قدیمی زرعی غلامی اور جدید جمہوری غلامیآخری حصہ

1776 میں غلاموں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دینے کی تجویز پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔


خالد گورایا November 21, 2014
[email protected]

کئی علاقوں اور ملکوں میں غلام اکثریت میں تھے لیکن ان کی مزاحمت آقاؤں نے کمزور کی ہوئی تھی۔ برطانیہ غلاموں کی تجارت کا مرکز تھا۔ 1772 میں برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا کہ غلام سرزمین برطانیہ پر قدم رکھتے ہی آزاد ہوجاتا ہے۔ 1776 میں غلاموں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دینے کی تجویز پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔

آخرکار 1811 میں غلاموں کی تجارت کرنیوالوں کو سخت سزا دینے کا اعلان ہوا۔ ہیٹی پر اسپین کا قبضہ تھا۔ 1697 میں فرانس اس پر قابض ہوگیا۔ یہاں سیاہ فام اکثریت سفید چمڑی والوں سے آبادی میں 16 گنا زیادہ تھے 121 سال بعد 1818 میں فرانس میں اس کے مقبوضات میں غلاموں کی تجارت اور غلامی ممنوع قرار دے دی گئی۔ 1820میں ڈنمارک میں شاہی فرمان کے ذریعے ڈنمارک کے مقبوضات میں غلاموں کی تجارت ممنوع قرار دے دی گئی۔

1813 میں سوئیڈن نے غلاموں کی تجارت بند کردی۔ 1814 میں ہالینڈ میں غلاموں کی تجارت ممنوع قرار دی گئی۔ 1871 میں برازیل کی پارلیمنٹ نے قانون منظور کرکے تمام سرکاری غلام آزاد کردیے۔ امریکی مساچوسٹر نے 1780 میں غلاموں کی ملکیت کو غیرقانونی قرار دیا۔ پنسلوانیہ میں کو بکروں نے 1696 میں آزادی کی تحریک شروع کی تھی۔ 1770 تک تحریک پھیل گئی۔ امریکا میں 1861 میں غلامی برقرار رکھنے کی حامی سات ریاستیں الگ ہو گئیں۔

آٹھ ریاستیں وفاق میں شامل رہیں۔ امریکی صدر لنکن نے بزور قوت ریاستوں کو دبا دیا۔ 1865 میں جنوبی ریاستوں میں غلامی ختم ہوگئی۔ غلاموں کے تجارتی مراکز سوڈان، نائیجیریا، کانگو، نیاسالینڈ، حبش اور لائبیریا تھے جو بعد میں ختم ہوگئے۔ زرعی کلچر کی گود سے زراعتی زمین کی ملکیت نے جنم لیا اور ذاتی ملکیت پر زرعی غلاموں سے کام لے کر زیادہ سے زیادہ پیداواریں حاصل کرنے کا رواج پیدا ہوا۔ جاگیردارانہ سماج میں دست سازی، کپڑے بنانے کے لیے ہاتھ کی کھڈیاں ایجاد کی گئیں۔

زرعی غلاموں کی آزادی کے پیچھے دور جدید یا 18ویں صدی کا صنعتی انقلاب تھا۔ بھاپ کی قوت کا استعمال 1698 میں تھامس سیورے نے بھاپ سے چلنے والا انجن بنایا۔ 1712 میں تھامس نیوکومن نے بہتر بھاپ انجن ایجاد کرلیا۔ اس انجن سے کانوں میں سے پانی کھینچنے کا کام لیا جاتا تھا۔ 1764 میں جیمز واٹ نے پہلے سے بہتر بھاپ انجن ایجاد کرلیا۔ 1781میں ہورن۔ بلوور نے مزید بہتر انجن ایجاد کرلیا۔ 1803رچرڈ ٹریوی تھک نے بھاپ کی قوت سے چلنے والا ریل انجن بنالیا۔ اس سے قبل 1733 میں جون کے (John Kay) نے فلائنگ شٹل ایجاد کیا۔

جیمز ہارگروز نے 1767 میں اسپننگ جینی Spinning Jenny مشین ایجاد کرلی جس سے ایک ورکر ایک وقت میں کافی دھاگے کات سکتا تھا۔ 1769میں رچرڈ ارک لائٹ نے ہارگروز سے زیادہ بہتر مشین بنالی۔ 1779 میں سیموئل کرامپٹن نے دھاگے کاتنے کی مشین Spinning Mule بہتر انداز میں ایجاد کرلی۔ یہ بھاپ سے چلتی تھی۔ ایڈمنڈکارٹ لائٹ نے 1787 میں کپڑا بننے والی مشین مزید بہتر انداز میں ایجاد کر لی۔ یہ بھاپ سے چلنے والی Power Loom تھی۔ سمندروں میں دخانی (بھاپ) جہاز چلنے لگے۔ بھاپ کھڈیوں سے شہروں میں کارخانے لگنے لگے۔

جارج اسٹی فن سن نے 1825 میں رچرڈ ٹریوی تھک سے بہتر ریل پٹری، گاڑی کے ڈبے اور ریل بھاپ انجن ایجاد کرلیا۔ اس کے بعد ریلوے کی صنعت پھیلتی گئی۔ صنعتی کلچر کی گود سے صنعتکاروں نے جنم لیا۔ اس طرح زرعی کلچر میں جاگیردار، بادشاہ کا بنیادی کردار تھا۔ زمینوں پر زرعی غلاموں کی جگہ اجرتی غلاموں یعنی زرعی مزدوروں نے لے لی اور صنعتی کلچر میں صنعتکار کارخانوں فیکٹریوں کے مالکوں (ذاتی ملکیتوں) کے طور پر سامنے آئے اور ان کارخانوں، فیکٹریوں میں کام کرنیوالے صنعتی مزدوروں کی شکل میں سامنے آگئے جہاں زمینوں کی ذاتی ملکیت کے حوالے سے جاگیرداروں اور زرعی مزدوروں میں کشمکش موجود تھی۔

وہاں صنعتکاروں اور صنعتی مزدوروں کے درمیان کشمکش پیدا ہوگئی۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں جمہوری پارلیمنٹ ہونے کے باوجود ووٹ کا حق جائیداد اور ٹیکس ادا کرنیوالے شہریوں تک محدود تھا۔ چارٹسٹوں Chartists نے تمام بالغ شہریوں کو حق رائے دہی استعمال کرنے کا مطالبہ 1828 سے 1848 کے دوران کیا تھا۔ فرانس میں ٹرائیکا (اشرافیہ) نے 27 اگست 1789 قدیم جاگیرداروں کی زرعی غلامی اور بے گار کا خاتمہ اور عام شہریوں کے ملازمتوں میں داخل ہونے کی پابندی کو ختم کرنے کا کہا۔ کسانوں کو حق رائے دہی دیا گیا۔ زرعی کلچر اور صنعتی کلچر پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اشرافیہ نے جمہوری کلچر کو مقدسیت کے درجے پر پہنچا دیا۔

صنعتی کلچر کی گود سے صنعتکاروں نے جنم لیا۔ صنعتکاروں کا اثرورسوخ شہری علاقوں پر پھیلتا گیا۔ بادشاہی دور میں بادشاہ، نوابوں، جاگیرداروں، سرداروں سے مشورے لے کر فیصلے کرتے تھے لیکن بعض اوقات بادشاہ مخالفتوں کا سامنا کرتا تھا۔ صنعتی کلچر جوں جوں پھیلتا گیا توں توں ریاستی کردار میں اس کا حصہ بڑھتا گیا۔ جنگ و جدل سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی جگہ ''مہذب جنگ'' نے لے لی۔ اس جنگ کا نام ڈیموکریسی رکھا گیا۔ جاگیردار، نواب، سردار، متولی، سجادہ نشین، سرمایہ کاروں نے عوام کو حق رائے دہی دیا کہ وہ اپنی پسند کے نمایندے کو ووٹ دیں۔ جاگیرداروں نے زمینوں پر کام کرنیوالے ہاریوں سے جاگیری قوت یا ذاتی ملکیت کی بنا پر ووٹ لینا شروع کیا۔

