سوسی سندھ کی قدیم دست کاری

سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا بھی ہے جو کپاس اور ریشم کے دھاگے کی ملاوٹ سے تیار کیا جاتا ہے


Nasreen Akhter November 23, 2014
انگریزی کے عظیم شاعر ملٹن نے بھی اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا ہے جن میں ملٹن نے سنڈن کا ذکر جالی کے طور پر کیا ہے۔ فوٹو: فائل

وادیٔ سندھ میں قدیم زمانے سے لے کر آج تک ایسی کار آمد اشیا تیار ہوتی رہی ہیں جو نہ صرف قدیم قبائلی اور زرعی سماج میں بڑی اہمیت کی حامل تھیں بلکہ آج کے جدید اور صنعتی دور میں بھی ان کی اہمیت و افادیت، خوب صورتی اور دل کشی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور اس بات پر دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ سندھ کے باشندے انسانی سماج کی تشکیل کے دور سے ہی بڑے ہنر مند رہے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزیں اقوام عالم میں بڑی پذیرائی حاصل کرتی رہی ہیں۔

سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا بھی ہے جو کپاس اور ریشم کے دھاگے کی ملاوٹ سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں ''چرخے'' کا استعمال ہوتا ہے اور اس چرخے کو سندھ اور پنجاب کے صوفی شعرا شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، سچل سرمستؒ، بابا بلھے شاہؒ اور فرید شکر گنجؒ نے اپنے کلام میں بڑی خوب صورتی سے اور کتنے ہی مفاہیم میں استعمال کیا ہے۔

چرخے پر تیار کی جانے والی سوسی بے حد آرام دہ، سادہ اور خوب صورت ہوتی ہے۔ سوسی بالخصوص سندھ کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا پسندیدہ لباس رہا ہے۔ شہر کی خوش حال طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فیشن یا اپنی دل کشی کی علامت کے طور پر سوسی پہنتی تھیں لیکن آج یہ خوب صورت اور تاریخی کپڑا نہ صرف دیہی سندھ بلکہ شہر کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی بڑے شوق سے پہنتی ہیں۔ پہلے خواتین صرف سوسی کی شلوار پہنتی تھیں لیکن اب پورا سوٹ ہی سوسی کا بنایا جاتا ہے۔ سوسی کے اسکرٹس بھی بنائے جاتے ہیں جو مغربی اور مشرقی ممالک کی خواتین میں کافی پسند کیے جاتے ہیں۔

تاریخ کی کتب سے پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے سندھ میں کپڑا تیار ہوا اور اس کی تیاری میں سندھ کے ہنرمندوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ وادیٔ سندھ میں تقریباً پانچ ہزار سال قبل موہن جو داڑو کی تہذیب نے کپاس کی کاشت اور اس کے ریشے سے دھاگے بنانے کے فن کا آغاز کیا۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس وقت دوسری اقوام کھالوں سے سترپوشی کرتی تھیں اس وقت وادی سندھ کے زرخیز کھیتوں میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول ستاروں کی طرح جگمگایا کرتے تھے۔

دوسری اقوام کے افراد درختوں کی چھال اور پتے پروکر کمر سے باندھتے تھے۔ اس وقت موہن جوداڑو کے ہر آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے پہیے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں، حتیٰ کہ جب مصر میں کوئی فرعون مرتا تھا تو اس کو کفن بھی سندھ کی بنی ہوئی ململ کے کپڑے کا دیا جاتا تھا۔



قدیم تہذیب موہن جو داڑو کے عہد میں پوری دنیا میں سوتی ملبوسات، کپاس، کپاس کے بیج یا کپاس کے ریشے سے بنائی جانے والی ہر چیز کے کاروبار پر سندھ کے لوگوں کی اجارہ داری تھی اور پوری دنیا کو سوتی ملبوسات، کپاس کے بیج یا سوتی دھاگا فقط سندھ سے سپلائی کیا جاتا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس دور میں کھالوں اور پٹ سن سے تیار کردہ لباس پہنا جاتا تھا۔

تب کپاس سے تیار کردہ پیراہن کی نرمی اور لطافت دیکھ کر میسوپوٹیمیا کے باسیوں نے وادیٔ سندھ کے باسیوں سے اس جنس کے بیج فراہم کرنے کی استدعا کی جس میں ریشے سے یہ ملائم کپڑا تیار کیا جاتا تھا اور وادیٔ سندھ کے باشندوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے انھیں یہ بیج فراہم کردیے۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار میسوپوٹیمیا کے اکثر باشندوں کے جسموں نے کھال اور پٹ سن سے بنے ہوئے کھردرے لباس کے بجائے کپاس سے بنے ہوئے پیراہن کے لطیف لمس کو محسوس کیا۔

اسی طرح جب سکندراعظم کی سالاری میں یونانی سندھ میں آئے تو وہ کپاس کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ مشہور یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے اپنی تحریروں میں کپاس کا ذکر بڑی حیرت سے کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے،''سندھ میں ایک ایسا پودا پیدا ہوتا ہے جس میں چاندی جیسے سفید پھول کھلتے ہیں۔'' یونانی زعما کے ایک اور گروہ نے کپاس کو درختوں پر اگنے والی اون سمجھا۔ اس وقت سندھ کی کپاس سے بنی مصنوعات صرف میسوپوٹیمیا تک محدود نہ تھیں بل کہ مصر اور شام میں بھی ہاتھوں ہاتھ اور فخریہ انداز میں خریدی جاتی تھیں۔

اس بات کی گواہی تاریخ اور آثار قدیمہ کے ایک معتبر ماہر پروفیسر ایچ جی رابنسن کی کتاب میں ملتی ہے۔ ان کے مطابق، سیریا (شام) کے ایک حاکم اسد بنی پال (جس کا دور اقتدار 668 قبل مسیح بتایا جاتا ہے) کے زمانے کے نوشتوں میں سندھ کا نام سندھ کے علاقے سے آنے والے کپاس کے نام کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ علاوہ ازیں آثار قدیمہ کے ایک اور عالم پروفیسر لنسن کے بقول مصر میں کفن کے طور پر سندھ کی بنی ہوئی ململ استعمال کی جاتی تھی۔



شہادتوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قدیم بولونیا (بابل) کے باشندے کپاس کو سندھو کے نام سے پہچانتے تھے، کیوں کہ وہ آتی ہی سندھ سے تھی۔ زمانۂ قدیم میں لاڑ کے علاقے میں پاتال یا پاتل نامی ایک مشہور بندرگاہ واقع تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بندرگاہ اس جگہ واقع تھی جہاں دریائے سندھ دو حصوں میں منقسم ہوکر سمندر میں جا گرتا ہے۔ یہ بندرگاہ نہایت قدیم تھی اور سکندراعظم کے وقت تک قائم تھی کیوں کہ یونانی تاریخ نویسوں نے اپنی تحریروں میں اس بندرگاہ کا ذکر کیا ہے۔

میجر جنرل ہیگ نے اپنی کتاب ''انڈس ڈیلٹا کنٹری'' میں تحریر کیا ہے،''حضرت سلیمان ؑ کے وقت میں بھی کشتیاں اور جہاز دریا کے سمندر میں گرنے کی جگہ (پاتال بندرگاہ) پر آکر لنگر انداز ہوتے تھے۔ اسی دور میں ایران اور بولونیا کے تاجروں کے ذریعے قدیم یہودیوں نے سندھی سوتی مصنوعات اور دوسری اشیا کی تعریف سن کر ان سے تجارتی تعلقات استوار کیے اور انہی تعلقات کی وجہ سے سندھ کے نام کو عیسائیوں کی مذہبی اور الہامی کتاب انجیل کی سطور میں درج ہونے کا شرف حاصل ہوا۔''

یوں دنیا کی یہ قدیم تہذیبیں اور قومیں مثلاً میسوپوٹیمیا، مصر اور شام وغیرہ تو صدیوں سے سندھ کی سوتی مصنوعات سے استفادہ کرتی چلی آرہی تھیں لیکن مغرب اور یونانیوں کو کپاس، سوتی دھاگے، سوتی کپڑے وغیرہ کا پتا اس وقت چلا جب سکندراعظم کی فوج کے سپاہی سندھ سے واپسی پر سندھ کی سوتی مصنوعات اپنے ساتھ بطور سوغات لے گئے۔

یہ کپڑے وغیرہ اس قدر باریک، نرم و ملائم تھے کہ ایک مغربی محقق ڈاکٹر جیمس اے بی شیر نے اپنی کتاب ''کاٹن ایزورلڈ پاور'' میں ان کو صبا سے بُنے گئے جالوں سے تعبیر کیا ہے۔ یونان اور مغربی دنیا میں اس کپڑے کو ''سنڈن'' کہا جاتا تھا جو سندھ سے مشتق ہے۔ سندھ کے اس کپڑے نے اپنی نرمی اور لطافت کی وجہ سے مغربی شعر و ادب میں بھی اپنی جگہ بنائی اور عظیم انگریز مصنفوں نے اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کرکے سندھ کے نام کو امر کردیا۔



انگریزی کے عظیم شاعر ملٹن نے بھی اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا ہے جن میں ملٹن نے سنڈن کا ذکر جالی کے طور پر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کپڑے کے باریک ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال جالی کے طور پر کیا جاتا ہو اور اسی وجہ سے ملٹن نے اس کا ذکر جالی کے طور پر کیا ہے۔

سندھ کی بنی ہوئی سوتی مصنوعات میں سے دوسری چیز جس نے مغربی شعر و ادب میں جگہ بنائی اس کا نام ''سنڈل'' ہے جس کے معنی ہیں ''بٹا ہوا دھاگہ'' اس زمانے میں سنڈل سے رسے بنائے جاتے ہوں گے، جن سے بڑے بڑے جہازوں اور بجروں کو باندھا جاتا ہوگا، جن کے بادبان ریشم کے بنے ہوتے تھے۔ یہ ہے سندھ میں تیار ہونے والے کپڑے کا پس منظر اور تاریخ، ململ کے باریک اور نرم کپڑے سے لے کر قدرے موٹا مگر ہلکا پھلکا کپڑا سوسی سندھ کی قدیم دست کاری ہے، ململ بھی چرخوں اور تکلوں سے بنائی جاتی تھی اور سوسی بھی چرخوں اور دور حاضر میں کھڈی میں بنائی جاتی ہے۔

ململ کا کپڑا گرمیوں کے دنوں میں بہترین تصور کیا جاتا ہے، لیکن سوسی کے کپڑے میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اسے ہر موسم میں پہنا جاسکتا ہے، یہ سردیوں میں حرارت اور گرمیوں میں ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے۔ پھر اس پر ہر طرح کی ڈیزائننگ بھی آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ سوسی کی پسندیدگی اور خوب صورتی کا راز اس کے کلر کامبی نیشن میں پنہاں ہے۔ یہ کپڑا ملائم ہے اور ہر موسم میں پہنا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں سوسی بازار میں نظر آنے والا کپڑا ہے۔

سوسی خاص طور پر نصر پور، ہالا اور تھرپارکر میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی مانگ پورے ملک میں ہے، بل کہ بیرون ملک بھی ہے۔ سندھ ہنرمندوں کی سرزمین ہے، جن کا ہنر خود بولتا ہے۔ چرخوں اور کھڈیوں میں تیار کردہ ململ اور سوسی سندھ کی ایک ایسی دست کاری ہے جس پر اہل سندھ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ ململ اور سوسی سندھ کا خوب صورت تاریخی کپڑا ہے اور قدیم دست کاری کا ثبوت بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں