ان سے خبردار رہیے
جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ سب سے بڑی بدی اور سب سے گھناؤنا جرم افلاس ہے اس لیے اٹھو اور میرے ملک کےغریبوں کو جگا دو۔
ڈکن نے کہا ہے '' غریبی دنیاکی سب سے بڑی مصیبت ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی برائی نہیں جو لوگ غربت میں زندگی گذار نے کا سبق دیتے ہیں ان سے خبردار رہیے وہ آپ کے ہمدرد نہیںہیں۔'' بدھا کے زمانے میں ایک خاتون Kisagotami کو اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا غم تھا اس کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی وہ جگہ جگہ لوگوں کے پاس دوڑتی رہی کہ کوئی شخص اسے کوئی ایسی دوا دیدے جو اس کے بیٹے کو زندگی بخش دے ۔
کہا جاتا تھا کہ بدھا کے پاس ایسی دوا موجو د تھی وہ عورت بدھا کے پاس پہنچی عزت واحترام پیش کیا اور بولی کیا آپ ایک ایسی دوا بناسکتے ہیں جو میرے بچے کو زندہ کر سکے۔ میں ایسی دوا جانتاہوں بدھا نے جواب دیا لیکن اسے بنانے کے لیے مجھے دوا کے چند اجزا درکار ہونگے۔
عورت کو کچھ آس نظر آئی اس نے پوچھا آپ کوکون سے اجزاء درکار ہیں ۔'مجھے ایک مٹھی رائی لا دو' بدھا نے جواب دیا۔ عورت نے کہا وہ میں لے آتی ہوں لیکن جب وہ جانے لگی تو بدھا نے اپنی بات میں اضافہ کیا مجھے رائی ایسے گھر کی چاہیے جہاں کاکوئی بچہ ، میاں ، بیوی ، والدین یا ملازم نہ مرا ہو ۔ عورت یہ بات مانتے ہوئے گھر گھر گھومتی ہوئی رائی تلاش کرنے لگی ہر شخص کا جواب ہوتا کہ رائی حاضر ہے لیکن جب عورت یہ پوچھتی کہ اس گھر کا کوئی فرد مرا تو نہیں غرض اس عورت کوکوئی گھر ایسا نہیں ملا جہاں موت نہ واقع ہوئی ہو کسی گھر سے معلوم ہوتا کہ اس کی بہن کسی سے یہ کہ اس کا نوکر کسی سے یہ کہ اس کا شوہر کسی سے یہ کہ اس کے والدین مرچکے ہیں۔ اس عورت کو ایسا گھر نہیں ملا جو موت کے غم سے خالی ہو وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ صرف وہی اس غم میں نہیں مبتلا ہے۔
اس نے اپنے بیٹے کا لاشہ اٹھایا اور بدھا کے پاس چلی آئی جنہوں نے انتہائی دردمندی سے کہا تم سمجھتی تھیں کہ صرف تمہارے بیٹے نے ہی دم توڑا ہے موت کا قانون تو ہر شے کے لیے ہوتا ہے کوئی بھی شخص ہمیشہ زندہ نہیں رہتا۔ Kisagotamiکی تلاش نے اسے باور کر ا دیا تھا کہ کوئی شخص اس نقصان کے غم سے خالی نہیں ہے صرف وہی ایسی نہیں ہے جسے اس بدقسمتی نے گھیرا ہو۔
ہم دنیا کے واحد افراد نہیں ہیں جو مصیبت زدہ اور افلاس زدہ ہیں ہم سے پہلے باقی دنیا کے لوگوں کو بھی یہی حال تھا لیکن انھوں نے ہمت، حوصلے اور جرأت مندی کے ساتھ اپنے نصیب اٹھ کر اپنے ہاتھوں بدل ڈالے دکھ ، تکلیف، اور غربت کو عارضی طور پر ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس بیماری کی طرح ہے جس کا علاج ناممکن نہیں آپ کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ علاج کے بغیر اس صورتحال سے آپ نکل بھی نہیں سکتے ۔
غریب پیدا ہونا جرم نہیں بلکہ غریب مرنا جرم ہے جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ سب سے بڑی بدی اور سب سے گھناؤنا جرم افلاس ہے اس لیے اٹھو اور میرے ملک کے غریبوں کو جگا دو اور بتا دو یہ ذلت ، فاقے ، بیماریاں اور گالیاں ان کا نصیب نہیں یہ دھتکار، یہ آلام ، یہ آنسو ، یہ روز ماتم ، یہ آہیں یہ صدائیں ان کی قسمت نہیں ۔ میرا عقیدہ اور ایمان ہے کہ یہ دکھ ، غربت ، خدا نے ہمیں نہیں دی بلکہ ان خونی ہاتھوں نے دی ہیں جو امیر کہلاتے ہیں ۔
