قدیمی زرعی غلامی اور جدید جمہوری غلامی…پہلا حصہ

خاندان کا باپ سرگروہ ہوتا تھا۔ یونانیوں، رومنوں میں باپ کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا۔

k_goraya@yahoo.com

افلاطون اور ارسطو کا نظریہ ہے کہ معاشرے کے آغاز ہی سے خاندان کی نوعیت ''ابوی'' تھی، خاندان کا باپ سرگروہ ہوتا تھا۔ یونانیوں، رومنوں میں باپ کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا۔ 1861 میں ہنری مین نے ''ابوی'' نظریے کو ہی اجاگر کیا۔ 19 ویں صدی کے آخر میں قدیمی باشندوں اور معاشروں کے بارے تحقیق نے ثابت کیا کہ خاندان کا سربراہ ''ابوی'' باپ نہیں بلکہ ''اموی'' ماں ہوتی تھی۔ لیکن لا آف یونیورس کے تناظر میں دیکھا جائے تو کرہ ارض پر تمام جاندار اپنی اپنی نسل کی بقا کا عمل کر رہے ہیں۔

ہر جاندار زندہ رہنے کے لیے اپنے داخلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خارجی (ماحول) دنیا سے خوراک اپنی ضرورت حاصل کرتا ہے اور اسی کے ساتھ اپنی نسل کی بقا کا عمل کرتا ہے۔ خاندان کی بنیادی اکائی ماں اور باپ دونوں مل کر اپنی نسل کو گود درگود منتقل کرتے ہیں۔ پرندوں میں مادہ اور نر باری باری انڈوں کو سینتے (Hatches) ہیں۔ مخصوص دورانیے کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں تو نر اور مادہ بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے دانہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے منہ میں ڈالتے ہیں، جب بچے اڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو اپنے ٹھکانے سے پرواز کرجاتے ہیں۔ تمام جانداروں کی طرح پرندے بھی جھنڈ یا گروپ بندیوں میں اکٹھے مل کر رہتے ہیں۔

اسی طرح چوپائے اور سمندری حیات بھی اپنی اپنی نسل کی بقا گود درگود کر رہی ہے۔نباتات کی تمام اقسام بھی اپنی اپنی نسل (نوع) کی بقا کا عمل گود در گود کررہی ہیں۔ ان تمام متذکرہ اقسام کی حیاتیات میں کون سی ریاست یا کون سی حکومت کا قانون چل رہا ہے؟ لا آف یونیورس ان تمام کے جسمی ساختی ڈھانچے میں نادیدہ ہاتھوں کی طرح ہے۔ گودیت کے عمل میں جب بھی لا آف یونیورس سے ہٹ کر کوئی شے عمل کرتی ہے تو کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ چوہے یا بلی کو کمرے میں بند کرکے انھیں مارنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دونوں اپنے بچاؤ کے لیے حملہ آور پر حملہ کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان پر جبر اور انسان سے زندہ رہنے کا حق چھینا جاتا ہے تو مظلوم اور بے بس انسان بغاوت کرتا ہے۔ اکٹھے مل کر رہنا انسان کی سرشت میں ہے۔

قدیمی انسان ابوی یا اموی طور پر رہنے کے ساتھ گروہوں کی شکل میں رہتے تھے ان گروہوں کو سردار طاقت کے زور پر کنٹرول کرتا تھا۔ ان گروہوں نے پھیل کر قبیلوں کی شکل اختیار کرلی۔ شکاری دور میں پتھر کے ہتھیار ان کی ''ذاتی ملکیت'' ہوتے تھے۔ یہ گروہ یا قبیلے مویشی بھی رکھتے تھے۔ قبیلے آپس میں ریوڑوں کو چھیننے کے لیے لڑتے تھے۔ رفتہ رفتہ جب ان قبائل نے زراعت سازی شروع کی تو اس کے ساتھ ہی طاقتور قبیلوں نے کمزور قبیلوں کو زیر کرکے انھیں زرعی غلام بنانا شروع کیا۔ زرعی زمین کو ''ذاتی ملکیت'' بنانے کے بعد انسانوں کو غلام بنانے کا طریقہ پورے کرہ ارض پر پھیلتا گیا۔ غلاموں کی خریدوفروخت کا رواج بھی فروغ پانے لگا۔

اس طرح جوں جوں انسانی معاشروں میں غیر کائناتی عمل بڑھتا گیا توں توں انسانوں کے درمیان کشمکش یا طبقاتی جنگ بڑھتی گئی۔ طبقاتی کشمکش کو روکنے کے لیے یونانی فلسفی ارسطو نے قدرت کی طرف سے غلامی کو مستقل معاشرے کا حصہ قرار دیا۔ اس نے کہا قدرت نے انسانوں کی صلاحیتوں میں فرق رکھا ہے۔ کچھ لوگ حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ غلامی کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح پیدائشی طور پر کچھ لوگ آزاد پیدا ہوتے ہیں۔

یہ آزاد شہری غلام شہریوں کے حاکم ہوتے ہیں۔ ریاست ''کورنتھ'' میں ساڑھے 4 لاکھ سے زیادہ غلام تھے۔ ایجینا میں غلام شہریوں کی تعداد آزاد شہریوں سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایتھنز میں غلام شہریوں کی تعداد پانچ گنا تھی۔ اسپارٹا اور دوسری ریاستوں میں بھی یہی حالت تھی۔ 1250 ق۔م میں جب آریا قدیم ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور چھٹی صدی قبل مسیح ان آریاؤں نے سندھ میں آباد ہونا شروع کیا، آریائی دیوتاؤں کی پوجا کرنے والے پجاری برہمن کہلاتے تھے۔آریائی سردار جو جنگ جو تھے وہ کھشتری کہلاتے تھے تاجر طبقہ ویش اور آریوں کے ہندوستان پر قبضے سے پہلے کے مقامی باشندوں کو شودر یعنی کمی کے درجے پر رکھا گیا۔

ہندومت میں منو کے ضابطہ قانون میں بنیادی نظریہ ذات پات کا نظام ہے۔ جو قدیم آریاؤں کے معاشرے کی تقسیم سے پروان چڑھا۔ (منو کا ضابطہ قانون 1:31)دنیاؤں کی نشوونما کے لیے برہمہ نے برہمن، کھشتریہ (جنگجو) ش(تاجر) اور شودر (غلام) کو بالترتیب اپنے چہرے، بازوؤں، رانوں اور پیروں سے پیدا کیا۔'' اسی طرح آرنیک اپنشد میں درج ہے کہ ''یہ کائنات اپنی پیدائش سے پہلے برہما کی حیثیت سے اپنا وجود رکھتی تھی۔ برہما نے اپنی ذات سے انسانوں اور دیوتاؤں دونوں میں برہمن کھشتری، ویش، شودر پیدا کیے۔ آریاؤں، قدیمی ہندوستان کے عوام کو برہما کے پاؤں سے پیدا ہونا بتا کر ان کو شودر قرار دے کر انھیں اپنا غلام بنالیا گیا۔


ان شودروں پر برہمنوں کے مندروں میں جانا منع تھا۔ برہمنوں کے برابر بیٹھنا جرم تھا۔ زمین کی ملکیت حاصل کرنا شودروں کے لیے ممنوع تھا۔ حکمرانی کا حق صرف برہمن ذات کے لوگوں کو حاصل تھا اور یہ برہمن درحقیقت آریائی لوگ تھے۔ خانہ بدوش آریا ہندوستان مستقلاً آباد ہوتے گئے۔ زراعتی کلچر کی وجہ سے انھوں نے مقامی آبادی کو زرعی غلام بنانا شروع کیا اور ہندومت میں برہمنوں کو اونچے درجے پر رکھا اور مقامی آبادی کو شودر قرار دیا۔ کرہ ارض پر جوں جوں زراعتی کلچر پھیلتا گیا توں توں زرعی زمینوں پر کام لینے کے لیے زرعی غلاموں کو رکھنے کا رواج پھیلتا گیا۔

