پرندے کی آنکھ سے جھیل کو دیکھو

سندھ کے لوگوں کو تحریک برائے بحالی جمہوریت میں بھرپور حصہ لینے کی سزا کے طور پر ڈاکوؤں کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔

umerkazi555@yahoo.com

سردیوں کے ساتھ سندھ میں پہلے غیر ملکی سیاح آتے تھے۔ ان سب کا رخ موہن جو دڑو کی طرف ہوا کرتا تھا۔ ہمارا گاؤں موہن جو دڑو کے راستے پر تھا۔ اس لیے ہم انھیں آتے جاتے دیکھتے۔ وہ لوگ جو سفید اور سرخ رنگت والے ہوتے۔ ان کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین اور لڑکیاں جینز کی چست پینٹ میں ہوا کرتیں اور ہم انھیں دیکھ کر حیران ہوتے کہ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کیوں آئے ہیں؟ ہم کو معلوم نہ تھا کہ ان کے لیے موہن جو دڑو کی کیا اہمیت تھی۔ کیوں کہ ہمارے لیے تو موہن جو دڑو ان کھنڈرات کا نام تھا، جس کی تباہی کے بارے میں ہم نے گاؤں والوں سے عجیب افسانے سنے تھے۔

مگر جب ہم بڑے ہوئے اور ہم نے جانا کہ موہن جو دڑو قدرت کی تباہی کا نمونہ نہیں بلکہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا شہکار ہے تو ہم نے اس لڑکپن والی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ان سیاحوں سے پوچھنا شروع کیا کہ موہن جو دڑو کی اہمیت کیا ہے؟ اور ان کی باتوں سے ہمارے پلے جو کچھ پڑتا اس سے ہمیں اندازہ ہوتا کہ یہ ایک غیر معمولی مقام ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ دو باتیں ہوئیں۔ ایک تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت ختم ہونے اور مارشل لا لگنے کے بعد ان قدیم آثاروں کی تباہی شروع ہوگئی اور دوسرا المیہ یہ ہوا کہ ہمارے پاس ان غیر ملکی سیاحوں نے آنا ختم کر دیا جس کے باعث ہمیں عجیب دنیا کے لوگوں کا مشاہدہ ہوا کرتا تھا۔

موہن جو دڑو کے آثاروں کو تو ایک طرف سیم چاٹنے لگی اور دوسری طرف ان کی مناسب نگہداشت نہ ہونے کے باعث وہاں لڑکے سائکلیں اور موٹر سائکلیں چلاتے اور ان قدیم کھنڈرات کو مسمار کرتے اور غیر ملکی سیاحوں نے سندھ اور خصوصی طور پر دادو اور لاڑکانہ میں ''ڈاکو راج'' قائم ہونے سے اس طرف کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ قدیم شہر ویران ہو گیا۔ اب وہاں کبھی کبھی کسی سفارتکار کا آنا ہوتا ہے۔ یا پھر کوئی اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے موہن جو دڑو کے جنگل میں منگل سجاتا ہے۔ ورنہ یہ قدیم ورثہ موسم اور ماحول کے ہاتھوں ہر دن تباہ ہوتا رہتا ہے۔

موہن جو دڑو کے نوادرات کی چوری کیسے ہوئی؟ اس میں کون سے لوگ ملوث تھے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ مگر اس کالم کا موضوع موہن جو دڑو نہیں۔ جب ہم موہن جو دڑو پر لکھیں گے تب ان سارے افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک پہلوؤں کا پردہ چاک کریں گے جس نے ہماری تہذیب کو اس جدید دور میں بھی تباہ کیا۔ اس وقت میرا موضوع صرف وہ سیاح ہیں جن کو اگر تحفظ ملتا تو آج ہماری سیاحت ایک اچھی خاصی انڈسٹری کا مقام حاصل کر لیتی۔ مگر ڈاکو راج کے بھی سیاسی اسباب تھے۔

ہمارے اہل دانش اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ سندھ کے لوگوں کو تحریک برائے بحالی جمہوریت میں بھرپور حصہ لینے کی سزا کے طور پر ڈاکوؤں کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ اس کی وجہ سے لوگ خوف کا شکار ہوئے اور دن ڈھلے دادو اور لاڑکانہ کی سڑکیں سنسان ہو جاتیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت جو بحال ہوئے برسوں بیت چکے ہیں مگر وہ ان راستوں پر ابھی تک امن بحال نہیں ہوا جن راستوں پر غیر ملکی سیاح آتے تھے۔ اب ان سڑکوں پر اس طرح دھول اڑتی رہتی ہے جس طرح تھر، ایک لوک گیت کے یہ بول ہیں کہ:

''سندھڑی ری مارگے اڈتی جائے دھول''

یعنی: سندھ کی طرف جانے والے راستے پر دھول اڑ رہی ہے۔یہ گیت جدائی کا گیت ہے۔ اب جب اہل تھر مناسب غذا اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث اپنے بچوں کو نہیں بچا پاتے تو مجھے اس گیت میں ایک اور معنی نظر آتی ہے۔ مگر ہمارے اس کالم کا موضوع وہ صحرائے تھر نہیں جو درد کا گھر ہے۔ ہم تو ان سیاحوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کے آنے سے صرف ہمارے پاس غیر ملکی سرمایہ ہی نہیں بلکہ ہمارا امیج پوری دنیا میں سورج کی طرح چمکتا تھا۔ یہاں سے جانے والے لوگ رنگین تصاویر دکھا کر اپنے لوگوں کو بتاتے کہ یہ پاکستان ہے۔ جس میں وادی سندھ ہے جس کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے۔


