سوچ کابادشاہ

پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیارکی تحقیق کی کوئی سہولت نہیں۔

raomanzarhayat@gmail.com

معلوم ہوتاہے کہ سائنس کی دنیاہمارے جیسے ملکوں کے لیے ترتیب ہی نہیں دی گئی۔پاکستان کوچھوڑدیجئے۔پورے عالم اسلام میں تحقیق کی جدید شکل پرکوئی سنجیدہ غوروفکرنظرنہیں آتی۔ مسلمان ملکوں کی تعداددرجنوں میں ہے۔ان درجنوں ممالک میں ایک بھی یونیورسٹی یاکوئی درسگاہ ایسی نہیں جو قابل ذکر ہو۔ ہمارے لیے شائدعلم کا دروازہ مضبوطی سے بندکردیا گیا ہے۔

آپ کسی مسلم ریاست میں چلے جائیے۔آپ ابوظہبی، دبی،سعودی عریبیہ جیسے امیرملکوں کودیکھیے۔عالیشان شاپنگ مالز 'ہوٹلز اور ریستوران نظرآئینگے۔ سڑکوں اور پُلوں کاجال دیکھ کرحیران رہ جائینگے۔مگرایک چیزڈھونڈننے سے بھی نظر نہیں آئیگی!وہ ہے بین الاقوامی معیارکی تعلیمی درسگاہیں۔ میں نے جن ممالک کاذکرکیاہے وہاں کی تمام دولت چند خاندانوں کے قبضے میں ہے۔تعلیم ان لوگوں کے لیے بے وقعت سی چیز ہے۔وہ ہرچیزخریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ امیر ریاستوں کاذکرچھوڑئیے۔غریب مسلمان ملکوں پرغور کیجیے۔ وہاں تولوگوں کوکھل کرسانس لینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کجا یہ کہاجائے کہ کوئی معیاری سائنسی تعلیم گاہ موجودہو،ان تمام عوامل کوملاکردیکھنے سے ایک واضح تصویر ابھرتی ہے کہ مسلم ممالک کے جمہوری اورغیرجمہوری حکمرانوں کے نزدیک اعلیٰ تعلیم کی کوئی عملی اہمیت نہیں ہے۔

آپ پاکستان کاتجزیہ کیجیے۔ہماری یونیورسٹیوں میں ایک بھی اس درجہ کی نہیں کہ عالمی سطح پرپہلی سومیں ہی آسکیں۔ سائنس کی تعلیم کاتوخیرکیاذکرکیاجائے'کسی بھی یونیورسٹی میں، جی ہاں!پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیارکی تحقیق کی کوئی سہولت نہیں۔ہمارے اکثرپی ایچ ڈی افرادلسانیات کے شعبہ میں ماہرنظرآتے ہیں۔ اردو، عربی، فارسی کے علماء کی بہتات ہے بلکہ سیلاب ہے۔میں ہرگزیہ عرض نہیں کررہاکہ ان مضامین کی اہمیت نہیں ہے۔ بالکل ہے مگراصل اہمیت تواس تعلیم کی ہے جوقوموں کوترقی کی دوڑمیں آگے لے کرجاتی ہے۔ہم لوگ توویسے بھی ماضی کے قیدخانے میں رہنے والے لوگ ہیں۔

آپ ہمارے کسی دانش ور سے مکالمہ کرکے دیکھیے۔وہ آپکومثال دینے کے لیے تاریخی قصوںاورقصیدوں کے سواکچھ نہیں بتائے گا!ہم دو موضوعات پربات اورمناظرے کرنے میں کمال حاصل کرچکے ہیں۔ سیاست اوردین!دونوں میں اپنے اپنے نظریات اوربند ذہن کے ساتھ تقلید!سارادن ہمارامیڈیاان دو موضوعات پربحث کرتا نظرآئیگااورتان ہونہ ہوتاریخ پرٹوٹے گی۔کوئی شخص بھی سائنس کی دنیامیں جھانکنے کے لیے تیارنہیں! میں نے کسی وزیراعظم یاوزیراعلیٰ کی زبان سے یہ نہیں سناکہ وہ''ہارورڈ'' یا' 'کیمرج'' کے معیارکی ایک یادو یونیورسٹیاں بنائے گا۔میں نے اپوزیشن کے کسی رہنماکے خطبات میں یہ ذکرنہیں سناکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سائنس کی ترقی کے لیے کام کرے۔

ہماری تعلیم اورمعیارتعلیم اتناپست ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ایک زمانے میں ہمارے میڈیکل کالجز اعلیٰ درجہ کے ڈاکٹرپیداکررہے تھے۔لالچ اورپیسے کی ہوس کی بدولت سیکڑوں میڈیکل کالج کھول دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلاکہ یہ شعبہ بھی بے توقیر ہوگیا۔

