بات کچھ اِدھر اُدھر کی وہ صف شکن بنیں گے پیتے رہے جو چائے
اس ’بَلانوشی‘ پر روک ٹوک سے تنگ آکر میں نےمتعدد بار ’’ترکِ چائے‘‘ کی کوشش کی،لیکن ’چُھٹی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘
سچ تو یہ ہے کہ آزمودہ سائنسی کلیے، ٹھوس اور جامع معلومات، حقائق، جدید طبی آلات اور علمی و تحقیقی میدان میں بے پناہ ترقی کے باوجود دودھ اور چائے کی افادیت اور نقصانات کی گتھی آج بھی نہیں سلجھی ہے۔ طبی ماہرین دودھ اور چائے سے متعلق تحقیق کے لئے اب تک ان میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔
چائے میرا پسندیدہ مشروب ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ میرے ذہن اور قلم کو تحریک دیتا ہے، لیکن بڑوں سے یہ سنا اور پھر پڑھا بھی کہ چائے بھوک ختم کر دیتی ہے اور جسمانی کارکردگی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ نے بھی یہی سنا اور پڑھا ہو گا۔ چائے کے نقصانات پر تحقیقی رپورٹس اور مضامین پڑھنے کے علاوہ اس 'بَلانوشی' پر روک ٹوک سے تنگ آکر میں نے متعدد بار ''ترکِ چائے'' کی کوشش کی، لیکن 'چُھٹی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔' چند دن پہلے بھی میں نے خود کو چائے سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی، مگر پھر ایک عجیب بات ہوئی!
گذشتہ ہفتے ایک پرانے دوست سے برسوں بعد ملاقات پر میں اُسے ''مشہورِ علاقہ'' ہوٹل لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک کپ چائے کا آرڈر دیا تو وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔ دراصل وہ میرے چائے پینے کے شوق سے واقف تھا۔
'' یار، چائے کی وجہ سے صحّت متأثر ہورہی ہے لہذا اب میں کم پیتا ہوں۔'' میں نے اس کی حیرت دور کرنے کے لیے کہا۔ اس پر میرے دوست نے مسکراتے ہوئے اپنے موبائل سیٹ کی اسکرین پر نظریں جما دیں۔ چند منٹ بعد میرے سامنے ایک ویب پیج پر موجود تازہ ریسرچ مجھے چائے سے متعلق اپنے برسوں پرانے خیالات سے ''تائب'' ہونے پر مجبور کر رہی تھی۔ یہ طبی جریدے ''اوسٹیوپروسس انٹرنشنل جرنل'' کی رپورٹ تھی، جس کے مطابق روزانہ دو سے تین کپ چائے ہڈیوں کے بھربھرے پن سے محفوظ رکھتی ہے اور چائے میں موجود اجزا ہڈیوں کی تشکیل کا عمل تیز بناتے ہیں۔ یہ بھی لکھا تھاکہ چائے سے صحت کے لیے نقصان دہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی دودھ کے بارے میں بھی تازہ انکشاف کیا گیا تھا، ''برٹش میڈیکل جرنل'' کی تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ زیادہ دودھ پینے سے نوجوانی میں موت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ دودھ سے ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ بھی کم نہیں کرتا بلکہ تین گلاس سے زیادہ دودھ پینا خصوصاً خواتین کی ہڈیوں کو 60 فیصد کم زور کر سکتا ہے۔
''خان صاحب! ایک کپ اور۔'' میں نے موبائل سیٹ دوست کی طرف بڑھاتے ہوئے آواز لگائی تو وہ ہنس دیا۔ اُس وقت مجھے یہ شعر یاد آیا؛
ہر مرض کی دوا ہے، ہر درد سے بچائے!
وہ صف شکن بنیں گے پیتے رہے جو چائے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
چائے میرا پسندیدہ مشروب ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ میرے ذہن اور قلم کو تحریک دیتا ہے، لیکن بڑوں سے یہ سنا اور پھر پڑھا بھی کہ چائے بھوک ختم کر دیتی ہے اور جسمانی کارکردگی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ نے بھی یہی سنا اور پڑھا ہو گا۔ چائے کے نقصانات پر تحقیقی رپورٹس اور مضامین پڑھنے کے علاوہ اس 'بَلانوشی' پر روک ٹوک سے تنگ آکر میں نے متعدد بار ''ترکِ چائے'' کی کوشش کی، لیکن 'چُھٹی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔' چند دن پہلے بھی میں نے خود کو چائے سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی، مگر پھر ایک عجیب بات ہوئی!
گذشتہ ہفتے ایک پرانے دوست سے برسوں بعد ملاقات پر میں اُسے ''مشہورِ علاقہ'' ہوٹل لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک کپ چائے کا آرڈر دیا تو وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔ دراصل وہ میرے چائے پینے کے شوق سے واقف تھا۔
'' یار، چائے کی وجہ سے صحّت متأثر ہورہی ہے لہذا اب میں کم پیتا ہوں۔'' میں نے اس کی حیرت دور کرنے کے لیے کہا۔ اس پر میرے دوست نے مسکراتے ہوئے اپنے موبائل سیٹ کی اسکرین پر نظریں جما دیں۔ چند منٹ بعد میرے سامنے ایک ویب پیج پر موجود تازہ ریسرچ مجھے چائے سے متعلق اپنے برسوں پرانے خیالات سے ''تائب'' ہونے پر مجبور کر رہی تھی۔ یہ طبی جریدے ''اوسٹیوپروسس انٹرنشنل جرنل'' کی رپورٹ تھی، جس کے مطابق روزانہ دو سے تین کپ چائے ہڈیوں کے بھربھرے پن سے محفوظ رکھتی ہے اور چائے میں موجود اجزا ہڈیوں کی تشکیل کا عمل تیز بناتے ہیں۔ یہ بھی لکھا تھاکہ چائے سے صحت کے لیے نقصان دہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی دودھ کے بارے میں بھی تازہ انکشاف کیا گیا تھا، ''برٹش میڈیکل جرنل'' کی تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ زیادہ دودھ پینے سے نوجوانی میں موت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ دودھ سے ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ بھی کم نہیں کرتا بلکہ تین گلاس سے زیادہ دودھ پینا خصوصاً خواتین کی ہڈیوں کو 60 فیصد کم زور کر سکتا ہے۔
''خان صاحب! ایک کپ اور۔'' میں نے موبائل سیٹ دوست کی طرف بڑھاتے ہوئے آواز لگائی تو وہ ہنس دیا۔ اُس وقت مجھے یہ شعر یاد آیا؛
ہر مرض کی دوا ہے، ہر درد سے بچائے!
وہ صف شکن بنیں گے پیتے رہے جو چائے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