بات کچھ اِدھر اُدھر کی ’’ری انیکٹمنٹ‘‘ وارداتوں کا نیا انداز
یہ سب کچھ قانون سے آگاہی نہیں بلکہ حقیقت بیانی کے نام پر ذہنی بیماروں کو تیسرے درجے کی تفریح مہیا کی جارہی ہے۔
ٹی وی انڈر کنٹر ول میڈیا ہے جبکہ انٹرنیٹ ایک آزاد میڈیا ہے۔ یعنی ٹی وی پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ سب کچھ کسی نہ کسی کے کنٹرول میں ہوتا ہے دوسری جانب انٹرنیٹ پر جو بھی مواد ہو ،جیسا بھی ہو ہر شخص ڈال بھی سکتا ہے اور اس کا پرچار دنیا بھر میں کر بھی سکتا ہے۔ میڈیا کے بہت سے مثبت کردار ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں کے جن کو سدھار کی اشد ضرورت ہے۔ جن میں سے ایک ری انیکٹمنٹ یا ڈرامہ ٹائزیشن ہے۔ ایک سچی کہانی کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے کو ری انیکٹمنٹ یا ڈراماٹائیزیشن کہا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ جب ڈرامائی انداز لاکھوں کڑوروں لوگ دیکھتے ہیں تو ان پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ بہت سے خاندانی جرائم جو کہ عوام الناس کو پتا نہیں ہوتے مگر وہ ان ڈرامائی انداز سے دکھائے جانے والے پروگراموں سے باآسانی پتا چل جاتے ہیں۔ ان میں بہت سے جرم اور گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر نابالغ اور نا پختہ دماغوں کو جرم کرنے کے مختلف طریقہ کار پتا چلتے ہیں۔خصوصاً ایسے افراد جو مہنگائی، بے روزگاری،افلاس اور دیگر وجوہات کی بناء پر پریشان ہیں، ان لوگوں کو یہ پروگرام ایک اسکول آف تھوٹ مہیا کرتے ہیں۔ جس کو دیکھنے کے بعد چاہے مرد ہو یا خاتون وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آخر کار انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے۔
2009 میں سکھر کے شاہ لطیف تھانے میں ایک ایف آئی آر جس کا نمبر 52/09 درج کی گئی اور یہ ایف آئی آر دفعہ 302 اور 345 یعنی قتل اور اقدام قتل کے زمرے میں درج کی گئی۔ اس کا کچھ احوال یوں ہے کہ سکھر میں ایک لڑکے نے اپنے سگے بھائی کو جان سے مارنے کے بعد اپنی بھابی سے شادی کی خواہش ظاہر کی ، لیکن اس کی بھابھی نے صاف انکار کر دیا۔انکار سننے کے بعد لڑکا اشتعال میں آگیا اور اپنے بھائی کی بیوی کو بھی مارنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس لڑکے کی بھابھی یعنی مقتول کی بیوی بھاگ کے کسی طرح تھانے پہنچی جس کے بعد علاقہ پولیس حرکت میں آئی اور قاتل کو گرفتار کر لیا۔ دوران تفتیش یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ قاتل نے بتایا کہ اس نے یہ سب کچھ ری انیکٹمنٹ کا پروگرام دیکھنے کے بعد کیا، کیوں کہ پروگرام کے مطابق قاتل اپنے بھائی کو قتل کر کے اپنی بھابھی کے ساتھ شادی کر لیتا ہے اور دونوں شہر سے بھاگ جاتے ہیں ۔اس لڑکے نے بھی سوچا کہ کیوں نہ یہی کیا جائے جس پر اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بھارت کہ شہر دہلی میں2007 میں سات لڑکوں کا ایک گروپ جو نئی بائیکوں پر بینک چوری کی نیت سے نکلا، مگر سب کے سب پکڑے گئے ۔ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ تمام لڑکوں نے اپنے والدین اور مختلف طریقوں سے رقوم جمع کر کے نئی بائیکیں خریدئیں تاکہ ان پر وہ چوری کی مختلف کارروائیاں کر سکیں۔ اور یہ سب کچھ ان لڑکوں نے بھارت میں 2004 میں بننے والی ایک فلم دھوم سے متاثر ہوکر کیا تھا۔
