اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں کی پریشانی
حزب اللہ لبنان کو انتہا پسند گروہ بتا کر پوری امت مسلمہ میں تقسیم کا رخنہ ڈالنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں۔
اسرائیل اور اس کے تمام ہمنوائوں کی پریشانی اور گھبراہٹ بڑھ گئی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سی وجوہات ہیں جس نے ان تمام شیطانی قوتوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس سوال کا جواب بہت آسان اور سادہ سا ہے، یہ اسلامی مزاحمتی تحریک ''حزب اللہ'' ہے کہ جس کی عظیم الشان اور پائیدار استقامت نے اسرائیل اور اس کے تمام ہمنوائوں کی منصوبہ بندیوں کو نہ صرف خاک میں ملا دیا ہے بلکہ ان کی پریشانی میں مزید اضافہ بھی کر دیا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلم عرب ممالک کے حکمران تو مغربی سامراج امریکا اور اسرائیل کا ساتھ دیتے آئے ہیں لیکن حال ہی میں کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے امت کے نام پر ہی امت کو تقسیم کرنے کے لیے اور اپنی وفاداریوں کا اسرائیل کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے صرف اور صرف حزب اللہ لبنان نامی اس اسلامی مزاحمتی گروہ کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کیا ہے۔
یہ عاقبت نااندیش امت کے نام پر امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں کیونکہ یہ وہ عناصر ہیں کہ جنھوں نے پہلے قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی جدوجہد کرنیوالی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو مذہبی انتہا پسند گروہ کا نام دیا تھا اور آج ایک مرتبہ پھر یہی امت کے نام لیوا امت مسلمہ میں تقسیم کے لیے حزب اللہ لبنان کو انتہا پسند گروہ بتا کر پوری امت مسلمہ میں تقسیم کا رخنہ ڈالنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں۔
یہ عاقبت نااندیش مسلم امہ کو گمراہ کر رہے ہیں اور حماس سمیت حزب اللہ اور جہاد اسلامی فلسطین کہ جنھوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کی مثالیں 2006ء میں لبنان میں ہونے والی 33 روزہ جنگ میں، غزہ میں 2008ء میں ہونے والی 22 روزہ جنگ میں، پھر اسی طرح غزہ میں 2012ء میں اور پھر 2014ء میں 50 روزہ غزہ کی جنگ میں دیکھنے کو ملی ہیں کہ ان اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے نہ صرف فلسطین و لبنان اور القدس کا دفاع کیا بلکہ صیہونی ریاست اسرائیل کو بدترین شکست سے دوچار بھی کیا اور عالمی دہشتگرد امریکا کی بنائی گئی مشرق وسطیٰ کے لیے نئی حکمت عملیوں کا قلع قمع کر دیا۔
مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہی امت کا نام استعمال کرنیوالے آج امت کے درمیان دراڑیں ڈالنے کے لیے پاکستان میں بھی سرگرم عمل ہیں اور امت مسلمہ میں تقسیم ڈالنے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حالانکہ دور حاضر میں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام مسلمان اقوام اپنے معمولی نوعیت کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے ان تمام دشمنوں سے خواہ وہ اسرائیلی لبادے میں ہوں یا پھر اسلام کے لبادے میں داعش کی صورت میں ہوں ان کی سرکوبی کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنا چاہیے تا کہ اپنی سرزمینوں کی اور اسلام کے مقدس مقامات کا دفاع اور تحفظ کیا جائے۔
حزب اللہ سے ان عناصر کی دشمنی کے اسباب دو ہیں، ایک تو یہ حزب اللہ کو مسلمانوں کے ایک فرقہ کی جماعت کہتے ہوئے محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سے حزب اللہ اس عمل کی طرف مجبور ہوئی کہ شام میں جاری فتنہ کی سرکوبی کی جائے تا کہ شام میں اٹھنے والا فتنہ اگر ختم نہ کیا گیا تو وہ بالآخر لبنان اور فلسطین کاز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا تاہم شام میں حزب اللہ کا دہشتگرد گروہوں کے خلاف جنگ میں وارد ہونا خود لبنانی مقاومت اور لبنان کے دفاع اور فلسطین کاز کی خدمت کے لیے تھا، تاہم یہ بات ان امت کے دشمنوں کو ناگوار گزری اور انھوں نے حزب اللہ کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کردیا جہاں تک شام میں حزب اللہ کا دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں وارد ہونے کا تعلق ہے تو یہ کوئی شام پر یلغار ہرگز نہیں تھی بلکہ وہ تو وہاں کی مشکلات کے حل کے لیے گئی تھی۔ اس وقت سے یہ خبریں بڑی شدت سے اڑنے لگیں کہ حزب اللہ اپنے دشمن (اسرائیل) کے سامنے خاضع ہو چکی ہے، دوسری جانب ان لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ لبنانی عوام، فوج اور اسلامی مقاومت اب پست ہو چکی ہے۔
یہ تو تھی اسلامی مقاومت کے دشمنوں کی بات مگر دوسری جانب خود حزب اللہ اور اس کے حامی کچھ اور کہتے ہیں جس سے اسرائیل اچھی طرح واقف ہے اس لیے کہ حزب اللہ نے 2006ء میں ایک ماہ سے کچھ زیادہ روز میں اسرائیل کے خوف کو ایسا بڑھا دیا تھا کہ نچلے لوگوں کے پست خیالات پر پانی پھر گیا تھا، اس کے بعد جو اسرائیلی موقف سامنے آئے جسے تین عنوانات میں ڈال سکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے میڈیا کے ذریعے معلومات کا حصول ہے جس کا کام صرف افواہیں پھیلانا ہے، اس کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ ان کا کیا ردعمل ہوتا ہے پھر دونوں صورتوں میں اسرائیل اپنی اطلاعاتی معلومات کو پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ردعمل کرتا ہے دوسرا یہ کہ خبر پھیلانا کہ وہ اپنے دشمن کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ سب کچھ اسے معلوم ہے، اس کے بعد آخر میں ڈرانا اور دھمکانا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے روز عاشورہ کو خطاب کرتے ہوئے ایسے تمام حقائق کا انکشاف کیا جہاں حزب اللہ ڈیڑھ سال سے زیادہ شامی فورسز کے ساتھ مل کر اپنے وطن اور مقاومت کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اب لوگ حزب اللہ کی طاقت جاننا چاہتے ہیں تو جیسے سید حسن نصراللہ نے اعلان کر کے بتا دیا کہ اگر اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ تیسری جنگ کا آغاز کرے تو حزب اللہ تیار ہے اور حزب اللہ کے میزائل اب تل ابیب کے ایئرپورٹ اور اسرائیلی بندرگاہوں کو نشانہ بنائینگے جس کا اسرائیل سوچ بھی نہیں سکتا۔
حزب اللہ کی پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی کاز اولین ترجیحات میں سے ہے، سو مقاومت کا وجود ہی اسرائیل کے وجود اور اس کے مظالم کا ردعمل ہے، لہٰذا مقاومت جو کوئی بھی اقدام کریگی وہ اسرائیل کے خلاف ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ جب حزب اللہ شام چلی گئی تو وہ اس لیے گئی تا کہ وہ وہاں مقاومت کا دفاع کرے اور اس کی اساسی مہم کا قیام کرے یعنی اسرائیل کو کھڑکھڑائے، اس کے بعد یہ کہ وہاں مقاومت کی جنگ انحراف پر مبنی نہیں تھی بلکہ اپنے اساسی ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حفاظت کی جنگ لڑ رہی تھی لہٰذا اس نے اسرائیل کو مقبوضہ علاقے میں اطمینان کے ساتھ مداخلت کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔
تیسری بات یہ کہ جتنے بھی منفی پروپیگنڈے پھیلائے گئے کہ وہاں فرقہ وارانہ جنگ ہو رہی ہے، سنی شیعہ کی جنگ ہے یا نسل پرست عرب اور غیر عرب وغیرہ، سب کا سب جھوٹ، بہتان اور دھوکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، کیونکہ حقیقی جنگ دراصل ایسے گروہوں کے درمیان تھی جن میں اسرائیل کو امریکا یہودی پالیسی کے مطابق قائم رکھنا چاہتا تھا جب کہ دوسرا گروہ اسرائیل کے خاتمے کا قائل تھا، لیکن مقاومت آج اور نہ ہی کل ہرگز جھکنے والی نہیں ہے۔
ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلامی مقاومت ''حزب اللہ'' اس نہج پر پہنچی ہے کہ وہ اسرائیل کو محاصرے میں لے کر اس پر زندگی تنگ کر سکتی ہے، اسی طرح وہ ڈرا دھمکا کر اس پر حملے کر سکتی ہے اور پھر کھلی جنگ چھیڑ کر اسے ہر شرط منوانے پر مجبور کر سکتی ہے، یہی وہ راز تھا جس کا ذکر سید حسن نصراللہ نے گزشتہ دنوں کیا تھا اور ایرانی موقف کو جو شام کی حمایت میں جا رہا تھا، یورپ کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا ہوا تھا جس کی طرف صدر بشارالاسد نے اشارہ کیا تھا۔ یہ اسلامی مقاومت ہی ہے جو اپنے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے اور کسی بھی مقابلے کے لیے ہمیشہ پرسکون ہے اور پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ تیار ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلم عرب ممالک کے حکمران تو مغربی سامراج امریکا اور اسرائیل کا ساتھ دیتے آئے ہیں لیکن حال ہی میں کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے امت کے نام پر ہی امت کو تقسیم کرنے کے لیے اور اپنی وفاداریوں کا اسرائیل کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے صرف اور صرف حزب اللہ لبنان نامی اس اسلامی مزاحمتی گروہ کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کیا ہے۔
یہ عاقبت نااندیش امت کے نام پر امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں کیونکہ یہ وہ عناصر ہیں کہ جنھوں نے پہلے قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی جدوجہد کرنیوالی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو مذہبی انتہا پسند گروہ کا نام دیا تھا اور آج ایک مرتبہ پھر یہی امت کے نام لیوا امت مسلمہ میں تقسیم کے لیے حزب اللہ لبنان کو انتہا پسند گروہ بتا کر پوری امت مسلمہ میں تقسیم کا رخنہ ڈالنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں۔
یہ عاقبت نااندیش مسلم امہ کو گمراہ کر رہے ہیں اور حماس سمیت حزب اللہ اور جہاد اسلامی فلسطین کہ جنھوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کی مثالیں 2006ء میں لبنان میں ہونے والی 33 روزہ جنگ میں، غزہ میں 2008ء میں ہونے والی 22 روزہ جنگ میں، پھر اسی طرح غزہ میں 2012ء میں اور پھر 2014ء میں 50 روزہ غزہ کی جنگ میں دیکھنے کو ملی ہیں کہ ان اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے نہ صرف فلسطین و لبنان اور القدس کا دفاع کیا بلکہ صیہونی ریاست اسرائیل کو بدترین شکست سے دوچار بھی کیا اور عالمی دہشتگرد امریکا کی بنائی گئی مشرق وسطیٰ کے لیے نئی حکمت عملیوں کا قلع قمع کر دیا۔
مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہی امت کا نام استعمال کرنیوالے آج امت کے درمیان دراڑیں ڈالنے کے لیے پاکستان میں بھی سرگرم عمل ہیں اور امت مسلمہ میں تقسیم ڈالنے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حالانکہ دور حاضر میں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام مسلمان اقوام اپنے معمولی نوعیت کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے ان تمام دشمنوں سے خواہ وہ اسرائیلی لبادے میں ہوں یا پھر اسلام کے لبادے میں داعش کی صورت میں ہوں ان کی سرکوبی کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنا چاہیے تا کہ اپنی سرزمینوں کی اور اسلام کے مقدس مقامات کا دفاع اور تحفظ کیا جائے۔
حزب اللہ سے ان عناصر کی دشمنی کے اسباب دو ہیں، ایک تو یہ حزب اللہ کو مسلمانوں کے ایک فرقہ کی جماعت کہتے ہوئے محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سے حزب اللہ اس عمل کی طرف مجبور ہوئی کہ شام میں جاری فتنہ کی سرکوبی کی جائے تا کہ شام میں اٹھنے والا فتنہ اگر ختم نہ کیا گیا تو وہ بالآخر لبنان اور فلسطین کاز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا تاہم شام میں حزب اللہ کا دہشتگرد گروہوں کے خلاف جنگ میں وارد ہونا خود لبنانی مقاومت اور لبنان کے دفاع اور فلسطین کاز کی خدمت کے لیے تھا، تاہم یہ بات ان امت کے دشمنوں کو ناگوار گزری اور انھوں نے حزب اللہ کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کردیا جہاں تک شام میں حزب اللہ کا دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں وارد ہونے کا تعلق ہے تو یہ کوئی شام پر یلغار ہرگز نہیں تھی بلکہ وہ تو وہاں کی مشکلات کے حل کے لیے گئی تھی۔ اس وقت سے یہ خبریں بڑی شدت سے اڑنے لگیں کہ حزب اللہ اپنے دشمن (اسرائیل) کے سامنے خاضع ہو چکی ہے، دوسری جانب ان لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ لبنانی عوام، فوج اور اسلامی مقاومت اب پست ہو چکی ہے۔
