سنسنی خیزی کا مقابلہ پہلی قسط

صوبائی حکومت 9مارچ 2014سے مسلسل امدادی اشیا تقسیم کررہی ہےاور کوئی چھوٹا سا بھی جھگڑےیا تشدد کاواقعہ رونمانہیں ہوا ہے۔

کراچی ، اسلام آباد، لاہور، لندن ہر جگہ سے ٹی وی چینلزپر تھر کے معاملے پر واویلا مچا ہوا ہے۔ آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا تھر کے لوگوں کی جانب سے اپنی حالت پر ایک احتجاج بھی نہیں ہوا، ایک آواز بھی نہیں اٹھی۔ شاید انھیں احساس ہی نہیں کہ ہمارے ٹیلیویژن چینلز نے ان کے غم میں اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔

چینلز کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک خاتون میزبان کا اصرار تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پچھلے بیس سال سے برسر اقتدار ہے اور اس سلسلے میں میری کوئی بھی گذارش ان کے لیے قابل اعتماد نہیں ثابت ہوئی۔ایک چینل پر مہمانان کھلم کھلا تھرپارکر میں مرکزی حکومت کو مداخلت کی دعوت دے رہے تھے۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گندم اور ادویہ کیوں نہیں پھینکی جا رہیں۔

جب میں نے انھیں بتایا کہ ہماری حکومت نے تھرپارکر میں گیارہ سو کلومیٹر لمبی لنک سڑکیں تعمیر کی ہوئی ہیں۔ کوئی بھی مقام اب مٹھی سے دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت سے زیادہ دور نہیں ہے اور ہم گزشتہ آٹھ ماہ سے زیادہ سے پورے ضلع میں سڑکوں کے ذریعے گندم فراہم کررہے ہیں۔ انھیں میری باتوں کا یقین نہیں آیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ محترم وزیراعظم نے گزشتہ اپریل میں امداد کے لیے ایک ارب روپے منظورکیے تھے۔ نادرا کی مدد سے ستر ہزار غریب خاندانوں کو الیکٹرانک طریقہ کار سے امدادی رقم پہنچائی گئی۔ لیکن ابھی آدھی رقم تقسیم ہوئی ہے ، باقی کا ہمیں انتظار ہے۔

انھیں اس سلسلے میں معلومات نہیں تھیں وہ یہی اصرار کرتے رہے کہ مرکزی حکومت تھر میں مداخلت کرے ہر چند کے ٹھیک اسی دن بنوں میں آئی ڈی پیز پر امداد کی تقسیم کے دوران وحشیانہ لاٹھی چارج ہوا تھا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ صوبائی حکومت 9مارچ 2014سے مسلسل امدادی اشیا تقسیم کررہی ہے اور کوئی چھوٹا سا بھی جھگڑے یا تشدد کا واقعہ اس دوران رونما نہیں ہوا ہے۔ پروگرام کی میزبان خاتون کو اس بات پر بھی شک تھا کہ کراچی سے براہ ٹھٹہ، بدین، مٹھی تک کا فاصلہ صرف 300کلومیٹر ہے۔ انھوں نے مجھے اس بات پر چیلنج کیا۔ اگر سیدھے سادے جغرافیائی فاصلے تک جن کی تصدیق چند منٹوں میں گوگل پر کی جاسکتی ہے ٹیلیوژن پر جھٹلائے جارہے ہیں تو دوسرے حقائق کی کیا بات کی جائے۔

ایدھی فاؤنڈیشن صومالیہ میں ، افغانستان میں، مشرق وسطی میں، امریکا میں ، غرض کہ دنیا کے جس حصے میں بھی آفات کا سامنا ہو ، پہنچتی ہے اوربڑے پیمانے پر امدادی کام کرتی ہے۔ تھر میں ایدھی فاؤنڈیشن کا پورا نیٹ ورک موجود ہے۔ آخر وہ امدادی کام کیوں نہیں کررہے ؟ سینیٹر جاوید جبار کی بانہہ بیلی تھر میں 35سال سے کام کررہی ہے۔ انھوں نے اس مارچ میں اپنے ایک مضمون "A famine of facts"(ڈان 9مارچ) میں لکھا کہ تھر میں قحط ہے لیکن یہ قحط حقائق کا قحط ہے۔ تھردیپ، ہینڈز، AWARE اور کتنے ہی دوسرے غیر سرکاری ادارے طویل عرصے سے تھر میں لوگوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔

چھوٹے موٹے روزمرہ کے معاملات اور طویل مدت کے ترقیاتی پروگراموں کے سلسلے میں یہ ادارے مسلسل رابطے میں رہے ہیں لیکن حکومت کی کارکردگی پر ان کی جانب سے کبھی کوئی بڑا احتجاج سامنے نہیں آیا ۔ حکومت خیبر پختون خواہ نے مارچ اور اپریل میں ہماری بہت امداد کی، راشن بھیجا گیا۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں آئیں جن میں بارہ لیڈی ڈاکٹر بھی شامل تھیں۔ خود سراج الحق تشریف لائے اور دو دن تھر میں قیام کیا۔ ان کی جانب سے بھی آج کل کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔

کتنے ہی غیر سرکاری ادارے امدادی سامان لے کر مارچ اور اپریل میں تھر پہنچے اور وہاں انھوں نے غریبوں میں یہ سامان تقسیم کیا۔ ان سب کی جانب سے بھی الیکٹرانک میڈیا پر کیے جانے والے واویلا کے جواب میں خاموشی ہے۔ کیا یہ سب لوگ تھر کے ان غریبوں کو بھلا چکے ہیں جن کی موقع پر جاکر انھوں نے امداد کی تھی؟ یا پھر خدانخواستہ خدانخواستہ یہ بات ہے کہ یہ تمام ادارے ذاتی طور پر صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ تھر میں حکومت ذمے داری کے ساتھ کام کررہی ہے اور اب ان کی توجہ ملک کے دوسرے علاقوں کی جانب ہونی چاہیے۔

17نومبر 2014شام 5بجے تک حکومت سندھ تھر میں 100کلو گندم کی 501876بوریاں تقسیم کرچکی تھی۔ یہ گندم ہر مرحلے میں 50کلو گرام فی خاندان کے حساب سے تقسیم کی گئی ہے۔ ابتدا کے تین مراحل میں مجموعی طور پر 379981بوریاں تقسیم کی گئیں جب کہ رواں مرحلے میں جو کہ اب مکمل ہونے والا ہے، 121895بوریاں تقسیم کی جاچکی ہیں۔ اس وقت ہر مرحلے میں 253,000سے زیادہ خاندانوں کو مفت گندم فراہم کی جاچکی ہے۔ اگر ہم پانچ افراد فی خاندان کا اوسط رکھ لیں تو سولہ لاکھ کی آبادی میں تیرہ لاکھ افراد کو مارچ 2014سے مفت گندم مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ پہلے ہی مرحلے میں صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبہ پختون خواہ سے بھیجے ہوئے سامان سے تشکیل کردہ 52,848راشن بیگ تقسیم کیے گئے ہیں۔


ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں دسمبر 2013سے لے کر 17نومبر 2014پانچ بجے شام تک 3868588جانوروں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاچکے تھے یا ان کا علاج کیا جاچکا تھا۔ گزشتہ سردیوں میں گھاس کی قلت اور شدید سردی کی وجہ سے بھیڑوں میں شپ پاکس کی جو بیماری پھیلی تھی وہ اب مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔ لیکن اس دوران 3811جانور ہلاک ہوئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں 71330جانوروں کی بہتر غذائیت والا چارہ (وانڈا)تقسیم کیا گیا۔

صحت کے شعبے میں اصل وجوہات ماؤں اور بچوں کا جسمانی طور پر کمزور ہونا، غذائیت کی کمی، بچے کی پیدائش کے وقت تک ماؤں کی کٹھن جسمانی مشقت ، کم عمری کی شادیاں، صحت کے بارے میں شعور کی کمی، مقامی دائیوں پر انحصار، سانپوں کے کاٹنے کے حادثات اور دیگر کئی غربت اور سماجی رسم و رواج سے پیدا ہونے والی وجوہات ہیں۔ بدقسمتی سے اسپتالوں سے اسی وقت رجوع کیا جاتا ہے جب بیماری حد سے آگے بڑھ جاتی ہے۔

