ 1951 میں فیض كو راولپنڈی سازش کیس میں معا ونت كے الزام میں اس وقت کی حكومت نے گرفتاركرلیا جس کے بعد 4 سال تک سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔
Load Next Story