ہم آج ایک ایسے پاکستان میں سانس لے رہے ہیں جہاں روز بچے بھوک سے مر رہے ہیں ،ہزاروں ہاتھ ایک وقت کی روٹی کے لیے دعا کے لیے اٹھ رہے ہیں جہاں زندگی بلک اور سسک رہی ہے جہاں موت زندگی کی لاش پر رقصاں ہے جہاں امیدوں اور خواہشوں کو پیروں تلے روندا جا رہا ہے جہاں ذلتوں کا راج ہے جہاں ہر شام شام غریباں ہے۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے بھوک گداگری سکھاتی ہے بھوک جرائم کو ترغیب دیتی ہے بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے بھوک انتہاپسندی کا سبق دیتی ہے اس کا حملہ بہت شدید اس کا وار بہت بھر پور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے ۔
شیلے کی نظم Ozymandias کی مانند دنیا کی ہر شے پیغام دے رہی ہے کہ ہر شے کو فنا ہوجانا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اشیاء ، روپے پیسوں، ہیرے جواہرات ، زر اور زمین کی خاطر کیوں بھیڑیے بن جاتے ہیں۔ ہمارا موجودہ معاشرتی نظام شر پر مبنی ہے اس میں کروڑوں لوگ اتھاہ جہالت اور رسوا کن افلاس میں مبتلا ہیں جب کہ گنتی کے چند امرا اور جاگیردار ہوس نا کی اور کام جوئی کی شرمناک زندگی گذار رہے ہیں ۔
کمال اتا ترک نے کہا تھا ''جو مذہبی علماء ، مفکر اور فلسفی افلاس کو بڑی شرافت قرار دیتے ہیں انھوں نے ہمارے عزیز وطن کو زندان اور دوزخ بنا دیاہے حالانکہ وطن عزیز کا حق ہے کہ اسے اس کے نونہالوں کے لیے دوزخ نہیں بلکہ جنت بنائے ۔'' مارکس کہتاہے کہ اس کے خیال میں مذہب کے باعث عوام جنت کے تصور میں مست اور مگن رہتے ہیں اور اس زندگی کو عارضی اورحقیر جان کر اپنے حقوق کی پاسبانی سے غافل ہوجاتے ہیں روز مر ہ کے آلا م و مصائب ، محرومی اور افلاس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے عملی کوشش کرنے کے بجائے وہ اس تخیلاتی دنیا میں پناہ لیتے ہیں جو مذہب نے ان کے لیے بسا رکھی ہے جب کہ میلیر کہا کرتا تھا کہ پروہتوں اور پادریوں نے ایک طویل عرصے سے عوام کی نگاہیں آسمان پر مرکوز کررکھی ہیں۔
اب ان نگا ہوں کو زمین کی طرف واپس لوٹ آنا چاہے اور نیاز فتح پوری نے کیا خوب کہا تھا کہ اس وقت دنیا کے سامنے اہم ترین فکر یہ نہیں ہے کہ انسان گناہوں سے کس طرح باز رہے بلکہ یہ ہے کہ تمدنی اورمعاشرتی نظام میں کون سی ایسی تبدیلی پیدا کی جائے کہ انسان بھوکا نہ مرے ۔ معاشی انصاف سب سے بڑا اخلاقی نصب العین ہے جس معاشرے میں ہر شخص کو اس کی ضروریات اس کی صلاحیتوں کے مطابق آسانی سے پوری ہو رہی ہوں جسے اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کے متعلق کوئی فکر یا خدشہ نہ ہو اس میں خود بخود اجتماعی احساس پیدا ہو جاتا ہے جو بدی کے محرکات کا خاتمہ کر دیتاہے ۔
ایسے معاشرے کے افراد کو وعظ ونصیحت کی ضرورت نہیں رہتی دوسر ی طرف جو شخص افلاس اور زیادتی کا شکار ہو جس کی ابتدا ئی ضروریات پوری نہ ہو رہی ہوں جسے اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے مستقبل کا غم کھائے جا رہاہو اسے وعظ و نصیحت یا توکل وقناعت کا در س بدی کے ارتکاب سے باز نہیں رکھ سکتا ۔ غریبوں کے لیے صبر کر کے اور مطمئن ہوکے بیٹھے رہنا خود کشی کے مترادف ہے اس لیے اٹھو اپنے لیے اپنی بیوی بچوں کے لیے اپنے نصیب و مقدربدلنے کے لیے ۔ ایک بار پھر یاد رہے کہ یہ غربت و افلاس دکھ و آلم خدا نے تمہیں نہیں دیے ہیں ۔