وہ لوگ صرف یہی کچھ نہیں کرتے بلکہ ان کے عالم وادی سندھ کی تہذیب پر کتابیں لکھتے مگر اب ہمارے ملک پر لکھی جانیوالی کتابوں کا موضوع موہن جو دڑو نہیں بلکہ دہشتگردی ہے۔ اب پاکستان کا شمار دنیا کے غیرمحفوظ ممالک میں کیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو اس شناخت سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اب جب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے تو کیا ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ایک طرف دہشتگرد ختم ہونگے اور دوسری طرف بدامنی کی آگ بھڑکانے والے وہ ڈاکو جن کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں نے اس طرف کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

اب جب امن بحال ہو گا تب دیکھیں گے کہ غیر ملکی سیاح ملک کے بالائی علاقوں اور وادی سندھ کے عظیم تہذیبی ورثے موہن جو دڑو کا رخ کرتے کہ نہیں۔ مگر فی الحال تو ہمارے پاس سفید رنگت والے سیاح نہیں آتے مگر یہ الگ بات ہے کہ سردیاں شروع ہوتے ہی سندھ کی جھیلوں پر غیر ملکی پرندے اترنا شروع ہوتے ہیں۔ وہ پرندے جو سائبیریا سے لے کر سوئیڈن تک مشرقی اور مغربی یورپ سے سفر کر کے یہاں پہنچتے ہیں اور یہاں پر ان کے آنے سے ''شکار کا موسم'' شروع ہو جاتا ہے۔

نیشنل جغرافیہ والوں نے اس موضوع پر بہت سارے مضامین بھی لکھے ہیں اور انھوں نے ڈاکومینٹریز بھی بنائی ہیں۔ انھوں نے اس ملک کے لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ پردیسی پرندے برف میں اپنے انڈے چھپا کر یہاں آتے ہیں اور ان کو واپس جانے کی فکر ہوتی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ جب یہاں پر سردیاں ختم ہونے کو ہوتی ہیں اور یورپ میں برف پگھلنا شروع ہوتی تب وہ بچے انڈوں سے نکلنا شروع ہوتے ہیں اور اس وقت یہ پرندے انھیں پالنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں مگر جو پرندے یہاں گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ان کے بچے اپنی ماؤں کا راستہ دیکھتے دیکھتے بھوک سے مر جاتے ہیں۔

اس لیے پرندوں کو تحفظ دینے والے اداروں نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کم از کم پرندوں کے ان بچوں پر تو رحم کریں جو اپنی ماؤں کے مر جانے کے باعث زندہ نہیں رہ پاتے۔ مگر ہمارے لوگوں میں تو کیا حکومتوں میں بھی یہ شعور نہیں کہ وہ غیر ملکی پرندوں کو بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔ جس ملک میں سیاستدان غیر ملکی پرندوں کا شکار کرنے کے بعد خون میں ڈوبے ہوئے ان کے رنگیں پروں پر کیمرا فوکس کرتے ہیں، بڑے فخر کے ساتھ بندوق اٹھا کر تصویر کھنچواتے ہیں اور وہ تصویر ''فیس بک'' کی زینت بناتے ہیں۔

اس معاشرے میں ہم ان غریب لوگوں کو غیر ملکی پرندوں کا شکار کرنے سے کس طرح روک سکتے ہیں جو پورا سال سبزیوں پر گزارا کر کے سردیوں میں غیر ملکی پرندوں کا گوشت بھی کھاتے ہیں اور ان کو پکڑ کر دادو اور لاڑکانہ کے بازاروں میں فروخت بھی کرتے ہیں اور لوگ انھیں خرید کر اپنے جاننے والوں کو تحفے کے طور پر بھیجتے ہیں۔

یہ کالم میں نے خوبصورت خواتین کے بارے میں لکھنے کے بجائے ان پردیسی پرندوں کے بارے میں لکھا ہے۔ کیوں کہ خوبصورتی صرف انسان تک محدود نہیں۔ فطرت کی خوبصورتی بہت وسیع ہے۔ اس وسعت میں وہ پرندے بھی آ جاتے ہیں جو بہت حسین ہوا کرتے ہیں۔ ان کے شوخ رنگوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہوا میں آگ کے شعلے اڑ رہے ہیں۔ ان کے آنے سے ہماری جھیلوں کا حسن بڑھ جاتا ہے۔

ہم نے بدامنی کے باعث غیر ملکی سیاحوں کا راستہ تو روک دیا لیکن اگر حکومتوں نے غیر ملکی پرندوں کے شکار پر عملی طور پر پابندی عائد نہیں کی تو ہمارے پاس انسانوں کے بعد اب پرندے بھی نہیں آئیں گے۔ پھر ہمارے بعد کوئی کالم نگار یہ الفاظ لکھے گا کہ ''سردیوں کے ساتھ سندھ کے دیہی علاقوں میں غیر ملکی پرندے آتے تھے۔ مگر ''شکار کا موسم'' کہلانے والی بدامنی کے باعث اب یہاں غیر ملکی پرندے نہیں آتے اور وہ جھلیں بہت اداس اور ویران نظر آتی ہیں جو ان پرندوں کے دم سے فطرت کے حسن کا عظیم روپ بن کر چھلکتی تھیں۔
Load Next Story