صحرا کے پھول مرجھا گئے

اس سوگوار ماحول میں شاید اب مور بھی ناچنا بھول گئے ہوں گے سانپ بھی انسانوں کو کاٹنا بھول گئے ہوں گے۔


Safora Khairi November 21, 2014

کچھ پھول تھے ایک صحرا کے کہ فاقوں سے مرجھا گئے، کچھ کلیاں تھیں ریگستان میں کہ بھوک سے کملا گئیں، مگر اس جلتے تپتے سلگتے ریگزاروں میں شہنشاہ وقت کی نظر نہ پڑی آخر خاندانی منصوبہ بندی کی بھی تو کوئی اہمیت ہوتی ہے اگر اتنی تیزی سے میرے وطن کی آبادی بڑھتی جائے گی تو زمین تنگ نہ پڑ جائے گی کیا؟ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ زندگی سے عاجز لوگ رب کون و مکاں سے گڑگڑا کر موت کی دعائیں مانگا کرتے تھے مگر اب تو یہ عالم ہے کہ ہر نفس کے پیچھے موت کا سایہ ہے۔

تھر سندھ کا البیلا ریگستان جس کے ذروں میں سورج سانس لیتا ہے، جو برسات کے بعد دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ بن جاتا ہے جہاں مور رقص کرتے ہیں اور اونٹوں کے گلے سے بندھی ہوئی گھنٹیاں جلترنگ بجاتی ہیں۔ جہاں اپنے روایتی لباس میں ملبوس پنہاریاں سر پر گھڑے اور ہاتھوں میں کنستر لیے آگ اگلتی ریت پر میلوں سفر کرکے پانی لاتی ہیں۔ ہاں اسی تھر میں حضرت عزرائیل کا گزر نہیں کہ یہاں کی موت طبعی نہیں ہے یہاں کے بچے مرتے نہیں ہیں مارے جاتے ہیں اور انھیں مارنے کے لیے کسی کلاشنکوف یا پستول کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اسلحے کی بچت ہوتی ہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہر دن ایک چھوٹا سا کفن خریدا جاتا ہے۔

حکومت سندھ کو چاہیے کہ تھر کے ان مفلس و نادار قحط اور بھوک و پیاس کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے اگر اجناس خورونوش مہیا نہیں کرسکتی تو لٹھے کے ہزاروں تھان ہی بھجوا دے کیونکہ لٹھا بھی اب قوت خرید سے باہر ہے کم ازکم یہ اقدام اٹھاکر اس کے رفاہی، سماجی کارکردگی میں تو اضافہ ہوجائے گا۔

بڑے سائیں کا فرمانا ہے کہ یہ لاتعداد اموات قحط اور بھوک سے نہیں بیماریوں اور غربت سے ہو رہی ہیں اگر ان کی یہ دلیل تسلیم بھی کرلی جائے تو غریب آدمی کے پاس جب کھانے کو پیسے ہی نہ ہوں گے تو وہ بھوک سے ہی تو مرے گا المیہ تو یہ ہے کہ سرکار اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دریا دلی کا ثبوت یوں دیتی ہے کہ ایک ایک ہزار کے نوٹ ایک خاندان میں بانٹتے وقت فوٹو سیشن ضرور کرواتی ہے تاکہ سند رہے اور عوام کو پتا چل جائے کہ وہ تھر کے ان مرتے ہوئے بچوں کے ساتھ کتنی ہمدردی رکھتی ہے۔

کچھ نوٹ مرنے والوں کے بچوں میں بانٹ کر
ہر ظلم کا ادا یہاں کفارہ ہوگیا

سو اب تھر کے ننھے بچے ناچتے ہوئے موروں سے محروم ہوکر ہر سو منڈلاتی ہوئی موت کا رقص دیکھتے ہیں اب ان کے ننھے منے کانپتے ہوئے ہونٹوں پر پیاس سے پپڑیاں جم جاتی ہیں اب ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں مٹی کے بد صورت طوطے بھی نہیں ہوتے ڈرپ لگی ہوتی ہیں مگر ان سے قطرہ قطرہ ٹپکتی ہوئی دواؤں اور گلوکوز کی بوندیں بھی ان کے کام نہیں آتیں۔ ان کی تڑپتی ہوئی مائیں اپنے بچوں کو حسرت سے تکتی ہیں اور بعض دفعہ تو اپنے رب سے شکوہ کرنا بھی بھول جاتی ہیں دوسرے معنوں میں:

مفلس نے کچھ نہیں کیا رزاق سے گلہ
بچوں کو اپنے آج بھی بھوکا سلا دیا

صحرائے تھر کی یہ داستان سندھ کی تاریخ کا ایک حصہ بن گئی ہے اموات ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں مگر وزیر اعلیٰ اپنے موقف پر قائم ہیں کہ:
''یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ تھرپارکر میں غذائی کمی کے باعث ہلاکتیں ہوئیں وہاں 5 سال سے زائد عمر کے بچے قدرتی طور پر بیماریوں اور 5 سال سے کم خصوصاً نومولود بچے غیر تربیت یافتہ مڈ وائف کی وجہ سے مرے۔''

صرف 48 دنوں میں مرنے والے بچوں کی تعداد88 ہوگئی سچ تو یہ ہے کہ یہاں صحت کے حوالے سے کوئی کام ہی نہ ہوتا ڈاکٹر ڈسپنسریوں میں موجود ہی نہیں ہوتے، سول اسپتال مٹھی تک میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا نہ کیا جاسکا تو پھر دور دراز بسنے والے لوگوں کا حال کیا ہوگا۔

کیا سندھ حکومت کی اس یقین دہانی پر کہ اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے ان بے شمار ماؤں کی ممتا کو قرار آجائے گا جن کی آغوش میں ننھے بچوں نے موت کی آخری ہچکی لی، وہاں کتنے ہی ایسے گھر ہوں گے جہاں بچوں کے کھلکھلانے کے بجائے ماؤں کے رونے کی آوازیں فضا میں گونج رہی ہوں گی، پنگوڑے میں کھلونے پڑے ہوں گے اور ان سے کھیلنے والا کوئی نہ ہوگا، شاید کہ بے حسی اور بے خبری ہماری ہی حکومت کی شناخت بن گئی ہے۔ عوام سے اربوں روپے ٹیکس وصول کرنے والی سرکار سے ایک واحد مخیر شخص ہی قابل فخر ہے جس نے تھر کے ان نادار، مجبور اور نان شبینہ سے محروم لوگوں کے لیے نہ صرف کروڑوں روپے دیے بلکہ دسترخوان بھی سجا دیے مگر تابکے؟

اس سوگوار ماحول میں شاید اب مور بھی ناچنا بھول گئے ہوں گے سانپ بھی انسانوں کو کاٹنا بھول گئے ہوں گے کہ یہ لوگ تو ویسے ہی مر رہے ہیں سو مرتے کو کون مارے۔ غالباً یہاں کے کنوئیں خود پیاسے ہوگئے ہوں گے کہ پیاس بجھانے والے تو دنیا سے جا رہے ہیں غالباً اب تو تھر کے اس قحط زدہ علاقے میں مسائل بھی ڈھونڈھے سے نہ ملتے ہوں گے کہ خیرات دینے والے اکا دکا لوگ بھی رخت سفر باندھ رہے ہیں۔

ریت کے زرد بگولوں کی اس بستی میں جہاں ایک قبر کھودی جاتی ہے وہیں برابر میں احتیاطاً بلکہ پیشگی بہت ساری قبریں کھودی جاتی ہوں گی چھوٹی چھوٹی قبریں جہاں ہر سائز کے بچے آرام سے ابدی نیند سو سکیں۔ یہ سارے مناظر دیکھ کر آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں۔ تھر کے صحرا کی طرح اور پلیٹ سے ایک نوالہ اٹھاتے ہوئے ان ہزاروں پھیلے ہوئے ہاتھوں کا خیال آجاتا ہے جو اجناس سے بھرے کسی مخیر کے بھیجے ہوئے ٹرک کے اردگرد نظر آتے ہیں۔ جہاں گندم کی بوریوں میں مٹی بھر کر بھیجی جاتی ہو کیا وہاں کے باسی مٹی کے سپرد نہ ہوں گے تو کہاں جائیں گے بس اب تو ایک شعر ہی ذرا سی تبدیلی کے ساتھ لبوں پر آکر ٹھہر جاتا ہے کہ:

خورشید مقال بچے کل شام
مٹی کے سپرد کردیے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں