پہلا حرف سخن کرنے کا اذن
شاعری کیا ہے، درد، تنہائی اور احساس کی شدت‘ جسے مبالغے کے رومال میں لپیٹ کر سخن گوئی کا آغاز ہوتا ہے
شاعری کیا ہے، درد، تنہائی اور احساس کی شدت' جسے مبالغے کے رومال میں لپیٹ کر سخن گوئی کا آغاز ہوتا ہے۔ 'اقلیم' کا شاعر بھی قدیم روایت کے اس سلسلے کو معتبر جانتے ہوئے حرف تصدیق فراہم کرتا ہے: 'پہلا حرف سخن کرنے کا اذن ملے گا تب مجھ کو' جس دن سناٹوں کا شور بپا ہو گا میرے گھر میں'۔ لیکن غزل میں روایت کی کیا حیثیت ہے، یقیناً روایت کو منہا نہیں کیا جا سکتا' خواہ جدید طرز فکر اور ندرت خیال کا کتنا ہی سہارا کیوں نہ لیا جائے۔ شہریار کہتا ہے: 'گئی رتوں کا پلٹنا تو شرط ہے احمد' نہیں تو حرمت ِحرفِ ہنر بھی جاتا ہے۔'
احمد شہریار کو پڑھتے ہوئے نگاہوں میں تلازموں کے یکے بعد دیگرے قمقمے جلنے بجھنے لگتے ہیں۔ یہ شاعری بتاتی ہے کہ تلازمے درحقیقت ایک فن ہے جو ایک طرف قاری کو روک کر سوچنے پر مجبور کرنے اور دوسری طرف گوہر مقصود ہاتھ آنے پر مسرت آگیں احساس یا فرحت بخش حیرت سے ہمکنار کرنے پر مامور ہے۔ تلازمہ روایتی شاعری کا وہ حسن ہے جس سے غزل کی زمین ہریالی سے بھرپور ہے اور شہریار کے شعری مجموعے 'اقلیم' کی ابتدائی غزلوں میں تلازموں کا اہتمام شدومد کے ساتھ موجود ہے: 'لمس صدائے ساز نے زخم نہال کر دیے' یہ تو وہی ہنر ہے جو دستِ طبیب جاں میں تھا'۔
اقلیم کا مطالعہ غزل کا مطالعہ ہے؛ غزل میں خیال بندی بنیادی جز ہے چناں چہ 'اقلیم' سے گزرتے ہوئے کبھی دل پذیر اور کبھی اسپاٹ خیال بندی سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا یہ شاعر غزل کی اقلیم سے اچھی طرح واقف ہے: 'دیمکیں چاٹتی جا رہی تھیں اِدھر واپسی کا ارادہ' اور اُدھر ایک نازک ہتھیلی پہ شاخ حنا مر چکی تھی'۔ لیکن یہ غزل شاید ہی آپ کو کہیں اور ملے۔ غزل کا دروبست شدومد کے ساتھ بتاتا ہے کہ شاعر کسی زبردست کہانی کے حصار میں ہے۔ احمد کے ہاں چند غزلوں میں یہ حیرت انگیز تضاد ہے کہ وہ کہتا غزل ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ وہ کہانی بیان کر رہا ہے۔ ان میں باقاعدہ منظر کشی کا واضح اسلوب ملتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اسلوب چند غزلوں کے بعد یک لخت مفقود ہو جاتا ہے: 'فلک پہ تھا آتشیں درختوں کا ایک جنگل' اور ان درختوں کے بیچ تاریک جھونپڑی تھیِ،۔ طلوع صبحِ ہزار خورشید کی دعا پر' بجھے چراغوں کی راکھ دامن میں آ پڑی تھی'۔
یہ شاعری روایت کے ساتھ گہری وابستگی اور گزشتہ رتوں میں جیے جانے کا عمل ہے۔ روایتی مضامین کو نئے انداز سے باندھنے کی کوشش کارفرما نظر آتی ہے: 'درپیش ہے گزشتہ رتوں کا سفر ہمیں' حیرت نہ کر کہ لوٹ کے واپس نہ آئیں ہم'۔ تاہم انھی کے درمیان نئے خیال اور نئے مضامین بھی وارد ہوتے رہتے ہیں۔ احمد شہریار کے ہاں روایتی مضامین میں انحراف کی روش نمایاں ہے۔
