پرندے

وہ بھی دن تھے جب ہر طرف ہرے بھرے کھیت، باغات اور تھوڑا دور نہر کے اس پار جھاڑیوں کا جنگل تھا

وہ بھی دن تھے جب ہر طرف ہرے بھرے کھیت، باغات اور تھوڑا دور نہر کے اس پار جھاڑیوں کا جنگل تھا، صبح سویرے جب لوگ بھینسوں سے دودھ نکالتے، عورتیں ذکر الہی کے ساتھ مکھن اور لسی بناتیں اور گھو گھو ماٹی کی آوازیں، سوئے ہوئے لوگوں کے کانوں پر پڑتیں تو ان کی آنکھیں بھی کھل جاتیں۔ یوں شمال مشرق کے جھاڑیوں سے اڑتے ہوئے پرندے، گھروں کے آنگنوں، کھڑے درختوں، آس پاس کے کھیتوں اور باغوں پر آ کے پڑاؤ ڈالتے اور چہچہاتے۔

چڑیاں، فاختائیں، طوطے، کوے، مینائیں، کوئلیں، بلبلیں وغیرہ، رنگی کے کئی رنگ دکھنے میں آتے۔ پھر آہستہ آہستہ جھاڑیوں پر کلہاڑیوں کے وار کیے گئے، زمینیں آباد کی گئیں، باغات کاٹ کر فصلیں اگائی گئیں، بلکہ کئی باغات تو سیم و تھور اور موسلادھار بارشوں کے پانی کے نظر ہو گئے، بڑے بڑے درخت زمیں بوس کیے گئے، زیادہ نفع کے لیے فصلوں پر حد سے زیادہ کھاد اور زہریلی دواؤں کے اسپرے ہونے لگے۔

حضرت انسان کمانے کے چکر میں یہ بھول گیا کہ یہ زہر واپس ان کے اجسام میں ہی داخل ہو گا، جس سے ان کا کیا حشر ہو سکتا ہے، ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ اس سارے ماحولیاتی خرابے نے سب سے زیادہ اثر ان پرندوں پر چھوڑا، جن کی کئی قسمیں گم ہونے لگیں اور درختوں پر بنے آشیانے اجڑنے لگے، بچے کھچے درخت بھی پرندوں کے لیے پیٹتے رہے، ایسا لگا جیسے زمیں ویران ہو گئی ہو، کیوں کہ درختوں کا سنگھار پرندے ہی ہوتے ہیں۔

پرندوں کے بعد شہد کی باری آئی، وہ جو ہم درختوں سے تازہ اور میٹھی شہد اتار کر ہاتھ کی انگلیوں سے چاٹتے تھے اور کچھ سردیوں میں استعمال کے لیے گھر میں رکھتے تھے، اس شہد کی خوشبو اور مٹھاس اتنی مسحور کن ہوتی تھی کہ دل کہتا تھا، کہ اس کو صرف دیکھتے رہیں۔ شہد کی مکھیاں ارد گرد کے درختوں کے پتوں اور پھولوں کی پتیوں سے رس چوس کر اپنے چھتے میں جمع کرتیں، جب ہم کسی نئے شہد کی تلاش کے لیے، ادھر ادھر جاتے تو دو پہر کے وقت قریب بہتے ہوئے پانی کے پاس دیکھنے جاتے، کہ کہیں شہد کی مکھیاں پانی پینے تو نہیں آئیں۔

اگر نظر آ جاتیں تو اس کا مطلب ہوتا کہ قریب میں کہیں شہد کا چھتا موجود ہے، یا پھر صبح سویرے گلاب اور موتیے کے پھولوں پر نظر جماتے، اگر شہد کے مکھیاں نظر آتیں، تو سمجھ جاتے کہ قریب میں کہیں ان کا مسکن موجود ہے۔ یوں ہم ان اڑتی ہوئی مکھیوں کا تعاقب کرتے کے کہاں جا کر بیٹھتیں ہیں اور پھر ان کا جائزہ لے کر صبح یا شام کو گوبر کو جلا کر اپنے منہ اور ہاتھوں کو کپڑے سے لپیٹ کر دھوئیں کے ذریعے پہلے مکھیوں کو بھگاتے اور پھر شہد اتارتے۔ مجھے حیرت ہے کہ اب کچھ درخت اور گھروں کے ارد گرد کانٹوں کی باڑیں موجود ہونے کی وجہ سے اب شہد کی مکھیاں بھی روٹھ گئی ہیں، بلکہ نہر کنارے موجود جھاڑیوں میں بھی نہیں ملتی یوں جانداروں کا سارا ایکو سسٹم بھی درہم برہم ہو گیا البتہ پیچھے صرف کوے اور چڑیاں بچ گئیں، لیکن پچھلے کچھ سیلابوں نے انھیں بھی ناراض کر دیا یوں پورا علاقہ پرندوں سے خالی ہو گیا۔


مجھے شاعر' ہینری لانگ فیلو' یاد آتے ہیں، جنھوں نے بچوں کے اوپر نظم لکھی ہے ''چلڈرن'' جس میں انھوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بچے ہی اس دنیا کی خوبصورتی ہیں، ان کی خوشیاں لازوال ہیں اور دنیا کے سارے نظارے ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پرندے گم ہو جانے سے مجھے بھی اس علاقے کی خوبصورتی ماند پڑتی دکھائی دی، ایسے لگا جیسے یہ پرندے ہماری خوشیاں بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

اب اس بار جب خزاں الوداع کرنے لگا ہے، شمال کی ہلکی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی ہیں، نہر کی جھاڑیوں کے جلنے سے دھوئیں اٹھنے لگے ہیں، دھان کی فصل پک چکی ہے اور بقول لطیف سائیں '' سرکنڈوں نے سٹے نکال لیے ہیں اور شمال کی ہوائیں بھی چل پڑی ہیں، اے میرے محبوب اب تو بھی لوٹ آ۔''

تو ایک بار پھر اس موسم میں پرندے لوٹ آئے ہیں، زمیں میں موجود دھان کے دانوں کو چگ رہے ہیں، صبح سویرے جب آپ دیکھیں گے کہ زمینوں میں ہل چلاتے ہوئے ٹریکٹروں کے پیچھے بھی بھاگتے ہوئے نظر آئیں گے تو روڈ اور راستوں کے کنارے زمیں پر چونچ مارتے ہوئے بھی ملیں گے، ایسا لگتا ہے کہ زمین پر پھول پھر اْگ آئے ہیں، بقول مشتاق صوفی 'گوری نے پازیباں لائیاں تے دھرتی نوں پھل لگ گئے۔ ارے ہاں! سچ میں بھول ہی گیا، یہ موسم تو سائیبریا سے آنیوالے پردیسی پرندوں کا بھی ہے، مرغابی پہلے ہی اپنی بولی سے آنے کا اعلان کر چکی ہے۔

اب نیرگی، تھراندو، ڈگوش جیسے خوبصورت اور بھاری بھرکم پرندوں کے آنے کی باری ہے۔ یہ پرندے سائبیریا سے نکلتے تو ایک ساتھ ہیں، لیکن مرغابی جسامت میں ہلکی ہونے کی وجہ سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔ یہ پرندے پانی میں بیٹھے ہوئے اگتے ہوئے پھولوں کی طرح لگتے ہیں اور جب بڑی تعداد میں ملکر پانی میں غوطے مارتے ہیں تو نظارہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے، لیکن یہاں بھی بندوقیں صاف کی جا رہی ہیں، نائیلون کے نئے جال بْنے جا رہے ہیں اور عرب شہزادوں کی کیمپ بھی لگنے والے ہیں، مطلب کہ ان کے شکار کا پورا اہتمام کیا گیا ہے، لیکن یہ حقیقت میں پردیسی پرندے ہیں۔

کچھ اپنی زندگی دے کر اگلے دیس چلے جاتے ہیں تو باقی تھوڑے بہار کی موسم میں اڑتے ہوئے واپس سائیبیریا۔بہرکیف اب وہ زمانے تو گئے کہ جب ہم بچے پرندوں کے پیچھے لگتے اور درختوں پر چڑھ کر شہد اتارتے ، بھینسیں رہی نہ دودھ مکھن نہ صبح اٹھنے اور ذکر الٰہی کرنیوالی عورتیں، لیکن پھر بھی بچوں اور پرندوں کی بولیاں صبح سویرے سن کر دل بہار ہونے لگتا ہے۔ انسان کو اور بھلا چاہیے بھی کیا، سوائے خوشیوں کے اور اگر وہ بھی مفت میں مل جائیں، تو سونے پر سہاگہ، ورنہ اس دنیا میں اب تو صرف دکھ ہی دکھ رہ گئے ہیں جن کو لطیف سائیں نے بڑے خوبصورت انداز میں اس عبارت میں بیان کیا ہے کہ ''مٹھ مٹھ سورن ہر کنھن منجھ''یعنی ہر انسان کی قسمت میں مٹھی بھر دکھ درد موجود ہوتے ہیں۔ بھلا اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔
Load Next Story