یہ تو تھی اسلامی مقاومت کے دشمنوں کی بات مگر دوسری جانب خود حزب اللہ اور اس کے حامی کچھ اور کہتے ہیں جس سے اسرائیل اچھی طرح واقف ہے اس لیے کہ حزب اللہ نے 2006ء میں ایک ماہ سے کچھ زیادہ روز میں اسرائیل کے خوف کو ایسا بڑھا دیا تھا کہ نچلے لوگوں کے پست خیالات پر پانی پھر گیا تھا، اس کے بعد جو اسرائیلی موقف سامنے آئے جسے تین عنوانات میں ڈال سکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے میڈیا کے ذریعے معلومات کا حصول ہے جس کا کام صرف افواہیں پھیلانا ہے، اس کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ ان کا کیا ردعمل ہوتا ہے پھر دونوں صورتوں میں اسرائیل اپنی اطلاعاتی معلومات کو پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ردعمل کرتا ہے دوسرا یہ کہ خبر پھیلانا کہ وہ اپنے دشمن کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ سب کچھ اسے معلوم ہے، اس کے بعد آخر میں ڈرانا اور دھمکانا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے روز عاشورہ کو خطاب کرتے ہوئے ایسے تمام حقائق کا انکشاف کیا جہاں حزب اللہ ڈیڑھ سال سے زیادہ شامی فورسز کے ساتھ مل کر اپنے وطن اور مقاومت کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اب لوگ حزب اللہ کی طاقت جاننا چاہتے ہیں تو جیسے سید حسن نصراللہ نے اعلان کر کے بتا دیا کہ اگر اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ تیسری جنگ کا آغاز کرے تو حزب اللہ تیار ہے اور حزب اللہ کے میزائل اب تل ابیب کے ایئرپورٹ اور اسرائیلی بندرگاہوں کو نشانہ بنائینگے جس کا اسرائیل سوچ بھی نہیں سکتا۔
حزب اللہ کی پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی کاز اولین ترجیحات میں سے ہے، سو مقاومت کا وجود ہی اسرائیل کے وجود اور اس کے مظالم کا ردعمل ہے، لہٰذا مقاومت جو کوئی بھی اقدام کریگی وہ اسرائیل کے خلاف ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ جب حزب اللہ شام چلی گئی تو وہ اس لیے گئی تا کہ وہ وہاں مقاومت کا دفاع کرے اور اس کی اساسی مہم کا قیام کرے یعنی اسرائیل کو کھڑکھڑائے، اس کے بعد یہ کہ وہاں مقاومت کی جنگ انحراف پر مبنی نہیں تھی بلکہ اپنے اساسی ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حفاظت کی جنگ لڑ رہی تھی لہٰذا اس نے اسرائیل کو مقبوضہ علاقے میں اطمینان کے ساتھ مداخلت کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔
تیسری بات یہ کہ جتنے بھی منفی پروپیگنڈے پھیلائے گئے کہ وہاں فرقہ وارانہ جنگ ہو رہی ہے، سنی شیعہ کی جنگ ہے یا نسل پرست عرب اور غیر عرب وغیرہ، سب کا سب جھوٹ، بہتان اور دھوکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، کیونکہ حقیقی جنگ دراصل ایسے گروہوں کے درمیان تھی جن میں اسرائیل کو امریکا یہودی پالیسی کے مطابق قائم رکھنا چاہتا تھا جب کہ دوسرا گروہ اسرائیل کے خاتمے کا قائل تھا، لیکن مقاومت آج اور نہ ہی کل ہرگز جھکنے والی نہیں ہے۔
ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلامی مقاومت ''حزب اللہ'' اس نہج پر پہنچی ہے کہ وہ اسرائیل کو محاصرے میں لے کر اس پر زندگی تنگ کر سکتی ہے، اسی طرح وہ ڈرا دھمکا کر اس پر حملے کر سکتی ہے اور پھر کھلی جنگ چھیڑ کر اسے ہر شرط منوانے پر مجبور کر سکتی ہے، یہی وہ راز تھا جس کا ذکر سید حسن نصراللہ نے گزشتہ دنوں کیا تھا اور ایرانی موقف کو جو شام کی حمایت میں جا رہا تھا، یورپ کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا ہوا تھا جس کی طرف صدر بشارالاسد نے اشارہ کیا تھا۔ یہ اسلامی مقاومت ہی ہے جو اپنے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے اور کسی بھی مقابلے کے لیے ہمیشہ پرسکون ہے اور پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ تیار ہے۔