وہ قائم تصورات کو توڑنے کی طرف مائل رہتا ہے: 'رات کی پہلی آہٹ پا کر ہجر منانے والوں نے' بیداری کی رسم اٹھا دی خواب کو سرفراز کیا'۔ شہریار کے شعری پیمانوں میں رائج تصورات سے گریز بڑا واضح ہے۔ اس شعر کو دیکھیں' گریز کے ضمن میں کیا رنگ پیش کر رہا ہے: 'اس سے زیادہ اور سزا کیا اپنے لیے تجویز کریں' جس جس لفظ نے دامن کھینچا اس کو نظر انداز کیا'۔ اور یہ: 'جو دل کا شعلہ تھا اشکوں میں در نہیں آیا' مجھے ستارہ گری کا ہنر نہیں آیا'۔
شہریار کو نئے موضوعات کا پیارا شاعر کہا جاسکتا ہے۔ 'اقلیم' میں نئے مضامین کا ایک سلسلہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ وہ روایتی تلازموں میں بھی خیال کی نئی جہت تلاش کرنے کی جتن کرتا ہے: 'پتنگوں کا پلٹنا التوا میں پڑگیا تھا' دیے کی لو بچاری رات بھر تنہا رہی تھی،۔ دنیا کا حسن یہ ہے کہ اس شاہکار کو' آدھا بگاڑ دیجیے آدھا بنائیے،۔ خدا کرے ان کے سر نہ آئے سوالِ بیعت' بہت دنوں سے جو مشق انکار کر رہے ہیں،۔
اُسے گماں بھی نہیں تھا کہ ہم بہار کے بعد' خزاں رسیدہ شجر کا بھی تذکرہ کریں گے'۔بعض اوقات شہریار کے اشعار نئے پن کے باعث چونکاتے ضرور ہیں لیکن ان اشعار کی زبان شاعرانہ نہیں ہوتی۔ غزل کا شعر جس معنوی تہ داری یا سادگی کے پرکار ہنر کا تقاضا کرتا ہے؛ وہ اس طبعی چابک دستی کے بغیر ممکن نہیں جو شاعر کو روایت کے ضمن میں پہلی تہہ سے لے کر آخری تہہ تک شعریت کی تمام پرتوں سے آشنا کر دیتی ہے۔ شہریار کے اس شعر کو دیکھیے: 'اٹھا رہا ہوں یوں احسان ساعت گزراں' کہ جیسے کوئی جنازہ اٹھا رہا ہوں میں'۔ شعر کا یہ حسن ان جیسے بہت سارے اشعار میں مفقود ہے: 'سوال کرتا رہا مجھ سے ایک بوڑھا شخص' کہاں گیا مرا بچپن کدھر گئے مرے خواب،۔ 'کمند کو کمان کو ابھی سے تہہ نہ کیجیے' کہ یہ شکارکے لیے ہیں زین کے لیے نہیں'۔
یہ شہریار کی شاعری کی بڑی خامی ہے کہ جب وہ خیال میں روایت سے انحراف کرتے ہیں یا روایتی استعاروں کو کسی نئے ڈھنگ اور تناظر میں باندھتے ہیں تو بیش تر اوقات شعریت کا دامن چھوٹ جاتا ہے' کبھی کسی اور وجہ سے شعر خراب ہو جاتا ہے۔ کئی اشعار ایسے ہیں جن میں الفاظ کا دروبست آہنگ نہیں بننے دیتا: 'شام ملاقات اک دھوکا تھی اب جا کر معلوم ہوا' تم خود اپنے سامنے بیٹھے میں خود اپنے برابر میں'۔ اور اس شعر کو ردیف نے خراب کر دیا ہے: 'دیے بجھتے رہیں گے اور ہوا چلتی رہے گی' یہ سارا سلسلہ روشن رہے گا رات کی رات'۔ معنی کے تناظر میں ترکیب 'رات کی رات' کا صحیح استعمال افتخار عارف کے اس شعر میں دیکھیں: 'یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات' سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا'۔
اس شعر میں بھی ردیف کی وجہ سے بنتا ہوا تاثر خراب ہوا ہے: 'چشم حیراں! یہ وہی لمحہ بینائی ہے' اب تجھے اپنے سوا کچھ نظر آنے کا نہیں۔'ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی شعری زمینوں میں بسا اوقات خیال رچ بستا نظر نہیں آتا۔ کئی جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خیال کے لیے کوئی اور زمین درکار ہے۔ جس میں خیال کو سہولت کے ساتھ موزوں کیا جا سکے۔ مثلاً: 'بوقت صبح نظر آئے گا وہ مہر جہانتاب' ابھی جو نور چراغوں کے خاندان میں گم ہیِ،۔ ہم نے اس رخ سے بھی سوچا ہے کہ یہ تند ہوا' دستِ ہر شاخ پہ بیعت بھی تو ہو سکتی ہے۔ تجھے خبر نہیں مگر یہ پست قد سے لوگ ہیں' جو تیری سرو قامتی کو معتبر بناتے ہیں۔'اچھا شعر اور اچھا خیال غزل کی وہ ضرورت ہے جس کے بغیر یہ پھل پھول نہیں سکتی۔ چاہے غزل کسی بھی کتاب میں ہو' اسے اچھے شعر اور اچھے خیال کی غذا درکار ہوتی ہے۔
بصورت دیگر یہ کتاب کو معتبر بنانے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ احمد شہریار کی غزل کے یہ اشعار اس کتاب کو اعتبار بخشیں گے یا گریزپائی کا رویہ اختیار کریں گے؛ اس کا قطعی فیصلہ فی الوقت ممکن نہیں ہے لیکن یہ بہت واضح ہے کہ یہاں امکانات کی ایک دنیا بکھری ہوئی ہے: 'کمان وقت سے نکلا تھا ایک تیر کبھی' جدھر میں سینہ سپر تھا ادھر نہیں آیا،۔ 'تجھ سے ملنے کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن' جانے کیا سوچ کے میں اپنے برابر سے اٹھا۔ اندھیری رات ہے اور دیکھتا ہوں صبح کے خواب' یہ خواب ترک کروں گا تو مر نہ جاؤں گا میں۔ بہ فیض عشق ہمیں جھیلنا پڑا احمد' تمام سال کا دکھ آخری مہینے میں۔ کسے خبر وہ مرا قصہ گو فسانہ نگار' مجھے بھی جوڑ دے بے ربط واقعات کے ساتھ۔ ملال گمشدگی بھی کسے نصیب کہ وہ' جہاں نہیں ہے وہاں کس قدر زیادہ ہے۔ دعا سے ہاتھ اٹھا لوں دوا کو رخصت دوں' اگر یہ درد کم آمیز مستقل ہو جائے'۔
بلاشبہ' روایتی شاعری کی جگالی کرنیوالے شاعروں کی نسبت جدت کا راستہ اپنانے والوں کے کندھوں پر یہ بھاری بوجھ آن پڑتا ہے کہ وہ غزل کے شعر میں نئے امکانات کے در وا کرتے ہوئے شعر کے جوہر کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ اقلیم میں بکھرے ہوئے امکانات خوش آئند ہیں اور انتہائی نگہداشت کے متقاضی بھی۔ بقول شہریار 'شہر سخن میں عیب نہ رکھنا ہنر نہیں' کیونکہ محاسن غالب ہوں تو عیوب خود دب جاتے ہیں اور 'اقلیم' کے ساتھ شہریار کو حرف سخن کرنے کا اذن تو مل ہی چکا ہے۔