عوام کی سیاستدانوں سے وابستہ امیدیں

عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں غربت اور بیروزگاری کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔

ملک میں جاری احتجاجی دھرنوں کی سیاست نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا الزام لگا کر تحریک انصاف ان انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے خلاف اسلام آباد میں تین ماہ سے دھرنا دیے بیٹھی ہے اور دھاندلی کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ لے کر اسلام آباد کے ساتھ ساتھ ان احتجاجی دھرنوں کا دائرہ ملک کے دیگر شہروں تک لے کر پہنچ چکی ہے۔

ملک کے طول و عرض میں جاری ان احتجاجی جلسوں اور دھرنوں سے ہر شخص اپنی تشویش کا اظہار کرتا نظر آرہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اس کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اگر شفاف تحقیقات کے بعد یہ الزام سچ ثابت ہوتا ہے تو موجودہ حکومت کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں رہے گی اور وسط مدتی انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کو گزرے ابھی صرف اٹھارہ ماہ ہی ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لیے سیاسی جلسے، تحریکیں اور ممبر سازی کا آغاز کردیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں یوم شہدا کے حوالے سے منعقدہ ایک جلسے سے اپنی سیاسی اننگ کا آغاز کرکے اپنی پارٹی کو متحرک کرچکے ہیں اور 30 نومبر کو اپنی پارٹی کے یوم تاسیس کے دن اہم اعلانات کرنے جا رہے ہیں، جماعت اسلامی بھی مینار پاکستان پر تین روزہ اجتماع عام کے بعد ملک کو ایک ماڈل اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے تحریک شروع کرنے جا رہی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اپنی جماعت کے لیے ممبر سازی کا آغاز کردیا ہے پاکستان عوامی تحریک بھی دیگر جماعتوں کی طرح اپنے کارکنوں کی ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہلاکتوں کے بعد دو ماہ سے زائد عرصہ تک اسلام آباد میں پنجاب حکومت کے سربراہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر اعظم نواز شریف سمیت اہم وزرا کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور دیگر مطالبات کے پورا ہونے کے حصول تک اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے رہے اور محرم الحرام کے احترام میں دھرنا ملتوی کرنے کے بعد ایک بار پھر رواں ماہ سے جلسے اور دھرنے شروع کرنے جا رہے ہیں۔

اور تحریک انصاف تو پہلے ہی دھرنے اور جلسے کر رہی ہے اور نئے پاکستان کا نعرہ عوام کو دے چکی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کی تحریکیں اور جلسے اپنی جگہ مگر عوام کی حالت زار کتنی بدلی اور کیا یہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو اپنے منشور اور انتخابات کے دوران کیے گئے وعدوں کے مطابق ان کا حق دلانے میں کامیاب ہوئیں؟


اگر ہم گزشتہ چند دہائیوں میں ملک میں ہونے والے عام انتخابات کا ایک مختصر جائزہ لیں تو 1988 سے 2013 تک 7 مرتبہ عام انتخابات ہوئے۔ مرکزی سطح پر دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوئیں اور یہی جماعتیں صوبائی سطح پر بھی چاروں صوبوں میں اپنے طور پر یا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوتی رہیں۔

صرف 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) ایک بار مرکز میں حکومت قائم کرسکی اور 5 سال ایوان اقتدار میں براجمان رہی کم و بیش ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی سطح پر شراکت اقتدار میں شامل رہیں مگر وہ خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکیں۔ مثل مشہور ہے کہ ''امید پر دنیا قائم ہے'' تو جناب! ہمارے عوام ان سیاسی جماعتوں سے اپنی امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والی حکومت ان کی زندگی میں بہتری ضرور لائے گی اور آنے والے وقت میں انھیں بجلی پانی گیس جیسی بنیادی سہولتیں میسر ہوں گی غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

لاقانونیت کا خاتمہ ہوگا اور انصاف کا بول بالا ہوگا مگر عوام سے کیے گئے روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ ہو یا اقتدار عوام کی دہلیز تک پہنچانے کا وعدہ، اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا عزم ہو یا کرپشن سے پاک نئے پاکستان کا نعرہ یہ تمام باتیں صرف ان سیاسی جماعتوں نے نعروں اور وعدوں تک محدود رکھے۔

عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں غربت اور بیروزگاری کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے عوام انصاف کے حصول میں آج بھی در بدر ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں یہ نہیں کہ منتخب حکومتیں عوام کے لیے کچھ نہ کرسکیں یلوکیب اسکیم، سستی روٹی، پڑھا لکھا پاکستان، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، یوتھ لون اسکیم، گرین ٹریکٹر اسکیم، لیپ ٹاپ اسکیم سمیت دیگر پروگرامز کے ذریعے عوام کو سہولتیں پہنچانے کی کوششیں کی گئیں مگر عوام کی روزمرہ کی زندگی میں یہ اسکیمیں خاطر خواہ تبدیلی نہ لاسکیں، میرا مقصد قطعی طور پر عوام کو ان سیاسی جماعتوں سے مایوس کرنا نہیں بلکہ میری تو خواہش ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں سیاست کا طالب علم ہونے کی وجہ سے میں اس چیز سے بخوبی واقف ہوں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا درخت اس طرح تناور نہ ہوسکا جو اس کا حق تھا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکیں ۔

جس کی وجہ سے انھیں اپنی جماعتوں کے سیاسی منشور اور عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کا وقت نہ مل سکا اور وہ عوام کو ان کا جائز حق نہ دلا سکے ان سیاسی جماعتوں کی حکومتوں پر کبھی سازشوں کے ذریعے اور کبھی آئین کو استعمال کرکے شب خون مارا گیا تو کبھی آمروں نے ان کی حکومتوں پر ڈاکہ ڈالا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 کے عام انتخابات کے بعد پہلی دفعہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی اور وہ اپنے دور اقتدار میں عوام کو کیا کچھ دے پائی اس کا اندازہ 2013 کے عام انتخابات کے ذریعے عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے ثابت کردیا۔ قطع نظر اس کے پیپلز پارٹی بھی ان انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کرتی نظر آتی ہے۔

ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو عام انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں اور حکومت وقت سے یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ اپنے آپس کے سیاسی اختلافات کو بھلا کر مثبت اور تعمیری سیاست کا آغاز کریں گے ملک میں موجود توانائی کے بحران کے خاتمے اور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنے پر توجہ دیں گے مگر تاحال ان کا یہ خواب اور امیدیں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکیں اور سیاسی جماعتیں ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے آپس کے اختلافات میں الجھ کر ملک کو کسی اور طرف دھکیل رہی ہیں ملک کے سیاست دانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اب ہم کسی اور امتحان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سیاست میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے پاکستانی عوام جمہوریت پسند ہیں وہ اپنے سیاست دانوں سے ہی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کے بہتر کل کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ ''پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ''
Load Next Story