نریندر مودی کا نیا جال
کشمیریوں نے ہڑتال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھارتی وزیراعظم کے کسی دام میں پھنسنے پر آمادہ نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جسے حل کرنے کی اب تک کی گئی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں حتیٰ کہ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں مگر یہ گتھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید الجھتی چلی گئی۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے مگر ہر مذاکرات کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ ہوتا رہا کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا کیونکہ اس مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں جنگ نہیں۔
اس نوعیت کے بیانات سے امید کی ڈور بندھی رہی کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا تو جلد یا بدیر مسئلہ کشمیر کا پرامن حل تلاش کر لیا جائے گا۔ میاں محمد نواز شریف کے سابق دور حکومت میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کا دور چلا' اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان تشریف لائے اور دونوں رہنمائوں کی اس ملاقات سے یہ آس پیدا ہوئی کہ جلد مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ صدر مشرف کے دورمیں بھی بھارت سے مذاکرات ہوئے اور صدر مشرف بھارت تشریف لے گئے۔
میاں محمد نواز شریف کی موجودہ حکومت آنے کے بعد یہ امید قائم ہوئی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو جائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ مگر بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے برعکس زیادہ شدت پسند اور انتہا پسند نکلے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ جاری رکھا اور جب سے انھوں نے اقتدار کی باگ تھامی ہے ان کے تندوتیز بیانات میں کمی آنے کے بجائے اس میں اور اضافہ ہو گیا ہے بلکہ مزید آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کرا دیا۔
کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر ہونے والی اس فائرنگ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آ گئی۔ پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوصف بھارتی فوج نے فائرنگ کا سلسلہ بند نہیں کیا بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ایسے بیانات سامنے آنے لگے کہ وہ یہ سب کچھ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کے بارے میں یہ امید تھی کہ برسراقتدار آنے کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آئے گی اور وہ جس انداز میں بھارت میں صنعتی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں پاکستان سے بھی اپنے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دیں گے۔ مگر ان کے اب تک اٹھائے گئے اقدامات سے یہ امید بھی مدھم پڑتی جا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور پولنگ 25 نومبر سے شروع ہو کر 20 دسمبر تک جاری رہے گی، نتائج کا اعلان 23 دسمبر کو کیا جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ ہفتہ کو مقبوضہ کشمیر میں انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران انھوں نے نیا شوشہ چھوڑتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو پاکستان کی محبت نہیں' ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے' کشمیری نوجوانوں کو روزگار اور ترقی کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے سیلاب سے متاثرہ کشمیریوں کو اس بات کا دلاسہ دیا کہ وہ وہاں ان کے آنسو پونچھنے آئے ہیں۔ انھوں نے نئی چال چلتے ہوئے کہا کہ مذہب کو سیاست سے جوڑنے کی ضرورت نہیں' کشمیری صرف کشمیری ہے۔ نریندر مودی ایک جانب کشمیریوں کو روز گار اور ترقی کا لالچ دے کر ان کے دل سے پاکستان کی محبت نکالنے کا کھیل کھیل رہے اور انھیں یقین دلانے کے لیے سرگرم ہیں کہ وہ صرف کشمیری ہیں ان کا جینا مرنا صرف کشمیر کے ساتھ ہے تو دوسری جانب بھارتی فورسز نے کشمیریوں کو شہید کرنے اور نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
حریت رہنما سید علی گیلانی نے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ترال میں شہید ہونے والے تین نوجوانوں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ بھارتی وزیراعظم نے یہ سمجھا ہے کہ وہ نوجوانوں کو روز گار کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسا لیں گے اور جو مزاحمت کر رہے ہیں انھیں شہید کر دیا جائے اس طرح کشمیریوں کا جذبہ حریت ماند پڑ جائے گا اور تحریک آزادی کشمیر دم توڑ دے گی۔ مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ کشمیری گزشتہ 68 سال سے بھارتی فورسز کے مظالم برداشت کر رہے اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور اب بھی کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کر رہے۔
جوں جوں بھارتی مظالم کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا ہے توں توں کشمیریوں کا جذبہ حریت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے دورے کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی کال پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی' اس موقع پر وادی میں تمام کاروباری مراکز' اسکول اور دفاتر بند رہے۔ کشمیریوں نے ہڑتال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھارتی وزیراعظم کے کسی دام میں پھنسنے پر آمادہ نہیں اور اپنی آزادی سے کم کسی سمجھوتے پر راضی نہیں ہوں گے۔