جاگیرداروں کے ذرایع آمدنی وسیع ہونے کی وجہ سے ان کا کنٹرول تھانہ کچہری پر بھی قائم ہوگیا۔ اس طرح ہر علاقے کا بڑا زمیندار بادشاہ، نواب یا سردار بنتا گیا۔ شہری علاقوں میں صنعتکاروں نے اپنے نمایندے اسمبلیوں میں بھیجنے شروع کردیے یا خود اسمبلیوں کے ممبر بننے لگے۔ اس طرح دونوں نے مل کر ملکی وسائل اور خزانے پر قبضہ کرلیا قانون سازی وقت کے تقاضوں کے مطابق کرکے عوام کو جمہوری غلام بنالیا۔ پہلے کئی ہزاروں سال طاقتور کمزوروں پر قبضے کر کے انھیں غلام بناتے تھے۔زرعی کلچر کی گود سے سرداروں، جاگیرداروں، نوابوں، بادشاہوں نے جنم لیا اور عوام کو زرعی غلام بنایا۔ صنعتی کلچر کی گود سے صنعتکاروں، سرمایہ کاروں، بینکوں، دیگر اداروں اور صنعتی مزدوروں نے جنم لیا۔ جاگیرداروں اور صنعتکاروں نے مل کر جمہوری کلچر کو جنم دیا اور پورے ملک کے عوام کو جمہوری غلام بنالیا۔ آج عوام کس کس پارٹی کو ووٹ دیں کیونکہ ہر پارٹی نے جو اشرافیہ (ٹرائیکی) پر مشتمل ہے۔

اس نے 1951 اکتوبر کے بعد سے آج تک عوامی ووٹ سے اقتدار، اختیارات، عوامی خزانہ حاصل کرکے عوام کی مسلسل خوشحالی کی نفی کی ہے۔ اسلام کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا گیا۔ پاکستان کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا گیا۔ عوام کے لیے روٹی، کپڑا، مکان کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ یہ تمام لیڈر عوام کو یوٹوپیائی، خیالی، تصوراتی، بے وجودی، خوشحالی اپنے اپنے پارٹی کے پلیٹ فارم سے دے کر دھوکے در دھوکے دے رہے ہیں۔

ان لیڈروں کے اثاثے، بیرونی ملکوں میں بینک اکاؤنٹس میں اضافے ہوتے جا رہے ہیں ان کے پاس افراط زر ہے اور عوام قلت زر کا شکار ہیں۔ یہ خدمت کے نام پر عوام کی معاشی تباہ حالی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ایک ہزار قبل کا (عوامی) انسان بھی زرعی غلام تھا۔ اسے جاگیردار خریدوفروخت کرتا تھا۔ آج 2014 کا انسان بھی اسی اشرافیہ کا ''جمہوری غلام'' اور ''معاشی غلام'' ہے جو اپنی مرضی سے زندہ رہنے کے بنیادی معاشی حق سے محروم ہے۔ خدا کی پیدا کردہ مخلوق ایک چیونٹی، ایک چڑیا خدا کی پیدا کردہ زمین پر آزادی سے روزی حاصل کرتی ہیں لیکن عوام کے زندہ رہنے کا حق اشرافیہ (ٹرائیکا) نے چھین رکھا ہے۔

آج عوام اپنی قوت سے درمیان میں کھڑی نفاقی (نفاق) کی دیواروں کو گراکر عوامی اتحاد قائم کرکے اشرافیائی جبر اور ان کے اقتدار کو دھکا دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کردے۔ اس وقت تک یہ ٹرائیکی جمہوری کلچر عوام کو جمہوری غلامی میں جکڑے رکھے گا۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے عوام کو اپنی ''معاشی آزادی'' اور ''جمہوری آزادی'' ٹرائیکا یا اشرافیہ سے چھین لینی ہوگی۔ عوام کو جمہوری غلامی کی زنجیریں کاٹ دینی ہونگی۔ عوام جب تک جمہوری آزادی، معاشی آزادی حاصل نہیں کرینگے اس وقت تک عوام کی خوشحالی ناممکن ہو گی کسی ملک کے دفاع کی اصل قوت عوام ہوتے ہیں اگر عوام معاشی بدحالی کا شکار ہوں تو اس ملک کا دفاع کمزور ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں