ماہی گیروں کے حقوق پر نعرہ بازی کیوں

جہاں اور جس ریاست میں، سماج و معاشرے میں انسانی حقوق کتابوں تک محدود ہوں اور عملاََ اس کا ذکر بھی عجیب لگتا ہو


سامی میمن November 23, 2014

''حقوق'' ایک ایسا معتبر جملہ جس سے اعلیٰ انسانی اقدار کی ابتداء ہوتی ہے، جو سماج سے ریاست کی بنیادوں کو مضبوط اور دنیا کی نظروں میں عزت و اعلیٰ مقام کا سبب بنتا ہے، ہمارے ارباب اقتدار سے لے کر عالمی ادیب و دانشور اسے اپنی زندگی کا وتیرہ بناتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا بنیادی سبب بھی حقوق کا استحصال تھا، نومولود پاکستان سے بنگلہ دیش کی علیحدگی بھی حقوق کی غصب ہونے کا بہانہ بنی اور کشمیر کی طویل ترین جدوجہد بھی حقوق کے غصب ہونے کا ہی رونا ہے، تخلیق کائنات سے اب تک بنیادی اختلافات، لڑائیوں، خون خرابہ، ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم، جیل و اذیتیں اور پھر قربانیوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ بھی حقوق کے حصول کے لیے ہے۔

قرآن و سنت سے کربلا کے سانحے تک حقوق کو اولیت دی گئی ہے ، کتابوں سے درس گاہوں تک، اول سے آخر تک حقوق کو علم کا لازمی جز قراردیا گیا ہے یہاں تک کہ حقوق اللہ سے حقوق العباد کو دنیا و آخرت سے چھٹکارے کی دلیل و بنیاد قرار دیا گیا ہے، حقوق سے دستبردار ہو کر، گردن جھکا کر غلاموں جیسی زندگی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔لیکن بدقسمتی دیکھیے ہمارے ہاں سب کچھ ملے گا اگر کچھ نہیں تو حقوق انسانی نہیں، عزت نفس نہیں، انسان کا احترام نہیں۔

جہاں اور جس ریاست میں، سماج و معاشرے میں انسانی حقوق کتابوں تک محدود ہوں اور عملاََ اس کا ذکر بھی عجیب لگتا ہو، وہاں جانوروں ، درختوں، ماحولیات سمیت دیگر جاندار و بے جان کے حقوق کی بات بے وقت کی راگنی ہے، اس کے اسباب شاید یہی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے حقوق کو صرف اپنی ذات تک محدود کر دیا ہے، ہم ایک دوسرے کے حقوق کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے، سننا ہی نہیں چاہتے، تسلیم کرنا ہی نہیں چاہتے، اس لیے حقوق کا احترام یا حقوق دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ماہی گیروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ماہی گیر ان67 سالوں میں تاحال اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، سماجی و معاشی انصاف تو دور کی بات، انسانی حقوق کے تحت انھیں انسان تک نہیں سمجھا جاتا، سیاستدان انھیں ووٹ کے ذریعے اقتدار تک رسائی سمجھتے ہیں، ریاستی و حکومتی حکام انھیں غربت کی لکیر سے نیچے دکھا کے عالمی اداروں سے امداد بٹورتے ہیں، این جی اوز انھیں استعمال کرکے اربوں روپے کے پروجیکٹس حاصل کرتی ہیں یہی اسباب ہیں کہ خوراک انسانی مہیا کرنے والے یہ ماہی گیر تعلیم، صحت، صاف پانی کا حصول ایک طرف دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔ ان کی آبادیاں ترقیاتی کاموں سے محروم، ان کے بچے علم کی روشنی کے بجائے جہالتوں کے اندھیروں میں ڈوبے ہیں، ماحولیاتی آلودگی کے باعث مختلف بیماریاں ماہی گیر آبادیوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، دنیا میں جہاں خوراک کی قلت، ماحولیاتی تبدیلیوں اور پولیو جیسے خطرناک مرض سے بچاؤ کی تدبیریں کی جا رہی ہیں وہاں کراچی کے ساحل پر صدیوں پرانی آبادی ریڑھی میں سیکڑوں معصوم بچے معذوری کا شکار ہو کر والدین کی پریشانی اور حکومت کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