یہ اطلاعات بھی منظرعام پر آرہی ہیں کہ نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر بھارت کا حصہ بنانے کی سازش کر رہے ہیں اور وہ اس مقصد کے لیے مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ بروئے کار لا رہے ہیں۔ اس طرح وہ آئینی طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہا اور جب بھی مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو وہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔
گزشتہ دنوں اس نے سیکریٹری خارجہ کے مذاکرات بھی بلاجواز معطل کر دیے اور یہ رٹ لگانا شروع کر دی کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیریوں کو شریک نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کے روز مظفر آباد میں آزاد کشمیر کونسل سے خطاب کرتے ہوئے بھارت پر واضح کر دیا کہ کشمیریوں کے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے' کشمیر کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا' پاکستان کشمیریوں کی حمایت کرتا رہے گا' اس مسئلے کو ہر سطح پر اٹھائیں گے۔
بھارتی حکومت کے مذاکرات سے راہ فرار کے حربے اور جارحانہ رویے کے سامنے آنے کے بعد پاکستانی حکومت نے امریکا اور دیگر عالمی قوتوں پر زور دینا شروع کردیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارتی حکومت پر اپنا دبائو بڑھائیں لیکن پاکستان کے اس مطالبے کے جواب میں امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کا واضح اور دو ٹوک ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے قطعی طور پر آمادہ نہیں کیونکہ وہ اس کے ساتھ اپنے دفاعی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارت جنوبی ایشیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی ایک بڑی معاشی منڈی ہے اور امریکا اس سے زیادہ سے زیادہ معاشی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دبائو بڑھانے کے رویے سے گریز کر رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے لیے ایک نئی مشکل اور پیچیدہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ ایک جانب بھارت کی انتہا پسند حکومت پاکستان سے مذاکرات کے بجائے سرحدوں پر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے تو دوسری جانب عالمی قوتیں بھی عملی کردار ادا کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
یہ سب کچھ کسی عالمی سازش اور منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے جو مستقبل میں پاکستان کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے روایتی انداز چھوڑ کر بھرپور اور پرجوش مہم چلانا ہو گی اور دنیا کو قائل کرنا ہو گا کہ مسئلہ کشمیر پر موجودہ بھارتی حکومت کا رویہ خطے کے امن کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
اس نوعیت کے بیانات سے امید کی ڈور بندھی رہی کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا تو جلد یا بدیر مسئلہ کشمیر کا پرامن حل تلاش کر لیا جائے گا۔ میاں محمد نواز شریف کے سابق دور حکومت میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کا دور چلا' اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان تشریف لائے اور دونوں رہنمائوں کی اس ملاقات سے یہ آس پیدا ہوئی کہ جلد مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ صدر مشرف کے دورمیں بھی بھارت سے مذاکرات ہوئے اور صدر مشرف بھارت تشریف لے گئے۔
میاں محمد نواز شریف کی موجودہ حکومت آنے کے بعد یہ امید قائم ہوئی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو جائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ مگر بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے برعکس زیادہ شدت پسند اور انتہا پسند نکلے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ جاری رکھا اور جب سے انھوں نے اقتدار کی باگ تھامی ہے ان کے تندوتیز بیانات میں کمی آنے کے بجائے اس میں اور اضافہ ہو گیا ہے بلکہ مزید آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کرا دیا۔
کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر ہونے والی اس فائرنگ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آ گئی۔ پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوصف بھارتی فوج نے فائرنگ کا سلسلہ بند نہیں کیا بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ایسے بیانات سامنے آنے لگے کہ وہ یہ سب کچھ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کے بارے میں یہ امید تھی کہ برسراقتدار آنے کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آئے گی اور وہ جس انداز میں بھارت میں صنعتی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں پاکستان سے بھی اپنے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دیں گے۔ مگر ان کے اب تک اٹھائے گئے اقدامات سے یہ امید بھی مدھم پڑتی جا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور پولنگ 25 نومبر سے شروع ہو کر 20 دسمبر تک جاری رہے گی، نتائج کا اعلان 23 دسمبر کو کیا جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ ہفتہ کو مقبوضہ کشمیر میں انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران انھوں نے نیا شوشہ چھوڑتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو پاکستان کی محبت نہیں' ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے' کشمیری نوجوانوں کو روزگار اور ترقی کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے سیلاب سے متاثرہ کشمیریوں کو اس بات کا دلاسہ دیا کہ وہ وہاں ان کے آنسو پونچھنے آئے ہیں۔ انھوں نے نئی چال چلتے ہوئے کہا کہ مذہب کو سیاست سے جوڑنے کی ضرورت نہیں' کشمیری صرف کشمیری ہے۔ نریندر مودی ایک جانب کشمیریوں کو روز گار اور ترقی کا لالچ دے کر ان کے دل سے پاکستان کی محبت نکالنے کا کھیل کھیل رہے اور انھیں یقین دلانے کے لیے سرگرم ہیں کہ وہ صرف کشمیری ہیں ان کا جینا مرنا صرف کشمیر کے ساتھ ہے تو دوسری جانب بھارتی فورسز نے کشمیریوں کو شہید کرنے اور نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
حریت رہنما سید علی گیلانی نے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ترال میں شہید ہونے والے تین نوجوانوں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ بھارتی وزیراعظم نے یہ سمجھا ہے کہ وہ نوجوانوں کو روز گار کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسا لیں گے اور جو مزاحمت کر رہے ہیں انھیں شہید کر دیا جائے اس طرح کشمیریوں کا جذبہ حریت ماند پڑ جائے گا اور تحریک آزادی کشمیر دم توڑ دے گی۔ مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ کشمیری گزشتہ 68 سال سے بھارتی فورسز کے مظالم برداشت کر رہے اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور اب بھی کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کر رہے۔
جوں جوں بھارتی مظالم کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا ہے توں توں کشمیریوں کا جذبہ حریت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے دورے کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی کال پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی' اس موقع پر وادی میں تمام کاروباری مراکز' اسکول اور دفاتر بند رہے۔ کشمیریوں نے ہڑتال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھارتی وزیراعظم کے کسی دام میں پھنسنے پر آمادہ نہیں اور اپنی آزادی سے کم کسی سمجھوتے پر راضی نہیں ہوں گے۔
یہ اطلاعات بھی منظرعام پر آرہی ہیں کہ نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر بھارت کا حصہ بنانے کی سازش کر رہے ہیں اور وہ اس مقصد کے لیے مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ بروئے کار لا رہے ہیں۔ اس طرح وہ آئینی طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہا اور جب بھی مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو وہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔
گزشتہ دنوں اس نے سیکریٹری خارجہ کے مذاکرات بھی بلاجواز معطل کر دیے اور یہ رٹ لگانا شروع کر دی کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیریوں کو شریک نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کے روز مظفر آباد میں آزاد کشمیر کونسل سے خطاب کرتے ہوئے بھارت پر واضح کر دیا کہ کشمیریوں کے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے' کشمیر کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا' پاکستان کشمیریوں کی حمایت کرتا رہے گا' اس مسئلے کو ہر سطح پر اٹھائیں گے۔
بھارتی حکومت کے مذاکرات سے راہ فرار کے حربے اور جارحانہ رویے کے سامنے آنے کے بعد پاکستانی حکومت نے امریکا اور دیگر عالمی قوتوں پر زور دینا شروع کردیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارتی حکومت پر اپنا دبائو بڑھائیں لیکن پاکستان کے اس مطالبے کے جواب میں امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کا واضح اور دو ٹوک ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے قطعی طور پر آمادہ نہیں کیونکہ وہ اس کے ساتھ اپنے دفاعی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارت جنوبی ایشیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی ایک بڑی معاشی منڈی ہے اور امریکا اس سے زیادہ سے زیادہ معاشی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دبائو بڑھانے کے رویے سے گریز کر رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے لیے ایک نئی مشکل اور پیچیدہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ ایک جانب بھارت کی انتہا پسند حکومت پاکستان سے مذاکرات کے بجائے سرحدوں پر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے تو دوسری جانب عالمی قوتیں بھی عملی کردار ادا کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
یہ سب کچھ کسی عالمی سازش اور منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے جو مستقبل میں پاکستان کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے روایتی انداز چھوڑ کر بھرپور اور پرجوش مہم چلانا ہو گی اور دنیا کو قائل کرنا ہو گا کہ مسئلہ کشمیر پر موجودہ بھارتی حکومت کا رویہ خطے کے امن کے لیے خطرے کا باعث ہے۔