پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 31 برس بیت گئے

وحید مراد نے پاکستانی فلموں میں رومانوی ہیرو کی بہترین تصویر پیش کی اور اپنے فن سے فلم انڈسٹری کا امیج بہتر کیا


ویب ڈیسک November 23, 2014
وحید مراد نے دو دہائیوں تک ملک کی سب سے زیادہ سحر انگیز شخصیت ہونے کا لطف اٹھایا فوٹو: فائل

پاکستان فلم انڈسٹری کے میگا اسٹار اور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 31 برس بیت گئے۔

برصغیر پاک و ہند کے معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کے ہاں پیدا ہونے والے وحید مراد نے کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ پروڈیوسر کے طور پر وحید مراد اپنے والد کے قائم شدہ فلم بینر کے تحت فلم ''انسان بدلتا ہے'' سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ تاہم اداکار کی حیثیت سے وہ 1962 میں فلم ' اولاد' میں جلوہ گر ہوئے۔ 1966 میں انہوں نے پرویز ملک کی ہدایت میں اپنی ہی پروڈکشن میں ''ارمان'' میں بطور ہیرو کام کیا۔ جس نے اس وقت کے تمام باکس آفس کے ریکارڈز توڑ دیئے اور تھیٹر میں 75 ہفتے مکمل کئے۔ فلم میں احمد رشدی کے گائے ہوئے ''کوکو کورینا''، ''اکیلے نہ جانا''، ''بے تاب ہو ادھر تم'' اور'زندگی اپنی تھی ابتک'' جیسے گانے نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ آنے والے وقت میں وحید مراد، پرویز ملک، مسرور انور، سہیل رانا، احمد رشدی اور زیبا کی کامیاب ٹیم نے ایک بڑی تعداد میں بہترین فلمیں بنائیں۔

وحید مراد نے دو دہائیوں تک ملک کی سب سے زیادہ سحر انگیز شخصیت ہونے کا لطف اٹھایا تاہم 1970 کی دہائی کے آخر میں ان کا کیرئیر زوال پزیر ہوا کیونکہ اس وقت کی معروف اداکاراؤں زیبا ، شبنم اور نشو کو اپنے شوہروں کی جانب سے چاکلیٹی ہیرو کے مدمقابل کام کرنے کی اجازت نہیں تھی ، جس کی وجہ سے وہ وحید، ندیم یا محمد علی کے ساتھ بطور معاون اداکار کے طور پر یا ' پھر دوسرے درجے کے ہداتکاروں کی فلموں میں بطور اداکار کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوگئے۔ وحید مراد اس طرح کے بدترین برتاؤ کو برداشت نہیں کرپا رہے تھے جس کی وجہ سے ناصرف وہ اخلاقی پستی کا شکار ہوئے بلکہ ان کی گھریلو زندگی بھی ناچاقی کا شکار ہوئی۔ 1983 میں وحید مراد کی گاڑی ایک حادثے کا شکار ہوگئی جس سے وحید تو معجزاتی طور پر بچ گئے لیکن حادثہ ان کے چہرے پر ایک بڑا نشان چھوڑ گیا تھا۔ کل تک جو ہدایت کار اور پروڈیوسر انہیں اپنی فلم میں شامل کرنے کے لئے برسوں انتظار کرتے تھے وہ اب ان سے پہلو بچانے لگے۔ اس صورت حال سے وہ اس قدر دلبرداشتہ ہوگئے کہ 23 نومبر 1983 کو وہ اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے اور لاہور میں اپنے والد کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔

وحید مراد نے پاکستان کی سلور اسکرین پر رومانوی ہیرو کی بہترین تصویر پیش کی،انہوں نے اپنے فن سے سے پاکستان کی فلمی صنعت کے امیج کو بہتر کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی فلموں اور ان پر عکسبند کئے گئے گانوں کو آج بھی مقبولیت حاصل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