اسپتالوں میں سامان اور ادویہ کی فراہمی سے متعلق بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے ہیں۔ نئے ڈاکٹروں کی تقرری اس شرط کے ساتھ کی گئی ہے کہ تین سال تک تبادلے نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن اسپیشلسٹ تھر میں جانے سے مسلسل گریز کررہے ہیں جو کہ یقینا ایک افسوسناک بات ہے۔ اسی طرح جو بیالیسBHU (42) ہیں ان میں ڈاکٹروں کی ہمہ وقت موجودگی اور ان کو بہتر بنانا بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ٹیکوں اور فیملی پلاننگ کے پروگرام مقامی طور پر موثر انداز میں چل سکیں۔نیوٹریشن کے سلسلے میں ہینڈز اور یونی سیف کے اشتراک سے 22یونین کونسلوں میں ماؤں اور بچوں کے لیے کامیاب پروگرام چل رہے ہیں۔ اب اس پروگرام کو پورے تھرپارکر میں پھیلایا جارہا ہے۔

میرے پاس ہر شام پانچ بجے تک ہر تعلقہ اسپتال میں دن بھر میں کتنے افراد کا علا ج کیا گیا کے اعداد وشمارآٹھ بجے تک پہنچ جاتے ہیں۔ یونین کونسل کی سطح پر ہر BHUمیں کتنے افراد کا علاج کیا گیا اس کے اعداد و شمار میرے پاس نہیں ہوتے کیونکہ BHUمیں صرف معمولی نوعیت کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ یکم دسمبر 2013سے لے کر 17نومبر 2014شام پانچ بجے تک تعلقہ اسپتالوں میں 375791مریضوں کا علاج کیا گیا تھا۔

یکم دسمبر 2013 لے کر 17نومبر 2014تک ان اسپتالوں میں 493اموات ہوئی تھیں۔ جن میں 292بچے، 96مرد اور 102خواتین شامل تھیں۔ اموات کا ہونا اور خاص طور پر بچوں کی اموات کا ہونا یقینا افسوسناک ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو تھر کی پسماندگی سماجی شعور کی کمی اور دیگر وجوہات کے باوجود یہ شرح اموات ملکی اوسط سے کہیں کم ہے۔ خود جسٹس علوی کی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شرح اموات میں سال بہ سال کمی ہورہی ہے ۔

لیکن اگر ہمارا الیکٹرانک میڈیا پاکستان میں ہر سال صرف نمونیاسے ہلاک ہونے والے پانچ سال سے کم عمر کے 71,000بچوں کی اموات کو یکسر نظرانداز کرکے تھر کے تمام بیماریوں سے اس سال مرنے والے بچوں پر روزانہ گھنٹوں اس حکومت کو برا بھلا کہنے میں ہر حد کو پار کرجاتا ہے تو شاید کوئی غیر جانبدار مبصر یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ یہ سب کچھ بچوں کی محبت میں نہیں کیا جارہا بلکہ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی سے عداوت میں کہا جارہا ہے۔

امداد کسی بھی صورت میں ترقی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ بارش پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ تھر میں 16لاکھ انسانوں کے علاوہ 70لاکھ مویشی بھی ہیں۔ ان کی پانی اور غذائی ضروریات انسانوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ انسانوں اور جانوروں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ ہم نے کم مدت اور طویل مدت کے ترقیاتی پروگرام شروع کیے ہیں جن سے تھر پانی اور غذا کے سلسلے میں نہ صرف خود کفیل ہوگا بلکہ لوگوں کی آمدنی میں قابل قدر اضافہ ہوگا۔

ان پروگراموں کے بارے میں اگلی اقساط میں گفتگو ہوگی۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تھرپارکر پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں بے پناہ مسائل ہیں۔ اگر تھر کی حالت بدلی جاسکتی ہے تو پھر ہمیں باقی ملک کی حالت بدلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آیندہ دو یا تین سال میں ایسا کرنا ممکن ہے۔ (جاری ہے)

(صاحب مضمون پیپلز پارٹی کے سینیٹر ہیں)
Load Next Story