آج کل ہم دیکھ سکتے ہیں ایسی چیزیں جو پرائم ٹائم میں نہیں چلتی وہ سب ری انیکٹمنٹ کے نام پر چلتی ہیں۔ گناہ سے زیادہ گناہ کا خیال لذت انگیز ہوتا ہے۔ ری انیکٹمنٹ کے نام پرمعاشرے کے ان اشوز پر قلم اٹھایا جا تا ہے جو معاشرے کے سدھار کے بجائے مزید بگاڑکا سبب بنتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ جن موضوعات کا احاطہ کرنے کی اجازت پاکستانی معاشرے کی روایات اور اقدار نہیں دیتی انہی کا اوچھے اور گھٹیا موضوعات پر مبنی اسکرپٹ تیار کر کے فحاشی اور عریانیت کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ غیرمعیاری و غیر معروف اداکاروں کی کاسٹ کے باوجود اس طرح کے ڈراموں کو بڑی تعداد میں اشتہار ات بھی مل رہے ہیں۔
پاکستانی میڈیا گروپوں،سول سوسائٹی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ افراد کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چائیے کہ اس طرح کے بیہودہ ڈراموں سے جنسی تسکین، جرائم کی تربیت اور خاندانی نظام پر براہ راست ضرب لگ رہی ہے۔ یہ سب کچھ قانون سے آگاہی نہیں بلکہ حقیقت بیانی کے نام پر ذہنی بیماروں کو تیسرے درجے کی تفریح مہیا کی جارہی ہے، جو ذ ہنی مریضوں کے لئے توشاید تسکین کا باعث ہولیکن نوجوان نسل، بچوں اور خواتین پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر مشترکہ خاندانی نظام جو پاکستانی معاشرے کی پہچان ہے، اس کے نام پر ایسے نون ایشوز کو ابھارا جا رہا ہے کہ جس نے مشترکہ خاندانی نظام کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ سسر بہو کا افیئر، دیور بھابھی کے نا جائز تعلقات ،بیگم اور شوہر کے شادی جیسے مضبوط رشتے پر بر اہ راست حملہ کر کے دونوں رفیق اپنے اپنے اشناؤں سے غیر اخلاقی روابط رکھنے پر مبنی جیسے پروگرام ری انیکٹمنٹ کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ بعض اوقات ان ڈراموں کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسی اسکرپٹ لکھنے والا جنسی بیمار ہو یا ذہنی بیمار ہوجو محض اپنی تسکین کے لئے اپنے دیکھنے والوں کے مخفی اور منفی جذبات ابھار رہا ہو ،انہیں لذت گناہ کی رنگینیوں سے آشنا کر رہا ہو اور حقیقت بیانی کے نام پر انہیں غلط راستہ اختیارکرنے کی ترغیب دے رہا ہو۔
سوچنے کی بات یہ کہ ایسے ڈرامے اور پروگرام جو معاشرے کو تباہی کی طرف لے کے جارہے ہیں انہیں کڑورں روپے کے اشتہارات دینے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟آخر کیا وجہ ہے کہ تیسرے درجے کہ غیر معروف اداکار ہی ایسے کریکٹر ادا کرتے ہیں جو معاشرے میں عزت کی نگاہ نے نہیں دیکھے جاتے۔ ری انیکٹمنٹ کے نام پر مختلف چینلوں پرانٹیروگیسن ، کرائم زون، سچ کہانی نامی ڈرامے پیش کئے جارہے ہیں۔ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کی سیلف سینسر شپ محض دھوکا اور ڈرامہ ہے۔ امریکہ میں2002 میں اسی نوعیت کا ایک پروگرام ( CSI) شروع ہوا جس میں جرم ہونے اور اس کے بعد کے تما م عوامل پر پروگرام بنا کے عوام کو دکھایا جارہا تھا۔ مگر مارچ 2003 میں اس پروگرام کو بند کرا دیا گیا ۔جس کی وجہ صرف اور صرف جرائم کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا تھا۔ مگر نہ جانے کیوں ہمارے ملک میں اپنی ثقا فت اور روایات کو چھوڑ کے دوسروں کی چیزوں کو نقل کرنے کا رواج بن گیا ہے اور یہی چیز ہمارے زوال کا سبب بنی ہوئی ہے۔
د کھانے کے لئے بہت سی اچھی چیزیں موجود ہیں جن کو سوائے کچھ میڈیا چینل کے ہمارا میڈیا ہائی لا ئٹ نہیں کرتا صرف ایک ہی مثال کو دیکھ لیجئے دنیا بھر میں148 جغرافیائی علامتیں ہیں جیسے دریا کے لئے الگ نشان، آگ کے لئے الگ،جھیل کے لئے الگ،پہاڑ کے لئے الگ اسی طرح منفرد چیزوں کے الگ الگ نشانات ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ الحمدللہ یہ تمام علامتیں پاکستان میں موجود ہیں ۔ اور اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ تمام کے تمام نشانات ایک ساتھ موجود نہیں ہیں۔نا صرف یہ اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں جو ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں۔ اب یہ ذمہ داری میڈیا کی ہے کہ وہ اس کو کس انداز میں پیش کرتا ہے ۔
میری تمام اہلِ قلم سے گزارش ہے کہ وہ ان ری انیکٹمنٹ پروگراموں کی وجہ سے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کے لئے قلم اٹھائیں تاکہ معاشرے سے یہ ناسور ختم ہوسکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
2009 میں سکھر کے شاہ لطیف تھانے میں ایک ایف آئی آر جس کا نمبر 52/09 درج کی گئی اور یہ ایف آئی آر دفعہ 302 اور 345 یعنی قتل اور اقدام قتل کے زمرے میں درج کی گئی۔ اس کا کچھ احوال یوں ہے کہ سکھر میں ایک لڑکے نے اپنے سگے بھائی کو جان سے مارنے کے بعد اپنی بھابی سے شادی کی خواہش ظاہر کی ، لیکن اس کی بھابھی نے صاف انکار کر دیا۔انکار سننے کے بعد لڑکا اشتعال میں آگیا اور اپنے بھائی کی بیوی کو بھی مارنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس لڑکے کی بھابھی یعنی مقتول کی بیوی بھاگ کے کسی طرح تھانے پہنچی جس کے بعد علاقہ پولیس حرکت میں آئی اور قاتل کو گرفتار کر لیا۔ دوران تفتیش یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ قاتل نے بتایا کہ اس نے یہ سب کچھ ری انیکٹمنٹ کا پروگرام دیکھنے کے بعد کیا، کیوں کہ پروگرام کے مطابق قاتل اپنے بھائی کو قتل کر کے اپنی بھابھی کے ساتھ شادی کر لیتا ہے اور دونوں شہر سے بھاگ جاتے ہیں ۔اس لڑکے نے بھی سوچا کہ کیوں نہ یہی کیا جائے جس پر اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بھارت کہ شہر دہلی میں2007 میں سات لڑکوں کا ایک گروپ جو نئی بائیکوں پر بینک چوری کی نیت سے نکلا، مگر سب کے سب پکڑے گئے ۔ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ تمام لڑکوں نے اپنے والدین اور مختلف طریقوں سے رقوم جمع کر کے نئی بائیکیں خریدئیں تاکہ ان پر وہ چوری کی مختلف کارروائیاں کر سکیں۔ اور یہ سب کچھ ان لڑکوں نے بھارت میں 2004 میں بننے والی ایک فلم دھوم سے متاثر ہوکر کیا تھا۔
آج کل ہم دیکھ سکتے ہیں ایسی چیزیں جو پرائم ٹائم میں نہیں چلتی وہ سب ری انیکٹمنٹ کے نام پر چلتی ہیں۔ گناہ سے زیادہ گناہ کا خیال لذت انگیز ہوتا ہے۔ ری انیکٹمنٹ کے نام پرمعاشرے کے ان اشوز پر قلم اٹھایا جا تا ہے جو معاشرے کے سدھار کے بجائے مزید بگاڑکا سبب بنتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ جن موضوعات کا احاطہ کرنے کی اجازت پاکستانی معاشرے کی روایات اور اقدار نہیں دیتی انہی کا اوچھے اور گھٹیا موضوعات پر مبنی اسکرپٹ تیار کر کے فحاشی اور عریانیت کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ غیرمعیاری و غیر معروف اداکاروں کی کاسٹ کے باوجود اس طرح کے ڈراموں کو بڑی تعداد میں اشتہار ات بھی مل رہے ہیں۔
پاکستانی میڈیا گروپوں،سول سوسائٹی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ افراد کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چائیے کہ اس طرح کے بیہودہ ڈراموں سے جنسی تسکین، جرائم کی تربیت اور خاندانی نظام پر براہ راست ضرب لگ رہی ہے۔ یہ سب کچھ قانون سے آگاہی نہیں بلکہ حقیقت بیانی کے نام پر ذہنی بیماروں کو تیسرے درجے کی تفریح مہیا کی جارہی ہے، جو ذ ہنی مریضوں کے لئے توشاید تسکین کا باعث ہولیکن نوجوان نسل، بچوں اور خواتین پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر مشترکہ خاندانی نظام جو پاکستانی معاشرے کی پہچان ہے، اس کے نام پر ایسے نون ایشوز کو ابھارا جا رہا ہے کہ جس نے مشترکہ خاندانی نظام کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ سسر بہو کا افیئر، دیور بھابھی کے نا جائز تعلقات ،بیگم اور شوہر کے شادی جیسے مضبوط رشتے پر بر اہ راست حملہ کر کے دونوں رفیق اپنے اپنے اشناؤں سے غیر اخلاقی روابط رکھنے پر مبنی جیسے پروگرام ری انیکٹمنٹ کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ بعض اوقات ان ڈراموں کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسی اسکرپٹ لکھنے والا جنسی بیمار ہو یا ذہنی بیمار ہوجو محض اپنی تسکین کے لئے اپنے دیکھنے والوں کے مخفی اور منفی جذبات ابھار رہا ہو ،انہیں لذت گناہ کی رنگینیوں سے آشنا کر رہا ہو اور حقیقت بیانی کے نام پر انہیں غلط راستہ اختیارکرنے کی ترغیب دے رہا ہو۔
سوچنے کی بات یہ کہ ایسے ڈرامے اور پروگرام جو معاشرے کو تباہی کی طرف لے کے جارہے ہیں انہیں کڑورں روپے کے اشتہارات دینے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟آخر کیا وجہ ہے کہ تیسرے درجے کہ غیر معروف اداکار ہی ایسے کریکٹر ادا کرتے ہیں جو معاشرے میں عزت کی نگاہ نے نہیں دیکھے جاتے۔ ری انیکٹمنٹ کے نام پر مختلف چینلوں پرانٹیروگیسن ، کرائم زون، سچ کہانی نامی ڈرامے پیش کئے جارہے ہیں۔ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کی سیلف سینسر شپ محض دھوکا اور ڈرامہ ہے۔ امریکہ میں2002 میں اسی نوعیت کا ایک پروگرام ( CSI) شروع ہوا جس میں جرم ہونے اور اس کے بعد کے تما م عوامل پر پروگرام بنا کے عوام کو دکھایا جارہا تھا۔ مگر مارچ 2003 میں اس پروگرام کو بند کرا دیا گیا ۔جس کی وجہ صرف اور صرف جرائم کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا تھا۔ مگر نہ جانے کیوں ہمارے ملک میں اپنی ثقا فت اور روایات کو چھوڑ کے دوسروں کی چیزوں کو نقل کرنے کا رواج بن گیا ہے اور یہی چیز ہمارے زوال کا سبب بنی ہوئی ہے۔
د کھانے کے لئے بہت سی اچھی چیزیں موجود ہیں جن کو سوائے کچھ میڈیا چینل کے ہمارا میڈیا ہائی لا ئٹ نہیں کرتا صرف ایک ہی مثال کو دیکھ لیجئے دنیا بھر میں148 جغرافیائی علامتیں ہیں جیسے دریا کے لئے الگ نشان، آگ کے لئے الگ،جھیل کے لئے الگ،پہاڑ کے لئے الگ اسی طرح منفرد چیزوں کے الگ الگ نشانات ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ الحمدللہ یہ تمام علامتیں پاکستان میں موجود ہیں ۔ اور اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ تمام کے تمام نشانات ایک ساتھ موجود نہیں ہیں۔نا صرف یہ اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں جو ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں۔ اب یہ ذمہ داری میڈیا کی ہے کہ وہ اس کو کس انداز میں پیش کرتا ہے ۔
میری تمام اہلِ قلم سے گزارش ہے کہ وہ ان ری انیکٹمنٹ پروگراموں کی وجہ سے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کے لئے قلم اٹھائیں تاکہ معاشرے سے یہ ناسور ختم ہوسکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