پاکستان ایک نظر میں مظفرآباد سے تاؤ بٹ تک

حکومت سیاحوں کیا عام شہریوں کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتی ہے جس سے اس شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔


عدنان قریشی November 24, 2014
حکومت سیاحوں کیا عام شہریوں کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتی ہے جس سے اس شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ فوٹو عدنان قریشی

شام کے سائے بڑھ رہے تھے، ہر چیز پر سکوت طاری ہو رہا تھا۔ رات کے اندھیرے آسمان کے کناروں سے گہرے ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ شام ڈھلتے ہی ہم شاردہ ویلی پہنچ گئے ۔ شاردہ اپنی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے باعث پورے خطہ اور پاکستان میں مشہورہے اور لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ہر سال پوری دنیا سے لاکھوں سیاح سیروسیاحت کی عرض سے یہاں کا رخ کرتے اور قدرت کے دلفریب نظاروں سے محظوظ ہو تے ہیں۔ شاردہ میں گھروں کی تعمیراور تزئین و آرائش میں لکڑی کابھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔شاردہ میں سیاحوں کی سہولیات کے پیش نظر سرکاری گیسٹ ہاوسز کے علاوہ کئی نجی ریسٹ ہاوسز بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔تاہم یہ گیسٹ ہاوسز سیاحوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ اللہ اکبر کی صدائیں مساجد سے بلند ہو رہی تھیں۔ نماز مغرب ہم نے جامعہ مسجد حقانیہ شاردہ میں ادا کی، اور فوراً بعد اپنی منزل مقصود کی طرف دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔


تھکا دینے والے سفر کے بعد 10 دس بجے ہم 9 افراد کیل پہنچ چکے تھے۔ جہاں ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر سجاد صاحب ہماری آمد کے منتظر تھے۔ رات کا کھانا تیار تھا۔ ہم نے پیٹ بھر کرکھانے پر ہاتھ صاف کئے۔ کھانا تناول فرمانے کے بعددن بھر کی تھکاوٹ اور مسلسل سفر سے نیند کا غلبہ چھا گیااور ہم نے نیند میں ہی عافیت جانی۔


اگلے دن ناشتہ کرنے کے بعد ہم کیل کے سیاحتی مقامات کی طرف چل دیئے۔ کیل میں ہر سال سول ملٹری تعاون سے جون کہ مہینے سے سالانہ نیلم فیسٹیول کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ فیسٹول میں کھیلوں کے مقابلے، میوزیکل شو، پیراگلائڈنگ اور مختلف اشیاء کے اسٹال بھی لگائے جاتے ہیں۔ فیسٹول کے احتتام پرآرمی کے سٹیشن کمانڈر اور وزیرجیتنے والی ٹیموں میں انعامات اور شیلڈ تقسیم کی جاتی ہیں۔ کیل اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے وادی نیلم میں شاید ہی کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ کیل میں بھی کئی اہم تاریخی، سیاحتی ،مقامات واقع ہیں۔ جن میں سب سے اہم اور قابل ذکر اڑنگ کیل کا خوبصورت علاقہ ہے جو کیل سے چند کلو میٹر کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔اڑنگ کیل سرسبز اور میدانی علاقہ ہے۔ چاروں اطراف سے برف پوش پہاڑوں نے سرسبز اور میدانی علاقہ کو گھیر رکھا ہے ۔اس علاقہ میں کئی ریسٹ ہاوسز اور مساجد واقع ہیں۔ مساجد کے ساتھ خصوصی مہمان خانے بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔ یہاں بھی زیادہ تر مکان لکٹری سے تعمیر کئے جاتے ہیں۔ لیکن علاقہ میں سرکاری اسپتال، سڑک کی عدم تعمیر کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاحوں کی سہولیات کے لئے کیل سے اڑنگ کیل تک چیئر لفٹ کا انتظام بھی ہے مگر بدقسمتی سے چیئر لفٹ خراب ہونے اور مقامی تنازعہ کی وجہ سے بند پڑی ہے جس سے سیاحوں کو علاقہ تک پہنچنے میں شدید مشکلات اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


کیل سے تائو بٹ سفر کے دوران کئی اہم اور خوبصور ت مقامات واقع ہیں جن میں سرداری قابل ذکر ہے۔ سرداری بھی اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے علاقہ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ یہاں مسجدیں آباد ہیں اور لوگوں کا مذہب کی طرف رحجان بہت زیاد ہے۔ مکان کچے اور لوگ سچے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں موجود رتی گلی جھیل اپنی خوبصورتی کے باعث پوری دنیا میں مشہور اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔


مظفرآباد سے تاؤ بٹ تک کے سفر کی خاص بات یہ ہے کہ تمام سفر دریائے نیلم کے کنارے ہے۔ دوران سفر رریائے نیلم کی ٹھنڈی اور سرد ہوائیں سفر کا مزا دوبالا کر دیتی ہیں۔ مظفرآباد سے شاردہ تک سڑکیں کشادہ ، پختہ ہیں اور مجموعی صورتحال کافی حد تک بہترہے، تاہم کیل سے تاؤ بٹ تک سڑکوں کی حالت ابتر ہے۔ ہر سال ان بکرے والوں کے ریوڑ کی وجہ سے کئی حادثات پیش آتے ہیں۔ اگر آپ موٹر سائیکلوں پر سفر کر رہے ہوں تواحتیاط بہت ضروری ہے۔ ذرا سے غلطی آپ کی زندگی کی آخری اور سنگین غلطی ثابت ہو سکتی ہے ۔


پاکستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ نے جہاں بنیادی انفرا سٹرکچر اور معیشت کو نقصان پہنچایا وہیں دوسری طرف سیاحت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کسی بھی ملک میں سیاحت کے شعبہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ سیاحت نہ صرف ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ اس سے ملکی ثقافت کی ترویج و ترقی کو فروغ دینے میں بھی اہم مقام حاصل ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ شعبہ زوال کی طرف جارہا ہے۔ چند سال قبل اندرون وبیرون ملک سے کئی سیاح پاکستان کے شمالی علاقہ جات، سوات، کاغان اور ہنزہ کے علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ مگر بدقسمتی سے دن بدن بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے لوگوں نے ان علاقوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ حکومت سیاحوں کیا عام شہریوں کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے اس شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔


سیاحت کے حوالے سے وادی نیلم کو آزاد کشمیر ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی اہم مقام حاصل ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے نیلم ویلی میں سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گذشتہ سال8 لاکھ سیاحوں نے وادی نیلم کا رخ کیا۔ اس سال بھی سیاحوں کی تعداد8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اوریہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ لیکن دوسری طرف سیاحوں کو سفری اور رہائشی مشکلات کا سامنا ہے۔ مظفرآباد سے تاؤ بٹ تک سرکاری گیسٹ ہاؤسز کی تعداد تقریباً 10 ہے جبکہ 60 سے زائد نجی ریسٹ ہائوسز بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔ ریسٹ ہاؤسز کی یہ تعداد سیاحوں کی رہائشی سہولیات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ سیاح مساجد اور لوگوں کے گھروں میں سر چھپانے پر مجبور ہیں۔ اکثر سیاح رات کو فیملی کے ہمراہ رہائش کے لئے مارے مارے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔دوسری طرف موبائل کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سیاح سخت پریشان دکھائی دیتے ہیں اور لوکل پی سی اوز کے باہر قطار در قطار لوگ اپنے پیاروں سے بات کرنے اور خیریت کی اطلاع دینے کے لئے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔


میری نظر میں سیاحت کو فروغ دینے میں امن و امان کا بڑا عمل دخل ہے۔ سیاحوں کے جان ومال کے تحفظ، سفری اور رہائشی ضروریات کا خیال رکھناحکومت وقت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے بیشتر سیاحوں کا کہنا تھا کہ انہیں رہائشی سہولیات میں سخت مشکلات پیش آرہی ہیں اور حکومت کو اس سلسلے میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔


یہاں پاک فوج کا کردار قابل تعریف و تحسین ہے۔ پاک فوج نے علاقہ کی خوبصورتی کو قائم و دائم رکھنے کے لئے جگہ جگہ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ترغیبی بورڈ آویزاں کر رکھے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ جنگلات کے تحفظ اور کٹائی کے حوالے سے سخت قوانین بنائے،کیونکہ علاقہ کی خوبصورتی اور سیاحوں کی علاقہ میں آمد اور دلچسپی جنگلات کی مرہون منت ہے۔ وفاق نے حالیہ پیش کئے جانے والے بجٹ میں مظفرآباد سے تاؤ بٹ تک سڑکوں کی تعمیر و ترقی اور پختگی کے حوالہ سے خطیر رقم مختص کی ہے، لیکن کوئی خاطر خواہ کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔


سیاحوں کی وادی نیلم آمد سے نہ صرف معیثت پر مثبت اثر پڑے گا بلکہ اس سے مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی اورمعیار زندگی بھی بلند ہوگا۔ وادی نیلم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار قدرتی و معدنی زخائر سے نوازا ہے۔ دریائے نیلم میں شامل ہونے والے کئی چھوٹے بڑے ندی نالوں سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔جو نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے بلکہ اس سے آزادکشمیر میں اندھیروں سے نجات کا حصول بھی ممکن ہے۔


اگر آپ وادی نیلم کی سیر کیلئے جانا چاہتے ہیں تو چند احتیاظی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھئیے۔ دوران سفر اپنی تمام سفری دستاویزات اور شناختی کارڈ ہمراہ رکھیں۔ بصورت دیگر آپ کو سفر کرنے سے روک دیا جائے گا۔ ۔پاک فوج سے مکمل تعاون ہی آپ کے محفوظ سفر کی ضمانت ہے۔ نیلم ویلی آنے سے قبل اپنی رہائش کا پیشگی بندوبست فرما لیں بصورت دیگر آپ کو رات اختر شماری کرتے ہوئے سڑکوں پربسر کرنا پڑ سکتی ہے۔ باقی میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ سیاحت کے فروغ کے لئے خاطر خواہ اقدامات کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح ہماری خوبصورت وادیوں کا رخ کرسکیں، اس طرح وادی کے لوگوں کو بھی زریعہ معاش ملے گا اور حکومت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |