نظم اقبال اور جوش سے آج تک
شاعر اپنے مشاہدوں کی بدولت ستاروں سے آگے والے جہاں کی نوید سناتا ہے۔
شاعر کا جسم بھی زمین کے مانند ہوتا ہے جو مسلسل روشنی کے گرد طواف کرتی رہتی ہے اور اوصاف بھی زمین کے رکھتا ہے کیونکہ زمین نہ صرف اپنی گود میں معدنیات اور نباتات کی مالک ہے بلکہ بعض معدن تو ستاروں اور سیارگان سے مستعار لیے ہیں شاعر اپنے مشاہدوں کی بدولت ستاروں سے آگے والے جہاں کی نوید سناتا ہے۔
جس شاعر کا مشاہدہ جتنا وسیع اور فکر جتنی رسا ہوتی ہے اور جب اس میں جولانی پیدا ہوتی ہے تو پھر اس کے جسم پر زمین کی طرح کپکپی طاری ہوتی ہے ۔شاعری میں عام طور پر دو اقسام کے شعرا گزرے ہیں۔ ایک آمد کے اور دوسرے آورد کے مرزا غالب آمد کے شاعر تھے جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
گویا وہ ہر وقت شعری کیفیت طاری نہیں کر سکتے تھے مگر میرا طالب علمی اور بعد کے دور تک رئیس امروہوی کے گھر کبھی کبھی جانا ہوتا تھا تو یہ دیکھتا تھا کہ لوگ چلے آ رہے ہیں کسی کی شادی ہے تو سہرا لکھوا رہے ہیں اور جتنے اشعار کا سہرا لکھوانا ہے وہ بمشکل 15 منٹ میں فارغ کر دیا کرتے تھے تو وہ آورد کے شاعر تھے جب چاہتے خیال وضع کر لیتے تھے مگر یہ الگ بحث ہے کہ آورد کا شاعر اور آمد کا شاعر دونوں میں سے کون بڑا ہوتا ہے ۔
دراصل یہ تمہید اس لیے ضروری تھی کہ قاری کو نفس مضمون تک پہنچنے میں دقت نہ ہو، دراصل آرٹس کونسل کراچی میں کافی عرصے کے بعد ایک تقریب میں تنقیدی ادب پر ایک کتاب ''اردو نظم کی عظیم روایت'' کے نام سے زیر بحث آئی، اس کتاب کے مصنف سرور جاوید ہیں یہ ضخیم کتاب تقریباً 700 صفحات پر مشتمل ہے علامہ اقبال اور جوش ملیح آبادی پر تقریباً 90 صفحات پر مختلف زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے اردو نظم کی روایت تو قدیم ہے، نظیر کو تو لوگوںنے بعد میں دریافت کیا، بقول مصنف کے جدید نظموں کا باقاعدہ آغاز علامہ اقبال اور جوش ملیح آبادی کے دور سے ہوا۔
انھوں نے جوش کے کلام کو مزاحمتی ادب سے تعبیر کیا اور علامہ اقبال پر کئی جہتوں اور زاویوں سے گفتگو کی ہے کیونکہ سرور جاوید اپنی جوانی میں ترقی پسند تحریکوں میں فعال رہے اور طلبہ یونینوں میں سرگرم تھے بلکہ وہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے تھے اس لیے ان کا ذہن اشتراکیت کی چھاپ سے مرصع تھا وہ ایک طویل سماجی اور معاشی جدوجہد سے برسر پیکار رہے اس کے اثرات ان کی خانگی زندگی پر بھی پڑے ان کی شادی پسند کی تھی، پروین ان کی بیگم تھیں محترمہ نعت گوئی میں بھی مقبول تھیں ان کے اشعار خواتین میں مقبول رہے اور وہ آرٹس کونسل کراچی میں سرگرم تھیں۔ سرور جاوید کی پوری زندگی جدوجہد کی زندگی رہی ہے۔
اس لیے ان کے کلام میں اور تحریروں میں محنت کی عظمت اجاگر ہے۔ مشکلات نے ان کو چڑچڑا بنا دیا تھا مگر اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں ان کا حلقہ احباب وسیع ہے اپنی ان ہی مشکلات میں گھرے رہنے نے اقبال کے ان اشعار کو نمایاں مقام دیا ہے جو غریبوں کے حالات زندگی بدلنے میں معاون ہوں اقبال کی نظم '' لینن خدا کے حضور میں'' نمایاں پیش کی گئی ہے مگر انھوں نے کہیں بھی یہ شائبہ نہیں آنے دیا جس سے ادب کی ساکھ متاثر ہو اور قاری گمراہی کا شکار ہو فلسفہ اقبال کو پیش کرتے ہوئے سرور جاوید نے تحریر کے توازن کو برقرار رکھا ہے۔ علامہ کی روح کو یہ کہہ کے انھوں نے راحت بخشی ہے جب اس نظم کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر ِ روز مکافات
غرض انھوں نے شاعرانہ عظمت کے اعتبار سے شعرا کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ جوش اور اقبال پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر فیض پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھا اور پڑھا جا رہا ہے موجودہ دور میں احسان دانش کے ساتھ ادبا نے انصاف نہیں کیا مگر سرور جاوید ان کے معترف نظر آتے ہیں۔ سرور جاوید کو پسماندہ طبقات کی حالت زار پر تکلیف سے کراہتے نظر نہیں آتے بلکہ محنت کی عظمت کو سلام کرتے ہیں اسی لیے احسان دانش پر انھوں نے اپنی کتاب کا دامن وسیع کر دیا ان کی نظر اس شعر پر پڑتی ہے ۔
تھا عدالت کے احاطے میں ہجوم بے پناہ
ڈھل رہا تھا دن مگر تھا گرم بازار ِگناہ
یہ ہے عدالت کی تصویر شاعر کے کیمرے سے جو اس کی آنکھوں میں نصب ہے اور قلم کی نوک پر سرور جاوید نے اپنی کتاب میں دو معتبر شعرا کے کلام پر تنقید کی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بعض شعرا جو اپنی شعری صلاحیت فکر اور معیار کے باوجود منظر عام پر نہ آ سکے ان کو بھی بحیثیت شاعر ان کی شاعرانہ صلاحیتوں اور ان کے کلام پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، سرور جاوید نے اس کتاب میں کم و بیش بیس شاعروں کا انتخاب کیا ہے جن میں ن۔م راشد، اسرار الحق مجاز، مصطفیٰ زیدی، عزیزحامد مدنی اور پروین شاکر خصوصاً قابل ذکر ہیں، گو کہ ان کی کتاب کی آخری تنقید پروین شاکر پر 20 صفحات پر مشتمل ہے وہ سیر حاصل ہے اور نہایت سنجیدہ تجزیہ ہے انھوں نے پروین شاکر کو ''نوخیز جذبوں کی شاعرہ'' قرار دیا ہے۔ پروین شاکر پر جو مضمون سرور جاوید نے تحریر کیا ہے۔
اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے ''بیسویں صدی میں اقبال اور جوش سے شروع ہونے والی اردو نظم کی پر عظمت شاعری کا تسلسل نصف صدی کے بعد تک بغیر تعطل کے جاری رہا اور فیض اس کلاسیکی ادب کے آخری امین ٹھہرے، پروین شاکر نے چونکہ انگریزی ادب میں ماسٹر کیا تھا اس لیے ان کے کلام پر آزاد نظم کا خوبصورت عکس انگریزی زبان کا ورثہ ہے''۔ سرور جاوید چونکہ ان کے ہم عصر تھے ساتھ مشاعروں میں جاتے تھے کلام سناتے تھے ان کی خو بو سے آشنا تھے اس لیے پروین شاکر کی شاعری پر ان کا قلم نرم و نازک ہو گیا ہے پرشکوہ الفاظ سے گریز نظر آتا ہے اور وہ پروین شاکر کے ساتھ فکری سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ پروین شاکر پر ان کا یہ جملہ ''خصوصاً عورت کے جنسی احساسات کے اظہار کو نرم لفظوں میں بیان کر کے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی'' اپنی کتاب میں جابجا پروین شاکر کی آزاد نظموں کا نسبتاً زیادہ کلام ہے مثلاً الوداعیہ کی طوالت مختصراً......
وہ جاچکا ہے مگر جدائی سے قبل کا
ایک نرم لمحہ ٹھہر گیا ہے
میری ہتھیلی کی پشت پر زندگی میں
پہلی کا چاند بن کر
بہرصورت اردو نظم کی عظیم روایت کا جب آغاز ہوا تو اردو نظم اور ترقی پسند مصنفین کا بھی آغاز ہوا دیر یا سویر بلند پایہ نقاد پیدا ہوتے رہے جن کی بدولت اردو زبان شہرہ آفاق زبان کے طور پر ابھری۔ اردو ادب میں بلند پایہ نقادوں کی کمی نظر نہیں آتی جو انگریزی ادب سے بھی اتنا ہی آشنا تھے جس قدر اردو ادب پر ان کی دسترس تھی، ان میں فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، ممتاز حسین اور پروفیسر مجتبیٰ حسین وہ نام ہیں جنھوں نے اردو ادب اور قد آور شعرا کے کلام پر ہر زاویے نگاہ سے لکھا، یہی وجہ ہے کہ آج اردو ادب روس اور امریکا میں یکساں مقبول ہے، مگر گزشتہ دو برس قبل محمد علی صدیقی جو اردو اور انگریزی ادب کے نقاد تھے گزر گئے۔
ان کی رحلت کے بعد پروفیسر سحر انصاری کے ساتھ ساتھ سرور جاوید کا نام غنیمت ہے اس کتاب کا علمی ماحول روح پرور ہے اور یہی حال اس تقریب کا بھی تھا جو تقریباً 6 گھنٹے تک آرٹس کونسل کراچی میں جاری رہی . اس تقریب میں مقررین کی تعداد تو خاصی تھی جن میں پروفیسر نور محمد شیخ، پروفیسر انوار احمد زئی، سعید الظفر،پروفیسر انیس زیدی، علی حسن، اور راقم کے علاوہ احمد شاہ۔ اس محفل کی صدارت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کی انھوں نے صدارتی خطبہ دیا جو خاصا طویل تھا اور کتاب کی پذیرائی کی اور یہی روش دیگر مقررین کی بھی تھی مگر صدارتی خطبے کی خاص بات یہ کہی کہ اس کتاب کو اردو ادب کی اعلیٰ تعلیم میں ریفرنس بک کے طور پر نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس کتاب کے ناشر شاعر علی شاعر ہیں ان کا ادارہ اردو بازار کراچی میں ہے امید ہے کہ یہ ضخیم کتاب تنقیدی ادب میں اپنا مقام جلد حاصل کرے گی۔