کالا باغ ڈیم کا مقدمہ پھر لگ گیا ہے
کالا باغ ڈیم کی ضرورت یوں ہے کہ پاکستان کو اپنے دریائی نظام سے سالانہ اوسطاً 13 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ جو پانی ملتا ہے۔
شمس الملک اور کالا باغ ڈیم لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ کہیں کالا باغ ڈیم کی بات ہو رہی ہو، اور شمس الملک کا نام نہ آئے، یا کہیں شمس الملک کا تذکرہ چل رہا ہو، اور کالاباغ ڈیم کا ذکر نہ ہو۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے ان کی تحریک گزشتہ ربع صدی سے جاری ہے۔
وہ بہت معمر ہو چکے ہیں، لیکن کالا باغ ڈیم کے لیے جہاں سے بھی آواز بلند ہو، یا جو بھی آواز بلند کرے، وہ اپنے جسم وجان کی بھرپور توانائی کے ساتھ اس کی تائید کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب مسلم لیگ ق کے نوجوان رہ نما مونس الٰہی نے ان سے کہا کہ وہ کالا باغ ڈیم پر قومی سیمینار منعقد کرنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے باقاعدہ مہم بھی چلانا چاہتے ہیں تو انھوں نے نوجوان رہ نما کی بھرپور حوصلہ افزائی کی، اور کہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے اس عظیم منصوبہ کے لیے وہ اوران کی ٹیم ان کے شانہ بہ شانہ ہوں گے۔
اگر مسلم لیگ ق مخلصانہ طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے مہم شروع کرتی ہے، تو نہ صرف یہ کہ قومی نقطہ ء نظر سے یہ ایک خوش آیند اقدام ہو گا ، بلکہ اس سے مسلم لیگ ق کو بطور ایک پارٹی کے بھی بہت فائدہ ہو گا۔ یوں بھی اگر مسلم لیگ ق کا 'ق'قائداعظم کی نسبت سے ہے، اور جنرل پرویز مشرف سے اب اس کا کوئی پیوند نہیں، تو اسے کالا باغ ڈیم کے مسئلہ پر مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقتاً، اسلام آباد میں کالا باغ ڈیم سیمینار کا انعقاد کر کے مسلم لیگ ق نے کالا باغ ڈیم کی بحث کو ازسرنو زندہ کر دیا ہے۔
کالا باغ ڈیم بننا چاہیے، یا نہیں بننا چاہیے، یہ بحث گزشتہ ربع صدی سے چل رہی ہے۔ کالا باغ ڈیم کا پس منظر کیا ہے، اور یہ کہ پاکستان کو کالا باغ ڈیم کی ضرورت کیوں ہے۔ آئیے، ان دونوں سوالات کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کا پس منظر یہ ہے کہ ستمبر1963ء میں جنرل ایوب خان کو ان کے ماہرین پانی و بجلی کی طرف سے بریفنگ دی گئی کہ پاکستان کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، اور پاکستان کی صنعت اور زراعت جس رفتار سے ترقی کر رہی ہیں، دس پندرہ سال بعد صرف تربیلا اور منگلا ڈیم ان کی ضرورت پوری نہیں کر سکیں گے۔
نومبر1963ء میں جنرل ایوب خان واشنگٹن گئے، تو انھوں نے ورلڈ بینک کے صدر سے اس سلسلہ میں بطور خاص ملاقات کی اور ان سے استدعا کی کہ اس مسئلہ کے پیشگی حل کے لیے وہ ان کو ایک development plan تیار کروا کے دیں، جس کا منہ مانگا معاوضہ دیا جائے گا۔ ورلڈ بینک نے پانی و بجلی کے عالمی ماہرین کی ایک ٹیم بنائی اور یہ اس کو ٹاسک سونپ دیا ۔ 1967ء میں اس ٹیم نے development of water and power resources of west pakistan , a sectoral analysis کے نام سے حکومت پاکستان کو جو تحقیقی رپورٹ پیش کی، اس کا لب لباب یہ تھا کہ 1992ء تک پاکستان کے پاس تربیلا اور منگلا ڈیم کے علاوہ تیسرا بڑا ڈیم ، جو کالا باغ کے مقام پر ہو سکتا ہے، بھی ہونا چاہیے، بصورت دیگر پانی اور بجلی کا جو خوف ناک بحران پیدا ہو گا، اس سے نمٹنا ناممکن ہو گا۔
عالمی ماہرین کی تجویز یہ تھی کہ کالا باغ ڈیم پر کام1977ء تک شروع ہو جانا چاہیے۔ اتفاق یہ ہے کہ جنرل ایوب خان کے بعد، یہ پھر ایک 'فوجی آمر' جنرل ضیاالحق تھے، جنہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ ابتدائی تحقیقی کام مکمل ہونے پر 1981ء میں کالا باغ ڈیم کی سائٹ پر سرکاری مشینری کی نقل و حرکت شروع ہو گئی، لیکن 'اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے' کے مصداق 1985ء میں الیکشن ہو گئے اور محمد خان جونیجو وزیر اعظم بن گئے۔
نتیجتاً، جماعتی سیاست بھی بحال ہو گئی۔ اب کیا تھا، کالا باغ ڈیم کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایسی مہم شروع ہو ئی کہ خدا کی پناہ۔ 1988ء تک کالا باغ ڈیم کے خلاف سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اتنا پروپیگنڈا ہو چکا تھا کہ اس کی فیزبیلٹی رپورٹok ہو نے اور ورلڈ بینک کی طرف سے مکمل امداد کی یقین دہانی کے باوجود حکومت پاکستان اسے شروع نہ کر سکی۔ وہ دن اور آج کا دن، کالا باغ ڈیم کا منصوبہ سرد خانہ میں بے حس و حرکت پڑا ہے۔کالا باغ ڈیم کی ضرورت یوں ہے کہ پاکستان کو اپنے دریائی نظام سے سالانہ اوسطاً 13 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ جو پانی ملتا ہے۔
جس کا 83 فی صد ، یعنی11 کروڑ 47 لاکھ ایکڑ فٹ موسم گرما میں اور صرف17 فی صد ، یعنی 2 کروڑ 31 لاکھ ایکڑ فٹ موسم سرما میں مہیا ہوتا ہے۔ موسم گرما میں ملکی زراعت کی ضرورت 7 کروڑ 91 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہے، جب کہ موسم سرما میں اسے 3 کروڑ 82 لاکھ ایکڑ فٹ پانی درکار ہے۔ گویا، موسم گرما میں جو پانی ضرورت سے 3 کروڑ 50 لاکھ ایکڑ فٹ زیادہ ہوتا ہے، وہی پانی موسم سرما میں ضرورت سے 1کروڑ 51 لاکھ ایکڑ فٹ کم ہو جاتا ہے۔
نکتہ یہ ہے کہ پانی ضرورت سے زیادہ ہو گا، تو سیلاب لائے گا، تباہی پھیلائے گا اور آخر کار سمندر میں گر کر خود بھی ضایع ہو جائے گا۔ بعینہ، پانی ضرورت سے کم ہو گا ، تو زرعی پیداوار میں کمی کا موجب ہو گا، اور قحط کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک طرف دلدل ہے، دوسری طرف کھائی ہے۔ اس صورتحال میں عقلمندی کا راستہ تو یہ ہے اور یہی انسان کے صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہے کہ موسم گرما میں ضرورت سے زیادہ پانی کو کسی بڑے ڈیم میں ذخیرہ کر لیا جائے تا کہ موسم سرما میں ضرورت پڑنے پر استعمال میں لایا جا سکے۔ یوں، ضرورت سے زائد پانی سیلاب کی شکل اختیار کر سکے گا، نہ ضرورت پڑنے پر اس کی قلت ہوگی۔ کالا باغ ڈیم کی دوسری افادیت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ بہت وافر اور بہت سستی بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ ق کے کالا باغ ڈیم سیمینار کی اچھی بات یہ تھی کہ اس میں چاروں صوبوں کی برابر نمایندگی تھی۔ سیمینار کے پہلے سیشن میں کلیدی خطاب سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کا تھا، جو خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ دوسرے سیشن میں کلیدی خطاب پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق نائب وزیر اعظم چوہدری پرویزالٰہی کا تھا۔ معروف ماہر معیشت سلمان شاہ کا خطاب بھی اس موضوع پر خاصے کی چیز تھا۔ معلوم ہوا کہ مونس الٰہی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بعد مرحلہ وار چاروں صوبائی دارالحکومتوں لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں بھی کالا باغ سیمینار منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