1444 میں پرتگالیوں نے سینگال سے افریقی غلام خرید کر ان سے زمینوں پر کام لینا شروع کیا اور ساتھ ہی افریقی غلاموں کو اسپین میں فروخت کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد انگریزوں، فرانسیسیوں، نیدرلینڈ و دیگر ملکوں کے سرمایہ کاروں اور حکومتوں نے اس نفع بخش کاروبار کو فروغ دینا شروع کیا۔ غلامی کے فروغ میں عیسائی کلیسا کے پوپ نکولا پنجم نے 1452 نے بادشاہ پرتگال کو اس بات کا مجاز قرار دیا کہ وہ مسلمانوں اور دوسرے غیر عیسائی باشندوں کو فروخت کرسکتا ہے۔ عیسائی حکمران پوپ کو خریدے ہوئے غلام بطور تحفہ پیش کرتے تھے۔

کرسٹوفر کولمبس اٹلی میں پیدا ہوا تھا۔ اسپین کی حکومت نے 3 اگست 1492 میں کرسٹوفر کولمبس کی مالی مدد کی تھی اس نے سفر میں کیوبا، ہیٹی، جمیکا، نیوکو اور جزیرے سان سالواڈور دریافت کیے۔ اسپین کی نوآبادیوں کے مراکز جزائر غرب الہند، میکسیکو اور پیرو تھے۔ اسپینی تاجروں نے امریکی نوآبادیوں کے باشندوں کو خرید کر غلام بناکر اسپین بھیجنا شروع کیا۔ اسی طرح ہنری ہفتم شاہ انگلستان نے 1497میں جان کیبٹ (John Cabot) کی سرکردگی میں ایک مہم مغرب کی طرف روانہ کی تھی۔ اس کا مقصد ہندوستان کا راستہ معلوم کرنا تھا۔ لیکن یہ امریکا کے شمال مغربی ساحل پر جا پہنچا۔ اس کے بعد امریکا میں انگریزی نو آبادیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

زرعی کلچر میں زرعی غلام خرید کر ان سے بغیر معاوضے کام لینے کا طریقہ منافع بخش کاروبار بنتا گیا۔ زیادہ سے زیادہ پیداواروں کو حاصل کرنا اور کم سے کم خرچ کرنا زرعی غلاموں کے ذریعے ممکن ہوا۔ یہ رواج روم میں جولیس سیزر کے 15 مارچ 44 ق۔م میں اس کے قتل ہونے سے قبل بھی موجود تھا۔ رومیوں نے اٹلی کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد بڑی تعداد میں جنگی قیدی بنائے۔

ان قیدیوں کو زرعی غلام بناکر زمینوں پر کاشت کرائی گئی۔ جولیس سیزر نے فرانس میں ایک روز میں تریسٹھ (63) ہزار جنگی قیدی فروخت کیے۔ پومپی کا دور روم غلاموں کی منڈی بن گیا۔ جہاں فرانس، اسپین، افریقہ اور ایشیائی علاقوں سے غلام فروخت کے لیے لائے جاتے تھے۔ روم میں شہری قرض لے کر ادا نہ کرسکنے کی شکل میں اپنے بچے بھی فروخت کرتے تھے۔ اس کی مخالفت ہونے پر 326ق۔م میں قانون بنایا گیا کہ مقروض کو غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ عورتوں کی خریدوفروخت بھی ساتھ ہوتی تھی۔ روم میں غلاموں کو شادی کرنے کا اختیارنہیں تھا۔ غلاموں کو اچھوتوں کی زندگی گزارنی پڑتی تھی۔ روم کے زوال کے بعد بھی غلامی برقرار رہی تھی۔

زرعی غلامی کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ برازیل میں پرتگالیوں نے سرخ ہندیوں کو غلام بنانا شروع کیا۔ انگریزوں میں زرعی غلاموں کی تجارت سر جان ہاپکنز نے شروع کی تھی۔ برائن ایڈورڈ کے مطابق 1680 سے 1776 کے دوران برطانوی نوآبادیوں میں تقریباً 22 لاکھ غلام درآمد کیے گئے۔ زرعی کلچر کی گود سے قبیلے کے سرداروں، جاگیرداروں اور بادشاہوں نے ''زرعی غلامی'' کو فروغ دیا اور ''زرعی غلاموں'' کی صنعت عروج تک پہنچادی۔

(جاری ہے)
Load Next Story