شہرت کے طلبگار 2 امریکیوں کا اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کا دعویٰ

القاعدہ رہنما اور ایک زمانے میں دنیا کی مطلوب ترین شخصیت کو ہلاک کرنے کے متضاد ورژن سامنے آ گئے


سید عاصم محمود November 23, 2014
القاعدہ رہنما اور ایک زمانے میں دنیا کی مطلوب ترین شخصیت کو ہلاک کرنے کے متضاد ورژن سامنے آ گئے…چشم کشا رپورٹ۔ فوٹو: فائل

یہ 2مئی 2011 ء کی تاریک رات تھی جب دو ہیلی کاپٹروں پہ سوار دو درجن امریکی کمانڈوز المعروف بہ نیوی سیلز ایبٹ آباد کے مضافات میں اترے۔ان کی منزل بقول امریکیوں کے بیسویں صدی میں ''دہشت گردوں''کی سب سے بڑی تنظیم،القاعدہ کے بانی،اسامہ بن لادن کا گھر تھا۔کمانڈوز نے اسامہ کو گولیوں سے چھلنی کیا،لاش اپنے طیارہ بردار جہاز میں لے گئے اور وہاں کسی نامعلوم مقام پہ سمندر برد کر دی۔

بیشتر مسلمانوں کے نزدیک اسامہ ایک عظیم مجاہد تھے جو مغربی استعمار کے خلاف کھڑے ہوئے مگر دنیائے مغرب میں انھیں دہشت گرد اور قاتل سمجھا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اب بھی ان کی شخصیت سربستہ راز ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کسی بیماری کے ہاتھوں وہ 2002ء میں چل بسے تھے۔

اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ ہی رہائش پذیر تھے تو وہاں ان کی زندگی ماضی سے بالکل مختلف تھی۔ اب وہ اہل خانہ کے ساتھ خاموش عائلی زندگی گزار رہے تھے۔ انھیں کسی حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ اسی لیے گھر میں سرنگ تھی نہ فرار کا کوئی راستہ!حتی کے گھر میں اسلحہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ بہرحال اسامہ کی موت پہ امریکیوں نے خوشی کے شادیانے بجائے۔

عجیب بات یہ کہ اسامہ مر کر بھی ان کی سائیکی پہ سوار ہیں۔ اس کا ثبوت پچھلے دنوں سامنے آیا۔ ہوا یہ کہ 2 نیوی سیلز نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا انوکھا دعوی کر ڈالا ۔امریکی عوام حیران پریشان ہو گئے کہ کس پہ اعتبار کیا جائے کہ دونوں امریکی فوج کے ایک ایلیٹ دستے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ لوگوں پہ آشکارا ہوا کہ دونوں کمانڈوز اپنے دعوی کے ذریعے شہرت و دولت پانے کے متمنی ہیں۔ گویا معاملہ ازل سے انسان کے ساتھ لگے لالچ و ہوس کا نکلا۔

اسامہ کی ہلاکت کو پہلی بار مشہور امریکی صحافی' مارک بوڈن نے اپنی کتاب ''دئ فنش''(The Finish: The Killing of Osama Bin Laden) میں تفصیل سے بیان کیا۔ یہ کتاب جون 2013ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مواد امریکی فوجیوں و جرنیلوں سے انٹرویو کر کے حاصل کیا گیا۔ اس میں درج ہے: ''تینوں کمانڈو ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ تب اسامہ زندہ اور وہاں استادہ تھا۔ کمرے میں دو خواتین بھی تھیں۔ سب سے پہلا کمانڈو یا ''پوائنٹ مین'' ان خواتین پر جا پڑاپھر انہیں ایک طرف لے گیا۔ تب دروازے پر کھڑے دوسرے کمانڈو نے پہلی گولی اسامہ کے سینے اور دوسری سر پر مار کر اسے ہلاک کر دیا۔''

اگست 2013ء میں اس تاریخی واقعے کا نیا ورژن سامنے آیا۔ تب ان تین کمانڈوز میں سے ایک' مارک بیسونیٹی (Mark Bissonnette)مارک اوون کے قلمی نام سے اپنی کتاب'' نوایزی ڈے'' لکھنے میں مصروف تھا۔ اس نے کتاب کی تشہیری مہم کے سلسلے میں مختلف انٹرویو دیئے۔ کتاب ستمبر2013ء میں شائع ہوئی۔ درج بالا کتاب میں لکھا ہے:جب ہم تین تیسری منزل پر پہنچے' تو ابھی سیڑھیوں پر ہی تھے کہ دیکھا' ایک کمرے سے کسی مرد کا چہرہ جھانک رہا ہے۔

پوائنٹ مین نے اس پر گولیاں چلا دیں۔ چہرہ اندر ہوگیا۔ جب ہم کمرے میں پہنچے' تو د یکھا کہ وہ آدمی زمین پر گرا پڑا ہے۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ گویا پوائنٹ کی گولیاں اسے جا لگی تھیں۔کمرے میں دو عورتیں موجود تھیں۔ پوائنٹ مین انہیں گھسیٹ کر ایک طرف لے گیا کیونکہ اسامہ اب خطرہ نہیں رہا تھا۔ تب مجھ سمیت میرے ساتھی نے دم توڑتے اسامہ کے بدن میں مزید سیسہ اتار دیا۔ بعدازاں ہمیں احساس ہوا کہ مرنے والا اسامہ سے ملتا جلتا شخص تھا۔''

اس واقعے کا تیسرا ورژن پچھلے دنوں سامنے آیا۔ اب کمانڈوز کی تکڑی کا دوسرا رکن' رابرٹ اونیل بول پڑا۔ اس نے امریکی میڈیا کو کئی انٹرویو دے کر اپنا ورژن پیش کیا جو کچھ یوں ہے:''جب ہم تیسری منزل کی طرف بڑھے' تو پوائنٹ مین میرے آگے تھا۔ تب اس نے ایک کمرے سے کسی مرد کا جھانکتا چہرہ دیکھا۔ پوائنٹ مین نے گولیاں چلا دیں مگر وہ ضائع گئیں۔ جب ہم کمرے کے دروازے پر پہنچے' تو وہاں دو خواتین کھڑی تھیں۔

پوائنٹ مین ان پر جا پڑا تاکہ انہوںنے خودکش دھماکے والی جیکٹیں پہن رکھی ہیں تو وہ پھٹ جائیں۔(گویا پوائنٹ مین اپنی جان دے کر اپنے ساتھیوں کی جانیں بچانا چاہتا تھا)۔میں اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔ تب میں نے اسامہ کو کھڑے پایا۔ اس کی آنکھوں میں خوف جھلک رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی AK-47 رائفل تک پہنچتا' میں نے اس کے سر میں دو گولیاں دے ماریں۔ اسامہ کا سر کھل گیا۔''



گویا رابرٹ اونیل کی رو سے کمرے میں صرف دو امریکی کمانڈو داخل ہوئے: ایک پوائنٹ مین اور دوسرا وہ خود۔ اس ورژن میں تیسرا کمانڈو یا مارک بیسونیٹی غیر حاضر ہے۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے وابستہ یہ تنازع معمولی بات نہیں۔ لاکھوں مسلمان انھیں استعماری طاقتوں کے خلاف جہاد کا سرخیل سمجھتے ہیں۔ دوسری سمت بعض مسلم دانش وروں کا دعویٰ ہے کہ استعماری طاقتوں نے اسلام کو بدنام کرنے اور آزادی کی تحریکیں ختم کرانے کے لیے انہیں بطور مہرہ استعمال کیا۔ حقیقت جو بھی ہو'اسامہ کی موت سے متعلق مختلف ورژنوں کا سامنے آنا چند پہلو اجاگر کرتا ہے۔

پہلا پہلو یہ کہ اسامہ بن لادن امریکی حکومت و عوام' دونوں کے لیے سب سے اہم مطلوب ترین شخصیت تھے۔ چنانچہ جس نیوی سیل نے اسے ہلاک کیا' وہ امریکا میں ہیرو بن جائے گا۔ اسے عزت ہی نہیں شہرت و دولت بھی ملے گی۔ خود امریکا میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ شہرت و دولت کے لالچ میں آ کر ہی دونوں سیل اسامہ کو ہلاک کرنے کا سہرا اپنے سر بندھوانا چاہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ لالچ و ہوس کی اس لڑائی نے نہ صرف امریکی کمانڈوز بلکہ امریکی تہذیب وتمدن کو دنیا بھر میں رسوا کر دیا۔ مادہ پرستی کے جال میں پھنسا امریکی معاشرہ پہلے ہی تنقید اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ یہ نیا ڈرامہ امریکیوں کی بڑھتی ہوس زر نمایاں کر گیا۔ گاندھی جی کا قول ہے:'' زمین پر انسان کی ضرورت کا ہر سامان موجود ہے' لیکن لالچ کوئی حد نہیں رکھتا۔''

اس ڈرامے میں حسد بھی کارفرما ہوا۔ اسامہ کی موت کے بعد ساری تعریف و توصیف امریکی صدر کے حصے میں آئی۔ کیونکہ ظاہر ہے' تب مہم میں شامل کمانڈو گمنام تھے۔ یہی نہیں' عسکری قانون و روایات کی رو سے انہیں اس خفیہ مہم سے متعلق ہر بات اپنے تک ہی محدود رکھنی تھی۔مگر مارک بیسونیٹی کو یہ دیکھ کر تاؤ آیا کہ دوران مہم تو اس سمیت دیگر کمانڈوز نے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں' جبکہ ''واہ واہ'' امریکی حکومت کی ہوئی۔

اسی دوران دوستوں سے گفت و شنید کے بعد اسے خیال آیا' اگر وہ واقعے سے متعلق اپنی یادداشتیں لکھ ڈالے تو اسے صرف عزت ہی نہیں شہرت و دولت بھی نصیب ہو سکتی ہے۔چناں چہ مارک نے فوج کی ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ سکون سے کتاب لکھ سکے۔ستمبر2011ء میں مارک بوڈن اپنی کتاب (دی فنش) کے سلسلے میں مارک بیسونیٹی سے ملا۔ مارک نے مہمان سے پوچھا کہ اس کی کتاب کب مارکیٹ میں آئے گی؟ بوڈن کو یہ سوال کچھ عجیب سا لگا ۔بعدازاں اس پر سوال کی حقیقت منکشف ہوئی...وہ کہ مارک اپنی کتاب اس سے پہلے لانا چاہتا تھا۔

جلد از جلداپنی کتاب مارکیٹ میں لانے کے لیے مارک بیسونیٹی نے قبل از اشاعت اس کا ایک نسخہ اپنے محکمہ دفاع (پینٹا گون) کو نہیں بھجوایا۔ وجہ یہ کہ کتاب کا جائزہ لیتے محکمے کے افسر کئی ماہ لگا دیتے ہیں۔ یاد رہے' امریکا میں کوئی بھی حاضر یا ریٹائرڈ فوجی کوئی کتاب لکھے' تو قبل از اشاعت وہ اسے اپنے محکمہ دفاع کو بھجواتا ہے۔ مقصد یہ کہ اگر کتاب میں کوئی قابل اعتراض یا قومی سلامتی سے متعلق حساس مواد موجود ہے تو اسے ہٹایا جا سکے۔چنانچہ مارک نے پینٹا گون کو دکھائے بغیر اپنی کتاب شائع کرا دی ۔اس میں نیوی سیلز کے متعلق خاصی معلومات موجود ہیں جو امریکی افواج کی خصوصی کمانڈو فورس ہے۔



امریکی حکومت اس فورس سے متعلق معلومات چھپاتی ہے تاکہ دشمن نیوی سیلز کے بارے میں زیادہ نہ جان سکیں۔ مگر مارک نے اپنی کتاب میں تفصیل سے بتایا کہ کمانڈو کیونکر تربیت پاتے ہیں اور اس فورس کے کیا اصول و روایات ہیں۔چناں چہ پینٹاگون اس کتاب کی اشاعت پر بہت برافروختہ ہوا۔ اب وہ مارک پر مقدمہ چلانے کا سوچ رہا ہے۔ دوسری طرف حاضر نیوی سیلز بھی کتاب پڑھ کر ناراض ہوئے۔ انہوں نے مارک کو غدار قرار دیا اور اس سے کنی کترانے لگے۔ یوں آج مارک امریکی معاشرے میں بہت سے لوگوں کے لیے ناپسندیدہ شخص بن چکا۔گو اس نے کتاب کی فروخت سے کروڑوں روپے کمالیے۔

اسامہ بن لادن پہ گولیاں چلانے والا دوسرا امریکی کمانڈو، رابرٹ اونیل تو مارک سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا۔ اس کا یونٹ امریکا میں جہاں بھی تعینات ہوتا، رابرٹ شراب خانوں میں نشے سے چور ہوکر شیخی مارنے لگتا: ''اسامہ کو میں نے قتل کیا ہے۔'' شراب خانے میں بیٹھے لوگ یہ سن کر حیران رہ جاتے۔

جب اعلیٰ فوجی افسروں کو یہ خبر ملی کہ بڑبولا اونیل شراب خانوں میں شیخیاں مارتا پھرتا ہے تو اسے تنبیہ کی گئی کہ اپنی زبان بند رکھو۔ مگر اونیل دوسروں پر اپنی اہمیت جتا کر لذت محسوس کرتا تھا۔ چنانچہ جب بھی نشے میں آتا، ڈینگیں مارنے لگتا :''میں نے اسامہ بن لادن کو گولیاں ماریں، اسے بھاگنے کا موقع نہیں دیا، وہ مجھے دیکھتے ہی دیکھتے تھر تھر کانپنے لگا۔''

آخر نیوی سیلز کی ہائی کمان نے شہرت کے بھوکے رابرٹ اونیل کو نکال باہر کیا ۔چونکہ کمانڈو کو بیس سالہ ملازمت کے بعد پنشن ملتی ہے اور اس کے ابھی چار سال باقی تھے۔ لہٰذا رابرٹ اپنی پنشن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔رابرٹ اونیل پھر جوش و جذبہ بڑھانے والے (Motivation) لیکچر دے کر اپنے اخراجات پورے کرنے لگا۔ پھر شاید اسے خود خیال آیا کہ اسامہ بن لادن کی موت کی داستان کو ''کیش کرائو''، سو اس نے امریکی میڈیا سے رابطہ کرلیا۔امریکی میڈیا تو سنسنی خیز خبروں کی تلاش میں رہتا ہے۔ لہٰذا اس نے رابرٹ اونیل کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اونیل نے بھی اسامہ پر حملے کی کہانی خوب نمک مرچ لگا کر سنائی اور اپنے آپ کو بہادر ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا، جیسے وہ گولیاں نہ مارتا تو اسامہ زندہ بچ نکلتے۔موصوف بھی انٹرویو دے کر کروڑوں روپے کما چکے۔

حقیقت میں دیگر نیوی سیلز نے اونیل کی داستان کو ''کوڑا'' قرار دیا۔ وجہ یہی کہ اس نے جھوٹ بول کر خود کو اسامہ کا قاتل قرار دے ڈالا۔ جبکہ مارک اپنی کتاب میں رقم طراز ہے کہ پوائنٹ مین کی گولیوں نے اسامہ کو نیم مردہ کردیا تھا۔

گویا پوائنٹ مین یا حملے میں شریک تیسرا امریکی کمانڈو ہی یہ بات صاف کرسکتا ہے کہ اسامہ سب سے پہلے کس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ تاہم یہ تیسرا نیوی سیل شیخی خورا نہیں اور نہ ہی شہرت ودولت کا بھوکا !اس کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کارنامے کی تفصیل بیان نہیں کرنا چاہتا۔ تیسرا کمانڈو ابھی ملازمت میں ہے۔ شاید ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس کی جانب سے سچائی سامنے آجائے۔ تب تک یہ امر معّمہ ہی رہے گا کہ اسامہ بن لادن کس امریکی نیوی سیل کی گولیوں کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔

امریکا کے نیوی سیلز

امریکی بحریہ کی یہ کمانڈو فورس سرکاری طور پہ ''یونائیٹڈ سٹیس نیوی سیلز'' کہلاتی ہے۔ تقریباً تین ہزار کمانڈو اس فورس کا حصہ ہیں۔ یہ فورس بحر کے علاوہ خشکی اور فضا میں بھی خطرناک مہمات انجام دیتی ہے۔ کمانڈوز کو دشوار گزار مراحل طے کرنے اور دشمن سے لڑنے کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔

نیوی سیلز میں داخل ہونے والا ہر کمانڈو یہ حلف اٹھاتا ہے: ''میں اپنے کام کی کبھی تشہیر نہیں کروں گا۔ اور نہ ہی اس بنیاد پر کارنامے انجام دوں گا کہ شہرت حاصل کرسکوں۔'' مگر مارک بیسونیٹی اور رابرٹ اونیل کی سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ اس حلف کی خلاف ورزی کرچکے ۔

اسامہ بن لادن پر حملے سے قبل امریکا میں نیوی سیلز کو بہت عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا ۔لیکن اب دو نیوی سیلز کی باہمی جنگ نے اس ادارے کو نقصان پہنچا دیا۔ وجہ یہی کہ دونوں ذاتی مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں۔پچھلے چند برس کے دوران کئی اعلیٰ امریکی فوجی افسر کرپشن اور جنسی سرگرمیوں میں پائے گئے۔ ان کی وجہ سے امریکی افواج کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔ اب امریکی کمانڈوز کی لڑائی نے اس ادارے کو مزید ضعف پہنچایا۔ امریکی حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ جنگ و جدل پر مبنی ان کی سوچ معاشرے میں کسی قسم کے منفی اثرات پیدا کردی ہے.

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں