تاریخی شہر کے رنگ
ہزاروں سال پہلے اندرون شہر کو تیرہ دروازوں اور 30 فٹ اونچی دیوار میں محدود کر رکھا تھا۔
جب ہمارے لوگ بیرون ملک کے کسی بڑے شہر میں جاتے ہیں تو بڑی خواہش کے ساتھ اس کے Down Town جانا نہیں بھولتے لیکن ٹورسٹوں کو تو چھوڑیئے اس تاریخی شہر کے باسیوں کی اکثریت نے بھی لاہور کا ڈاؤن ٹاؤن یعنی ''اندرون شہر'' مکمل یا دلی خواہش کے تحت نہیں دیکھا ہوگا اور اگر جانا بھی پڑا تو کسی ضرورت یا مجبوری سے گئے ہوں گے۔
سچ پوچھئے تو ہمارا بھی اس ہفتہ کا وزٹ دہلی گیٹ، شاہی حمام، گلی سُرجان سنگھ، حویلی آصف شاہ، حویلی میاں سلطان، حویلی بھیج ناتھ، چٹاگیٹ، کنواں دینا ناتھ، مسجد وزیر خاں، چوک پرانی کوتوالی سے سبیل والی گلی تک کا گائیڈڈ ٹور کے تحت ہوا جو Walled city of Lahore Authority کے ڈائریکٹر جنرل کی دعوت پر تھا۔ اگرچہ میرے تعلقات اس اتھارٹی کے پہلے ڈائریکٹر جنرل ہمایوں فرشوری کے ساتھ زیادہ گہرے ہیں لیکن کامران لاشاری کی دعوت کے بعد تو ان کے لیے ہمارا لاہور جمخانہ الیکشن کا ووٹ بھی پکا ہوگیا۔ اس ٹور میں علاوہ دیگر احباب کے ڈاکٹر سمیعہ کلثوم، جبران سیٹھی، بیگم لاشاری، قاضی آفاق اور جاوید اقبال بھی شامل تھے۔
شہر لاہور کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ غزنوی اور مغلیہ دور نے اس شہر کو مسلم طرز تعمیر سے متعارف کرایا اس دور میں اندرون شہر حویلیوں، مساجد، اور مسافر خانوں سے سج گیا تھا اور یہ عمارات مغلوں کی اسلامی فن تعمیر سے محبت کی آئینہ دار تھیں لیکن ان عمارات کو سکھوں اور انگریزوں نے اپنی اپنی ترجیحات کے مدنظر بہت نقصان پہنچایا، پاکستان بننے کے بعد بھی یہ علاقہ ریشہ دوانیوں اور عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔
اس علاقہ کی ترقی کا منصوبہ بظاہر آثار قدیمہ کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد اس علاقہ کے مکینوں کو جدید دور کی سہولیات یعنی گیس، بجلی و نکاسی آب کی فراہمی بھی ہے تاکہ ان کی زندگی کو بہتر بنایا جاسکے اور اس علاقہ کے مکینوں اور سیاحوں کے لیے پرکشش بناکر اس کے ثقافتی ورثہ کو معاشی و معاشرتی ترقی کے استعمال میں بھی لایا جاسکے۔
دہلی گیٹ تا کوتوالی چوک کا راستہ تاریخی گزرگاہ کہلاتا ہے۔ اس علاقے میں مرمت و بحالی کے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس علاقہ میں سیوریج کا نظام جابجا توڑ پھوڑ اور خستہ حالی کا شکار ہے جس کے باعث گلیوں، محلوں میں گندگی اور تعفن زدہ ماحول عام بات ہے، پانی کے پائپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور کئی جگہ پر سیوریج کا پانی اس میں شامل ہوکر مہلک بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ بجلی کی تاریں گچھوں کی صورت میں لٹکی اور الجھی ہوئی ہیں۔ اندرون لاہور کی بحالی کے کام میں یہ ادارہ ان تمام خرابیوں کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ اندرون شہر لاہور کے تاریخی ورثے کو بچانے کے لیے پنجاب گورنمنٹ نے آغا خان ٹرسٹ فارکلچر کے ساتھ ایک شراکتی معاہدہ پر 2007ء میں دستخط کیے جس کی رو سے مرمت و بحالی کا کام تجربہ کار ٹرسٹ تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔
پنجاب گورنمنٹ اور آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے اندرون شہر منصوبہ کو مکمل پائیدار اور نقائص سے پاک بنانے کے لیے سارے سروے اور اسٹڈیز مکمل کرلی ہیں۔ اس پلان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ماڈل کے طور پر آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے گلی سورجن سنگھ اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آف والڈ سٹی لاہور نے محمدی محلے کو مرمت کرنے کے بعد بحال و قابل استعمال کردیا ہے۔
اندرون شہر تجاوزات کی بھر مار تھی جس کی وجہ سے اس شہر کی خوبصورتی ماند پڑگئی تھی جب کہ گندگی نے اس میں اضافہ کر رکھا تھا۔ یہ تجاوزات قدیمی بھی تھے اور ہزاروں کی تعداد میں بھی اس لیے انھیں کوئی حکومت گرا یا ہٹا نہ سکی تھی۔ ماہرین نے اس سلسلے میں کاروباری لوگوں سے گفت و شنید کے ساتھ معاوضہ دینے کا احسن طریقہ اپنایا کہ ان تجاوزات نے ناجائز ہونے کے علاوہ علاقے اور تاریخی عمارات کا حسن گہنا دیا ہے۔
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ورلڈ بینک گائیڈ لائنز کے مطابق Resettlement Action Plan تشکیل دیا گیا۔ اس اہم کام کی تکمیل کے لیے کاروباری افراد کو معاوضہ ادا کیا گیا۔اس کام کی ابتدا کے لیے تاریخی شاہی حمام کو منتخب کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مسجد وزیر خاں کے آگے کھڑے کیے گئے تجاوزات کا باہمی رضا مندی کے ساتھ قیمتوں کا تعین کیا گیا۔ مسجد وزیر خاں کے اردگرد سب سے زیادہ تجاوزات تھیں جنھوں نے مسجد کی بے مثال خوبصورتی کو چھپایا ہی نہیں گہنا بھی رکھا تھا۔
ہزاروں سال پہلے اندرون شہر کو تیرہ دروازوں اور 30 فٹ اونچی دیوار میں محدود کر رکھا تھا۔ اندرون شہر میں متعدد ایسی تنگ گلیاں بھی ہیں جن میں دو آدمی اکٹھے نہیں چل سکتے اور ایک آدمی گلی میں چلنے کے دوران دائیں بائیں دونوں دیواروں کو بیک وقت اپنے ہاتھوں سے چھو سکتا ہے۔
اسی ہفتہ دوسری تقریب The Collectors Galleria نامی آرٹ گیلری میں تھی جہاں محمد شفیق نے اپنی 42 پینٹگز کی نمائش سجا رکھی تھی۔ بیگم احمد نواز سکھیرا یہ اہتمام مہینے میں ایک بار ضرور کرتی ہیں۔ الحمرا کلچرل کمپلیکس قذافی اسٹیڈیم میں اس نمائش کا افتتاح پروفیسر سہیل افضل نے کیا۔ اتفاق سے ان 42 پینٹنگز میں 7 مناظر تھے ان میں اکثریت تاریخی عمارات کے تھے۔ ان میں لکشمی چوک، انار کلی بازار، مقبرہ انار کلی، لاہور ہائیکورٹ، گورنمنٹ کالج، دیوان خاص، اسلامیہ کالج، مسجد وزیر خاں، بادشاہی مسجد، گوردوارہ رنجیت سنگھ، لاہور میوزیم، چوبرجی لاہور،
جہانگیر کا مقبرہ، سنہری مسجد، قلعہ لاہور، بھاٹی گیٹ، گوالمنڈی، مینار وزیر خان مسجد، عارف جہانگیر مسجد، شالیمار باغ، موتی مسجد، حضوری باغ لاہور، قلعہ نولکھا، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، فیصل مسجد اور موہڑہ شریف مزار کی پینٹنگزتھیں۔ بعض تاریخی عمارات ایک سے زیادہ مختلف زاویوں سے دکھائی گئی تھیں۔ محمد شفیق نے اپنی خوبصورت پینٹنگز کی قیمت تیس پینتیس ہزار رکھی تھی۔ نمائش جاری تھی کہ نصف کے قریب پینٹنگز شوقین حضرات نے خرید لیں۔ محمد شفیق کی پینٹنگز جس تیزی سے شائقین نے خرید لیں ان کے موضوعات اور خوبصورتی کا اعتراف تھا۔ اس ہفتے کا حسن قدیم و جدید کا نظارہ رہا۔ قدیم لاہور کو البتہ سوینئر کے ذریعے محفوظ کیا جائے تو یہ احسن قدم ہوگا۔
سچ پوچھئے تو ہمارا بھی اس ہفتہ کا وزٹ دہلی گیٹ، شاہی حمام، گلی سُرجان سنگھ، حویلی آصف شاہ، حویلی میاں سلطان، حویلی بھیج ناتھ، چٹاگیٹ، کنواں دینا ناتھ، مسجد وزیر خاں، چوک پرانی کوتوالی سے سبیل والی گلی تک کا گائیڈڈ ٹور کے تحت ہوا جو Walled city of Lahore Authority کے ڈائریکٹر جنرل کی دعوت پر تھا۔ اگرچہ میرے تعلقات اس اتھارٹی کے پہلے ڈائریکٹر جنرل ہمایوں فرشوری کے ساتھ زیادہ گہرے ہیں لیکن کامران لاشاری کی دعوت کے بعد تو ان کے لیے ہمارا لاہور جمخانہ الیکشن کا ووٹ بھی پکا ہوگیا۔ اس ٹور میں علاوہ دیگر احباب کے ڈاکٹر سمیعہ کلثوم، جبران سیٹھی، بیگم لاشاری، قاضی آفاق اور جاوید اقبال بھی شامل تھے۔
شہر لاہور کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ غزنوی اور مغلیہ دور نے اس شہر کو مسلم طرز تعمیر سے متعارف کرایا اس دور میں اندرون شہر حویلیوں، مساجد، اور مسافر خانوں سے سج گیا تھا اور یہ عمارات مغلوں کی اسلامی فن تعمیر سے محبت کی آئینہ دار تھیں لیکن ان عمارات کو سکھوں اور انگریزوں نے اپنی اپنی ترجیحات کے مدنظر بہت نقصان پہنچایا، پاکستان بننے کے بعد بھی یہ علاقہ ریشہ دوانیوں اور عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔
اس علاقہ کی ترقی کا منصوبہ بظاہر آثار قدیمہ کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد اس علاقہ کے مکینوں کو جدید دور کی سہولیات یعنی گیس، بجلی و نکاسی آب کی فراہمی بھی ہے تاکہ ان کی زندگی کو بہتر بنایا جاسکے اور اس علاقہ کے مکینوں اور سیاحوں کے لیے پرکشش بناکر اس کے ثقافتی ورثہ کو معاشی و معاشرتی ترقی کے استعمال میں بھی لایا جاسکے۔
دہلی گیٹ تا کوتوالی چوک کا راستہ تاریخی گزرگاہ کہلاتا ہے۔ اس علاقے میں مرمت و بحالی کے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس علاقہ میں سیوریج کا نظام جابجا توڑ پھوڑ اور خستہ حالی کا شکار ہے جس کے باعث گلیوں، محلوں میں گندگی اور تعفن زدہ ماحول عام بات ہے، پانی کے پائپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور کئی جگہ پر سیوریج کا پانی اس میں شامل ہوکر مہلک بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ بجلی کی تاریں گچھوں کی صورت میں لٹکی اور الجھی ہوئی ہیں۔ اندرون لاہور کی بحالی کے کام میں یہ ادارہ ان تمام خرابیوں کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ اندرون شہر لاہور کے تاریخی ورثے کو بچانے کے لیے پنجاب گورنمنٹ نے آغا خان ٹرسٹ فارکلچر کے ساتھ ایک شراکتی معاہدہ پر 2007ء میں دستخط کیے جس کی رو سے مرمت و بحالی کا کام تجربہ کار ٹرسٹ تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔
پنجاب گورنمنٹ اور آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے اندرون شہر منصوبہ کو مکمل پائیدار اور نقائص سے پاک بنانے کے لیے سارے سروے اور اسٹڈیز مکمل کرلی ہیں۔ اس پلان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ماڈل کے طور پر آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے گلی سورجن سنگھ اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آف والڈ سٹی لاہور نے محمدی محلے کو مرمت کرنے کے بعد بحال و قابل استعمال کردیا ہے۔
اندرون شہر تجاوزات کی بھر مار تھی جس کی وجہ سے اس شہر کی خوبصورتی ماند پڑگئی تھی جب کہ گندگی نے اس میں اضافہ کر رکھا تھا۔ یہ تجاوزات قدیمی بھی تھے اور ہزاروں کی تعداد میں بھی اس لیے انھیں کوئی حکومت گرا یا ہٹا نہ سکی تھی۔ ماہرین نے اس سلسلے میں کاروباری لوگوں سے گفت و شنید کے ساتھ معاوضہ دینے کا احسن طریقہ اپنایا کہ ان تجاوزات نے ناجائز ہونے کے علاوہ علاقے اور تاریخی عمارات کا حسن گہنا دیا ہے۔
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ورلڈ بینک گائیڈ لائنز کے مطابق Resettlement Action Plan تشکیل دیا گیا۔ اس اہم کام کی تکمیل کے لیے کاروباری افراد کو معاوضہ ادا کیا گیا۔اس کام کی ابتدا کے لیے تاریخی شاہی حمام کو منتخب کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مسجد وزیر خاں کے آگے کھڑے کیے گئے تجاوزات کا باہمی رضا مندی کے ساتھ قیمتوں کا تعین کیا گیا۔ مسجد وزیر خاں کے اردگرد سب سے زیادہ تجاوزات تھیں جنھوں نے مسجد کی بے مثال خوبصورتی کو چھپایا ہی نہیں گہنا بھی رکھا تھا۔
ہزاروں سال پہلے اندرون شہر کو تیرہ دروازوں اور 30 فٹ اونچی دیوار میں محدود کر رکھا تھا۔ اندرون شہر میں متعدد ایسی تنگ گلیاں بھی ہیں جن میں دو آدمی اکٹھے نہیں چل سکتے اور ایک آدمی گلی میں چلنے کے دوران دائیں بائیں دونوں دیواروں کو بیک وقت اپنے ہاتھوں سے چھو سکتا ہے۔
اسی ہفتہ دوسری تقریب The Collectors Galleria نامی آرٹ گیلری میں تھی جہاں محمد شفیق نے اپنی 42 پینٹگز کی نمائش سجا رکھی تھی۔ بیگم احمد نواز سکھیرا یہ اہتمام مہینے میں ایک بار ضرور کرتی ہیں۔ الحمرا کلچرل کمپلیکس قذافی اسٹیڈیم میں اس نمائش کا افتتاح پروفیسر سہیل افضل نے کیا۔ اتفاق سے ان 42 پینٹنگز میں 7 مناظر تھے ان میں اکثریت تاریخی عمارات کے تھے۔ ان میں لکشمی چوک، انار کلی بازار، مقبرہ انار کلی، لاہور ہائیکورٹ، گورنمنٹ کالج، دیوان خاص، اسلامیہ کالج، مسجد وزیر خاں، بادشاہی مسجد، گوردوارہ رنجیت سنگھ، لاہور میوزیم، چوبرجی لاہور،
جہانگیر کا مقبرہ، سنہری مسجد، قلعہ لاہور، بھاٹی گیٹ، گوالمنڈی، مینار وزیر خان مسجد، عارف جہانگیر مسجد، شالیمار باغ، موتی مسجد، حضوری باغ لاہور، قلعہ نولکھا، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، فیصل مسجد اور موہڑہ شریف مزار کی پینٹنگزتھیں۔ بعض تاریخی عمارات ایک سے زیادہ مختلف زاویوں سے دکھائی گئی تھیں۔ محمد شفیق نے اپنی خوبصورت پینٹنگز کی قیمت تیس پینتیس ہزار رکھی تھی۔ نمائش جاری تھی کہ نصف کے قریب پینٹنگز شوقین حضرات نے خرید لیں۔ محمد شفیق کی پینٹنگز جس تیزی سے شائقین نے خرید لیں ان کے موضوعات اور خوبصورتی کا اعتراف تھا۔ اس ہفتے کا حسن قدیم و جدید کا نظارہ رہا۔ قدیم لاہور کو البتہ سوینئر کے ذریعے محفوظ کیا جائے تو یہ احسن قدم ہوگا۔