نظام سقہ اور نظام سکہ کی نسلیں

مشک کے پیسوں سے اس نے چائے کا ہوٹل کھولا، اس مقام پر وہ موجودہ دور کے ’’نریندر دامودر نرائن مودی‘‘ کے مماثل ہوجاتا ہے

barq@email.com

انسان سے ویسے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں کیوں کہ بزرگوں نے بہت پرانے زمانے سے کہہ رکھا ہے کہ انسان غلطیوں کا پتیلا ہے، اب یہ نہ پوچھئے کہ پتیلا کیوں ہے دیگچہ یا فرائی پین وغیرہ کیوں نہیں، کیوں کہ بزرگ لوگ بزرگ ہوتے ہیں اور ''خطائے بزرگاں گرفتن خطا است'' بھی کسی بزرگ ہی نے کہا ہو گا، ہاں تو بات یہ ہو رہی تھی کہ ہم سے بھی اکثر غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن خدا ہمارے پڑھنے والوں کو سلامت رکھے اور حکومت کے سوا اور کوئی نہ چکھے یا ڈسے ... چنانچہ ہماری غلطی فوراً نہ صرف پکڑ لیتے ہیں بلکہ ہمارے منہ پر مار بھی دیتے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں ہم سے ''فحش'' تو نہیں لیکن فاش غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے ''نظام سقہ'' کو چمڑے کی کرنسی بنانے کا موجد کہا اور ساتھ ہی اس سے بھی بڑی غلطی یہ کی کہ موجودہ زمانے کے مشہور ''نظام'' کوجو بمقام پاکستان رائج ہے کو اس نظام کی اولاد قرار دیا، ہم ممنون ہیں حالانکہ ہم پاکستان توکیا کسی مقامی تنظیم کے بھی صدر نہیں ہیں لیکن پھربھی ممنون ہیں کہ جناب ڈاکٹر پروفیسر علامہ ابن بطاطہ عرف آلو صاحب نے ہماری اس غلطی کی نشاندہی کی۔ حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر تاریخ کے ایک بہت بڑے ''اسکولر'' ہیں، جغرافیے کے اسکالر ہیں لسانیات کے سیکولر ہیں۔

انھوں نے فرمایا ہے کہ ہم نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ ''سکہ '' کو ''سقہ'' سمجھ کر نظام کی ایسی کی تیسی کر دی، پرانے زمانے میں جس نظام نے چمڑے کے سکے چلائے تھے وہ بے شک ''نظام سقہ'' تھا اور ''بچہ سقہ'' اس کا کوئی پڑوڑپوتا نہیں بلکہ وہ خود ہی اپنا پڑپوتا تھا، یعنی وہ بذات خود ''سقے کا بچہ'' تھا اس لیے افغان میں پیدا ہونے والے سقے کے بچے سے اس کا کوئی بھی جائز یا ناجائز سمبندھ نہیں تھا، وہ سقے کا بچہ تو تھا لیکن خود ''سقہ'' نہیں تھا بلکہ جب اس کے باپ نے اسے اپنا ''خاندانی مشک'' اٹھا کر سقہ گیری پر لگانا چاہا تو وہ اس ''مشک'' کو ہی بیچ کر پشاور بھاگ گیا۔

مشک کے پیسوں سے اس نے چائے کا ہوٹل کھولا، اس مقام پر وہ موجودہ دور کے ''نریندر دامودر نرائن مودی'' کے مماثل ہوجاتا ہے کیوں کہ بچہ سقہ نے بھی چائے کے ہوٹل سے اسٹارٹ لیا اور حکمرانی پر جا کر دم لیا تھا، لیکن وہ نظام جس نے ہمایوں کو ڈوبتے ہوئے اپنی مشک کا سہارا دیا تھا ایک الگ شخص تھا جو نہ صرف خود ''سقہ'' تھا بلکہ ''سقے'' کا پٹھا بھی تھا، خیر یہ ان دونوں ''سقوں'' اور سقوں کے پٹھوں کو بھرا ہوا مشک ماریئے اصل مسئلہ اس نظام کا ہے جو ان دنوں پاکستان میں دندنا رہا ہے یہ الگ بالکل ہی الگ نظام ہے جو سقہ کی بجائے ''سکہ'' ہے،بلکہ صحیح معنوں میں کہئے تو نظام سقہ نہیں بلکہ نظام سکہ ہے البتہ دونوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ جو نظام سقہ تھا وہ بھی ''سکے'' چلاتا اور یہ والا نظام بھی سکے ہی چلاتا ہے اور دونوں نظاموں کے ''سکے'' چمڑے کے بنے ہوئے ہیں۔

ویسے ہمارے اپنے ''نظام سکہ'' کے دور میں ترقی بھی بہت ہوئی ہے کیوں کہ اس نظام میں بکروں کی جو ''ترقی دادہ'' قسم ہے وہ بھیڑ اور بکری کی ''کراس بریڈ'' ہے یعنی یہ بکرے بھی ہیں اور بھیڑیں بھی ... بھیڑوں کی طرح موسم بہ موسم ان کی ''اون'' بھی کاٹی جاتی ہے جو حکومت کی مدد سے اکٹھی کر لی جاتی ہے اور پھر بڑی بڑی گانٹھوں کی شکل میں ''دساور'' کو بھیجی جاتی ہیں خاص طور پر سوئٹزر لینڈ نامی دیس میں تو اس اون کی مانگ بہت ہے کچھ تھوڑا بہت اون یورپ اور امریکا، تھائی لینڈ، ملائشیاء اور دبئی وغیرہ بھی جاتا ہے لیکن زیادہ مقدار سوئس گوداموں میں ہی پہنچائی جاتی ہے، کمال کا جانور ہمارے اس والے نظام سکہ نے پال رکھا ہے بھیڑ کی دوسری خوبی وہ مشہور و معروف بھیڑ چال ہے چنانچہ اب تک اس بھیڑ چال کی وجہ سے بے شمار بھیڑیں نہ جانے کس کس کنوئیں یا کھائی میں اپنا سر کھپا چکی ہیں لیکن رکنے یا رستہ بدلنے کے بارے میں سوچتی تک نہیں ہیں شاید اس لیے کہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ


کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس ''رہ'' سے چلے تیرے دروبام ہی آئے

''رہ'' کو یہاں کی زبان میں ''پارٹی'' کہا جاتا ہے اور اب تک ایسی کوئی ''رہ'' بھی ان بھیڑوں کو ایسی نہیں ملی ہے جس کا اختتام کسی کنویں کھائی یا قصائی گھر پر نہ ہو، یہ نئی نسل کی بھیڑ یا بکری کا آج تک کوئی مستقل نام بھی نہیں رکھا گیا جس نے جو کہا وہی اس کا نام ہوا چناں چہ یہ کوئی درجن بھر ناموں سے معروف اور منڈی میں دستیاب ہے جس میں خاص خاص اور زبان زد عام نام یہ ہیں، عوام + کالانعام + کارکن + سٹرکن، ووٹ + نوٹ، + ہندسے + حروف، وغیرہ + وغیرہ، یہ کراس بریڈ یا ہائی برڈ بیج جو محکمہ جمہوریت نے اٹھاسٹھ سال کے مسلسل تجربات کے بعد پیدا کیا ہے ہر لحاظ سے ''پروف'' ہے مذہب سے لے کر سیاست تک، تجارت سے لے کر، وزارت سے لے کر سفارت تک یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ''آل ان ون'' ہوتا ہے۔

یہ جو موجودہ دور کا ''نظام سکہ'' ہے اس نے اور بھی بہت زیادہ ''ترقیاں'' کی ہیں اگرچہ ''سکے'' اب بھی چمڑے ہی سے بنائے جاتے ہیں جو بھیڑ بکروں یا کالانعاموں سے حاصل کیا جاتا ہے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کو اس درجہ کمال تک پہنچایا گیا ہے کہ چمڑے کو ایک خود کار فیکٹری میں جسے حکومت کہا جاتا ہے باقاعدہ پروسس کر کے ''کاغذ'' میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اس سلسلے میں ''نظام'' کے پاس بڑے بڑے ماہرین موجود ہیں جو چمڑے سے کاغذ بنانے کے خاندانی اور جدی پشتی ہنر مند ہیں۔

جناب ڈاکٹر پروفسر علامہ ابن بطاطہ عرف پوٹیٹو نے ... نظام بلکہ نظام سقہ اور ''نظام سکہ'' کے بارے میں ہماری غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے ''نظام سکہ'' کی پوری ہسٹری کے ساتھ اس کا ''شیٹ'' بھی بیان کیا ہے، فرماتے ہیں جس طرح نظام سقہ کی اپنی نسل ''بچہ سقہ'' پرآکر ختم ہوتی ہے ویسی ہی ''نظام سکہ'' کے بھی بہت سارے ''بچگان سکہ'' پر ختم ہوتی ہے، اب ہماری غلطی پکڑتے پکڑتے یہاں پروفیسر ڈاکٹر علامہ ابن بطاطہ عرف پٹاٹہ سے بھی بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے چنانچہ ان کے ''احسان'' کا فوری طور پر بدلہ چکاتے ہوئے ہم بھی اس کی نشاندہی کیے دیتے ہیں۔

انھوں نے نظام ''سکہ و سقہ'' کے خاندانوں کو ''ختم'' ہونے کی جو بات کی ہے وہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ان دونوں نظاموں کے بچے اب بھی موجود ہیں لیکن ان سب سے ''تبدیلی نام'' کے اشتہارات دے کر خود کو دوسرے ناموں سے معروف کروا لیا ہے اور آج کل سرکاری کاغذات میں یہی نام لکھے بولے پڑھے اور پکارے جاتے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ زیادہ تفصیل تو نہیں بتا پائیں گے کیوں کہ یہ سب کے سب بڑے خطرناک اشتہاری تو نہیں لیکن ''اخباری'' مجرم ہیں، اور بتانے کی ضرورت بھی کیا ہے وہ خود ہی اخبارات میں اپنی مشہوری کرتے ہیں جو تقریباً ہر کسی کو معلوم ہیں کہ کس کس کا تعلق ''نظام سکہ'' کے کس کس خاندان سے ہے۔
Load Next Story