پاکستان ایک نظر میں چہرہ بتا رہا ہے کہ بھوک سے مرا ہے
کیا ایک ماں کی آہ و بکا اور دل سے نکلنے والی ہائے بے ضمیر حکمرانوں کی زندگیوں پر اثر نہیں کریں گی ؟
انسان کے دو ہی خالق ہیں ۔ ایک بنانے والا دوسرا جنم دینے والا۔ دونوں ہی خالق اپنی مخلوق سے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں ۔ جس کا شمار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ رشتہ ایک ایسی کیفیت کا ہوتا ہے کہ جس میں خالق اپنی مخلوق کا کسی صورت نقصان برداشت نہیں کرتا۔ انسان کا پہلا خالق اللہ رب العزت ہے تو دوسری خالق اس کی ماں ہے ۔خالق کے معنی پیدا کرنے والے ہیں۔ جس طرح اللہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے اسی طرح ماں بھی مخلوق کو بنانے (تربیت)میں خالق کا کردار ادا کرتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اگر اپنا آپ سمجھانے کی کوشش کی تو اس میں ماں کا تذکرہ ضرور کیا چاہیے وہ کسی بھی مذہب و فرقے یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہو، اور بتایا کہ اگر میری محبت دیکھنی ہے تو ماں کی دیکھو پھر کہا کہ میں ماں سے 70فیصد زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اس کا واضح ثبوت ہے کہ انسان چاہیے عمر کے کسی بھی حصے میں ہو ہر تکلیف میں انسان کے منہ سے دو ہی الفاظ نکلتے ہیں ۔ اللہ اور ماں۔ ماں باپ کے لئے دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی اولاد کی جدائی (انتقال) ہوتا ہے ۔وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اولاد کے بدلے ہمیں موت دے دے ۔ یہاں ایک واقعہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ؛
'' ابو سعید خذری کے پاس موت کا فرشتہ آیا اور کہا تمھارے گھر سے تمھاری ماں کی روح قبض کرنی ہے ۔ آپ نے کہا کہ میری روح قبض کر لو ۔ جواب میں فرشتے نے بولا تیری ماں یہ سودا پہلے ہی کر چکی ہے ''۔
یہ تمام باتیں میں اسے لئے کہا رہا ہوں کیونکہ آج کل قارئین کی نظروں سے بہت سے کالم گزرے ہونگے جس میں صحرائے تھر کی اموات کی خبریں، کہانیاں ، قصے اور اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ میں بھی آج صبح کا اخبار معمول کے مطابق ناشتے پر پڑھ رہا تھا جب میری نظر صحرائے تھر کے معصوموں کی ہلاکتوں اور حکومتی بے حسی کی انتہا پر پڑی۔ ابھی خبر پڑھنی شروع ہی کی تھی کہ دماغ میں مختلف سوالات اٹھا شروع ہوگئے۔ کیا میں اور آپ اُس ماں کے دکھوں کا ازالہ کر سکتے ہیں جس کا بچہ بھوک اور کھانا نہ ہونے کی وجہ سے مر گیا ، جس کے بچے نے پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھانے کے لئے زہریلا پودا کھا لیا ۔ یہ وہی ماں ہے جو اپنے بچے کی بھوک کی خاطر گندم لینے کی غرض سے گھنٹوں لائن میں کھڑی رہی اور تھیلا ملنے پر اس میں سے کیڑے لگی گندم یا مٹی بر آمد ہوئی ، اور جب وہ واپس گھر پہنچی تو اسکا لال بھوک کی وجہ سے دنیا سے کوچ کر گیا ۔
ایسی متاثرہ ماں جو بے حد کمزور ہوتے ہوئے بھی اپنی اولاد کے لئے اپنی تن من دھن کی بازی لگا دیتی ہے کیا اُسے جمہوریت یا آمریت سے کوئی سروکار ہے؟ کیا وہ کسی وزیر کے انتظار میں بیٹھنا گوارا کر گی یا پھر وہ چیخ چیخ کر یہ نعرہ لگائے گی کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج
بھی بھٹو زندہ ہے ۔ کیا اُس ماں کی آہ و بکا اور دل سے نکلنے والی ہائے بے ضمیر حکمرانوں کی زندگیوں پر اثر نہیں کریں گی ۔؟ وہ ماں اہل چمن سے صرف ایک ہی شکوہ کرتی ہے کہ ؛
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اگر اپنا آپ سمجھانے کی کوشش کی تو اس میں ماں کا تذکرہ ضرور کیا چاہیے وہ کسی بھی مذہب و فرقے یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہو، اور بتایا کہ اگر میری محبت دیکھنی ہے تو ماں کی دیکھو پھر کہا کہ میں ماں سے 70فیصد زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اس کا واضح ثبوت ہے کہ انسان چاہیے عمر کے کسی بھی حصے میں ہو ہر تکلیف میں انسان کے منہ سے دو ہی الفاظ نکلتے ہیں ۔ اللہ اور ماں۔ ماں باپ کے لئے دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی اولاد کی جدائی (انتقال) ہوتا ہے ۔وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اولاد کے بدلے ہمیں موت دے دے ۔ یہاں ایک واقعہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ؛
'' ابو سعید خذری کے پاس موت کا فرشتہ آیا اور کہا تمھارے گھر سے تمھاری ماں کی روح قبض کرنی ہے ۔ آپ نے کہا کہ میری روح قبض کر لو ۔ جواب میں فرشتے نے بولا تیری ماں یہ سودا پہلے ہی کر چکی ہے ''۔
یہ تمام باتیں میں اسے لئے کہا رہا ہوں کیونکہ آج کل قارئین کی نظروں سے بہت سے کالم گزرے ہونگے جس میں صحرائے تھر کی اموات کی خبریں، کہانیاں ، قصے اور اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ میں بھی آج صبح کا اخبار معمول کے مطابق ناشتے پر پڑھ رہا تھا جب میری نظر صحرائے تھر کے معصوموں کی ہلاکتوں اور حکومتی بے حسی کی انتہا پر پڑی۔ ابھی خبر پڑھنی شروع ہی کی تھی کہ دماغ میں مختلف سوالات اٹھا شروع ہوگئے۔ کیا میں اور آپ اُس ماں کے دکھوں کا ازالہ کر سکتے ہیں جس کا بچہ بھوک اور کھانا نہ ہونے کی وجہ سے مر گیا ، جس کے بچے نے پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھانے کے لئے زہریلا پودا کھا لیا ۔ یہ وہی ماں ہے جو اپنے بچے کی بھوک کی خاطر گندم لینے کی غرض سے گھنٹوں لائن میں کھڑی رہی اور تھیلا ملنے پر اس میں سے کیڑے لگی گندم یا مٹی بر آمد ہوئی ، اور جب وہ واپس گھر پہنچی تو اسکا لال بھوک کی وجہ سے دنیا سے کوچ کر گیا ۔
چہرہ بتا رہا ہے کہ مرا ہے بھوک سے
اور اہل اقتدار کہتے ہیں کچھ کھا کے مرا ہے
ایسی متاثرہ ماں جو بے حد کمزور ہوتے ہوئے بھی اپنی اولاد کے لئے اپنی تن من دھن کی بازی لگا دیتی ہے کیا اُسے جمہوریت یا آمریت سے کوئی سروکار ہے؟ کیا وہ کسی وزیر کے انتظار میں بیٹھنا گوارا کر گی یا پھر وہ چیخ چیخ کر یہ نعرہ لگائے گی کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج
بھی بھٹو زندہ ہے ۔ کیا اُس ماں کی آہ و بکا اور دل سے نکلنے والی ہائے بے ضمیر حکمرانوں کی زندگیوں پر اثر نہیں کریں گی ۔؟ وہ ماں اہل چمن سے صرف ایک ہی شکوہ کرتی ہے کہ ؛
جب کو ئی کہتا ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے
تو میں سوچتی ہوں کہ کیا دیکھ رہا ہے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