بنیادی طورپرمغربی دنیانے کیسے ترقی کی ہے۔انھوں نے دلیل اوردانش کی بنیادپرسوال اٹھائے ہیں؟اگرانھیں بتایاگیاکہ زمین چوکورہے توان میں سے لوگ کھڑے ہوئے ہیں۔انھوں نے سائنسی علم کی بنیادپرثابت کیاہے کہ نہیں، زمین چوکورنہیں بلکہ گول ہے۔صدیوں پرانااصول کہ زمین ساکت ہے ' چیلنج کیاگیا۔آپ لندن میں برٹش میوزیم میں تشریف لے جائیے۔سیڑھیوں پربڑے بڑے سائنسدانوں کے مجسمے نظرآئینگے۔سات سوبرس سے مسلمان دنیامیں مکمل علمی تاریکی ہے جوپاکستان جیسے ملک میں اوربڑھتی جارہی ہے!یہاں توگھپ اندھیرہ ہے!آپ کھل کراپنانقطہ نظربھی بیان نہیں کرسکتے۔مغرب میں ہرمروجہ روایت کوچیلنج کرنے کاحق خیرات میں نہیںملا۔

وہاں Renaissanceسے پہلے خونریز جنگیں ہوئیں ہیں۔وہاں تحقیق اورسائنس کی دنیامیں آنے کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔وہاں تقلیدکے دروازے کوبندکرکے علم کے دریچے کھولنے کے لیے خون کے دریا بہے ہیں۔ہمیں اگرترقی کرنی ہے توہمیں بھی فیصلہ کن مراحل سے گزرکردلیل اورتحقیق کواپنا اوڑنا بچھونا بناناہوگا۔ورنہ یہاں غریب لوگ کوٹ رادھاکشن کی طرح جلتے رہینگے مگرہمارے پاس دہائیوں سے اس پست درجہ کی ملکی قیادت آئی ہے جوصرف پیسے کمانے کے فن میں ماہرہے۔سائنس اورعلم توانکے لیے شجر ممنوعہ ہے۔


میں ذاتیات پر بھی عرض نہیں کرناچاہتا۔تحقیقی ذہن کی بنیادتجسس اورنفی پر ہے۔سائنس کے طالبعلم اوراس میدان کے شاہسوارایک مخصوص ذہن سے دنیادیکھتے ہیں۔اسی تجسس سے" نیوٹن" پیداہوتاہے!اوراسی نفی سے" آئن اسٹائن" وجود میں آتا ہے۔ہمارے ملک میں تجسس کی اجازت نہیں ہے۔

البرٹ آئن اسٹائن جرمنی میں پیداہوا۔اس کا والد ہرمین آئن اسٹائن ایک انجینئرتھا۔آئن اسٹائن ان کاخاندانی نام تھا۔ البرٹ ایک انتہائی عجیب بچہ تھا۔وہ اسکول میں اپنی انتظامیہ کے پاس جاکرانھیں سمجھاتاتھاکہ انکاتدریس کاطریقہ ٹھیک نہیں ہے اوروہ بچوں میں سوچنے کی صلاحیت پیدانھیں کر رہے۔نتیجہ میں اسے اسکول سے نکال دیاگیا۔سولہ سال کی عمرمیں اس نے زیورخ کی پولی ٹیکنیک کاامتحان دیا۔وہ تمام مضامین میں فیل ہوگیا۔مگرپرنسپل نے نتیجہ پڑھاتووہ حیران رہ گیا۔فزکس اور حساب میں اس کے نمبرسب سے زیادہ تھے۔اس نے البرٹ کوداخلہ دیدیا۔ابتدائی تعلیم کے بعددوسال تک آئن اسٹائن بے کاررہا۔اسے کسی جگہ بھی نوکری نہیں ملتی تھی۔

بڑی مشکل سے اسے زیورخ میں ایک ایسے ادارے میں نوکری مل گئی جسکاکام سائنسی تحقیق کے نتیجہ میں ایجادشدہ مشینوں کوپرکھناتھا۔ ٹائپ رائٹرکی ایجادکوبھی اسی زمانے میں اس کے ہاتھ سے سند ملی۔اس نے ایک"اولمپیااکیڈمی"ترتیب دی۔اس میں سائنسدان ملکرکسی بھی موضوع پربحث کرتے تھے۔ یہاں بنیادی طورپرفزکس اورفلسفے پردقیق بحث کیجاتی تھی۔اس نے زیورخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔اسی سال اس نے اپنی زندگی کے چارشاہکارنظریے پیش کیے۔ جس میں انرجی اورمادہ کی برابری کی حیرت انگیزتھیوری بھی شامل تھی۔ اس نے فزکس کے ہرنظریہ کوچیلنج کرڈالا۔اس نے چالیس کے قریب جدیدنظریات بھی پیش کردیے۔سائنس کی دنیامیں اتنابڑاانقلاب کوئی اورشخص نہیں لاسکا۔

"Theory of Relativity"کاقصہ بھی بہت عجیب ہے۔اس کی بیوی ایلسانے بتایاکہ ایک دن صبح ناشتہ کی ٹیبل پرآیامگرخاموش بیٹھارہا۔ایلساسمجھی کہ اس کی طبیعت خراب ہے۔وہ گہری سوچ میں ڈوباہواتھا۔وہ ناشتے کی کی میزسے اٹھ کراپنے پیانوپربیٹھ گیا۔گھنٹوں پیانوبجاتارہا۔پھر اٹھ کراپنے کمرے میں چلاگیا۔ دوہفتے اپنے کمرے سے باہر نہیں آیا۔ایلسا کہتی ہے کہ دوہفتے میں وہ اس کے کمرے میں کھانارکھ دیتی تھی۔مگراکثروہ مصروفیت کی وجہ سے کھانابھی نہیں کھاتاتھا۔چودہ دن کے بعدوہ اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں تین کاغذتھے۔یہTheroy of Relativityکامسودہ تھا۔اس نظریہ نے سائنس میں انقلاب برپاکردیاجس سے پوری دنیاتبدیل ہوگئی۔

جرمنی میں ہٹلرکی حکومت میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔اسلیے کہ وہ یہودی تھا۔اسے برطانیہ میں پناہ لینی پڑی۔ جرمنی میں آئن اسٹائن کے تمام مقالے جلادیے گئے۔ ہٹلر کے وزیرگوئبلزنے اخبارمیں بیان دیاکہ اس نے جرمنی کوآئن اسٹائن کے نظریات سے پاک کردیاہے۔جرمنی کی حکومت کی نظرمیں وہ ایک مجرم تھا۔اس کے سرکی سرکاری قیمت پانچ ہزارپاؤنڈرکھ دی گئی۔مگرآئن اسٹائن لندن میں محفوظ تھا۔لندن میں حکومت نے اسکودوسپاہی بھی فراہم کیے جوہروقت اس کی حفاظت پرمامورتھے۔

مگرآئن اسٹائن کادل لندن میں بے زار ہوگیا۔وہ1933ء میں امریکا آگیا۔پرنسٹن یونیورسٹی میں پروفیسربن گیا۔ آئن اسٹائن ہی وہ شخص تھاجس نے امریکی صدرکوبتایاکہ ہٹلرایٹم بم بنانے کی تیاری کررہاہے۔اسی کے قائل کرنے پر"مین ہیٹن پروگرام"شروع کیاگیا۔اس پروگرام کی بدولت امریکا دنیاکی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔

آئن اسٹائن نے امریکا میں آکرایک تکلیف دہ معاشرتی پہلودیکھا۔اس نے سیاہ فاموں کے ساتھ ہرسطح پرناانصافی محسوس کی۔آئن اسٹائن نے ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک مہم چلادی۔اس نے اُن سیاہ فام بچوں کی فیس اداکرنی شروع کردی جوسائنس پڑھناچاہتے تھے۔وہ دنیاکامشہورترین شخص بن چکاتھا۔ دنیاکا ہرانعام اورمیڈل اس کے قدموں میں تھا۔1948ء میں وہ بیمارہوگیا۔اس نے آپریشن کروانے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتاتھاکہ" مصنوعی طریقے سے طویل زندگی حاصل کرنابے مزہ ہے"۔وہ مرتے دم تک کام کرتارہا۔وہ امریکا میں جہاں بھی جاتاتھا،لوگ ہزاروں کی تعدادمیں اس کے اردگردجمع ہوکراس کے نظریات کے متعلق سوالات شروع کردیتے تھے۔اس کا جواب ہوتاتھاکہ اس کی شکل آئن اسٹائن سے ملتی ہے۔دراصل وہ سائنسدان نہیں ہے۔ صرف اس کاہم شکل ہے۔

نیویارک کے ممبر"جمی واکر" نے آئن اسٹائن کے لیے ایک تقریب منعقدکی۔اس میں ایک فقرہ اَمرہوگیا۔ تقریرکے دوران اس عظیم سائنسدان کے متعلق کہاکہ"وہ انسانی ذہنوں پرحکومت کرنے والابادشاہ ہے"۔میرے ذہن میں اس عظیم آدمی کے لیے اس سے مناسب فقرہ موجودنہیں ہے۔مگرہم کیاہیں!ہماری سوچ کیاہے!ہم سائنسی اورمعیاری علمی اعتبارسے کہاں کھڑے ہیں!مجھے توایسے لگتاہے کہ ہماری آزادسوچ پرپہرے لگادیے گئے ہیں!تقلیداورجہالت کے ان تالوں کی چابیاں سمندرمیں گم کردی گئیں ہیں!ہمارے نظام میں انسانی ذہن پردلیل کی بنیادپرحکومت کرنے والابادشاہ پیداہی نہیں ہوسکتا!اگرہوبھی گیاتوہم اسے فوراًمارڈالیں گے!
Load Next Story