سندہ کے ساحلی پٹی پر ایک طرف حکومت نے اپنے کاغذات میں اربوں روپے ماہی گیروں کی بھلائی پر خرچ ہوتے دکھا دیے، ان کے لیے ماڈل ولیج، کشتیاں، جال، اسپتال، اسکول سمیت لا تعداد اسکیمیں موجود ہیں لیکن عملاََ ایک بھی چیز نظر نہیں آتی، یہی حال ماہی گیروں کے نام پر کاروبار کرنے والی بعض این جی اوزکا بھی ہے جنھوں نے عالمی اداروں سے فنڈز لے کر عالیشان دفاتر، مہنگی گاڑیاں اندرون و بیرون ملک دوروں اور مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کر کے خود کے لیے عیاشی کا تو سامان پیدا کیا لیکن ماہی گیر آج بھی بنیادی سہولیات اور حقوق سے محروم ہیں۔

افسوس کا مقام ہے کہ ماہی گیروں کا عالمی دن منایا جاتا رہا، دنیا میں ماہی گیروں اور سمندری و دریائی مسائل کی ترقی کے لیے دنیا اپنے پروگرام و منصوبے بیان کر رہی ہے، وہاں آج ہم پاکستان میں ماہی گیروں کے لیے صرف نعرے بلند کر رہے ہیں۔ چند روپے خرچ کر کے دو چار پھول دریا میں پھینک کر انگلی کٹوا کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوا رہے ہیں۔ ماہی گیروں کی اس سے بڑی ہتک کیا ہو گی کہ ان کے بچوں اور عورتوں کو چاول کی دیگ کھلانے کا آسرا دیکر جلسے کرتے ہیں، بلند بانگ دعوؤں پر مشتمل تقریر کرتے ہیں لیکن عملاََ ان کے لیے کچھ نہیں کر پاتے۔ہم حکومت سے، این جی اوز سے ماہی گیروں کے عالمی دن کے حوالے سے سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ ملک میں 40 لاکھ ماہی گیروں کے خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کی معاشی و سماجی زندگی میں بہتری لانے کے لیے آج تک کوئی پالیسی مرتب نہیں کر سکے ہیں۔

ماہی گیروں پر مزدور قوانین کا اطلاق بھی نہیں کر سکے ہیں، قیدی ماہی گیروں کی رہائی اور متنازع سمندری حدود میں ماہی گیروں کی گرفتاری کا سلسلہ بند نہیں کروا سکے ہیں، یہاں تک کہ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ دراصل ہندوستانی جیلوں میں طوفانوں کی زد میں آنے والے گزشتہ 15 برس سے قید ہیں۔ ان کے رہائی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ مائی بھاگی ریڑہی والی کے 5 عزیزوں میں سے ایک جیل میں مر گیا باقی 4 کو تاحیات عمر قید ہو گئی ہے۔ آپ انسانی حقوق کے تحت اب تک ہندوستانی حکومت سے رحم کی اپیل نہیں کر سکے ہیں۔ مائی آسی ابراہیم حیدری والی کے بیٹے اور مائی سکینہ کے شوہر سمیت دو ماہی گیر ایک لاکھ ضمانت پر ابھی تک بیگناہ جیل میں بند ہیں۔ آپ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکے ہیں تو آپ سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

گزرے ہوئے عالمی دن کے حوالے سے ہم کرپٹ این جی اوز اور غیر ذمے دار حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ خدا سے ڈریں، انسانی حقوق کی پائمالی بند کریں۔ ملک کے ماہی گیروں کے لیے نعرے نہیں عملی طور پر اقدامات کریں تا کہ پاکستان میں سمندر اور دریائی حالات بہتر ہوں اور ماہی گیروں کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