نصاب کی کہانی

تعلیمی اور علمی حلقوں کی صائب رائے ہے کہ نصاب کی تشکیل کا فرض صوبوں کے پاس ہی رہے۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تغیر و تبدل کا حکومتی سطح پر فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نصاب میں کون سی ''کتاب'' اور کون سا مواد ہونا چاہیے؟ نصاب میں کون سا مواد شامل اور نصاب سے کون سا مواد خارج ہونا چاہیے؟ یہ اور نصاب سے جڑے ایسے تمام معاملات اور امور کا اختیار صوبوں سے لے کر ایچ ای سی کے سپرد کردیا گیا ہے۔

حکومت کے اس فیصلے پر مختلف طبقات کی جانب سے ردعمل سامنے آرہا ہے، سماجی، مذہبی اور تعلیمی حلقے اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے الفاظ میں اس حکومتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان طبقات کے تحفظات کے الفاظ اور انداز جدا جدا ہیں مگر سب ایک نکتے پر متفق ہیں کہ نصاب کی بناوٹ اور تدوین کا اختیار صوبوں کے پاس ہونا چاہیے۔ ملک کے ہر صوبے کے زمینی، معاشرتی اور سماجی حقائق ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

لہٰذا ماہرین تعلیم اور سماجیات سے جڑے طبقات کے خیال میں چونکہ ہر صوبے کے ''کمان دار'' اور تعلیمی حلقے اپنے صوبے کے زمینی حقائق سے بہتر طور پر آگاہ ہیں، سو وہ اپنی نئی نسل کی علمی آبیاری کے لیے مفید اور جامع انداز میں ایسے نصاب کی تشکیل کرسکتے ہیں جو نہ صرف قومی اور عہد حاضر کے امنگوں پر پورا اتر سکے گا، بلکہ صوبوں میں اس کے نفاذ اور اس سے نتائج حاصل کرنے میں کماحقہ کامیابی مل سکے گی۔

نصاب کی تشکیل اور تدوین کا اختیار ایچ ای سی کو سونپے جانے کے حکومتی فیصلے پر تعلیمی اور علمی حلقے اس بنا پر معترض ہیں کہ ایچ ای سی میں بیٹھے ذمے داران چونکہ صوبوں کے زمینی حقائق، وہاں کے بودوباش اور مسائل اور وسائل سے کامل آگاہی نہیں رکھتے، لہٰذا ایچ ای سی والے جو نصاب تشکیل دیں گے وہ صوبوں کے ثقافتی، سماجی اور زمینی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہوگا۔ تعلیمی اور علمی حلقوں کی صائب رائے ہے کہ نصاب کی تشکیل کا فرض صوبوں کے پاس ہی رہے۔

اسی میں ملک کے تعلیمی نظام اور نئی نسل کا بھلا ہے۔ بہرطور اگر حکومت ایچ ای سی سے ہی نصاب کی تشکیل کے فیصلے پر قائم رہتی ہے پھر صوبوں کی شکایات دور کرنے کا مناسب طریقہ جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ نصاب کی تشکیل کا اختیار ایچ ای سی کے ماہر دماغوں پر کامل طور پر نہ چھوڑا جائے۔


سب کی شکایات کی الجھن کی سلجھن کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پرائمری کے نصاب کی تشکیل میں متعلقہ صوبوں سے پرائمری نصاب سے متعلقہ ماہرین کی کمیٹی بنالی جائے جس کی سفارشات کی روشنی میں ایچ ای سی پرائمری سطح کا نصاب مرتب کرے، یہی متذکرہ اصول یا طریقہ ثانوی اور کالج سطح کے نصاب کی تشکیل کے وقت بھی اختیار کیا جائے، اس صورت میں حکومتی فیصلے پر مختلف علمی و تعلیمی حلقوں کی جانب سے رواں تنقید کا دروازہ بند کیا جاسکتا ہے۔

اس وقت پرائمری، ثانوی اور کالج سطح پر نافذ نصاب میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں، خاص طور پر پرائمری سطح کے نصاب میں ''آسان سے مشکل'' کی جانب اہم ترین نصابی و تدریسی کلیے کو پس پست ڈالا گیا ہے۔ جب سے پاکستان میں غیر ملکی ''فنڈنگ'' نے زور پکڑا ہے، پرائمری سطح کے نصاب میں ملکی اقدار کو پس پشت ڈال کر حکومت کو فنڈنگ کرنے والے ممالک اور این جی اوز کی من مرضی کا نصاب طلبا و طالبات اور اساتذہ پر تھوپے جانے کی روایت بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔

تعلیم کے میدان میں در آنے والی اس غیرملکی ''بدعت'' کی وجہ سے بہت سے مضامین میں طلبا کی ذہنی استعداد اور صلاحیت کو یکسر نظر انداز کرکے نہایت مشکل اور ثقیل مواد کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے، خاص طور پر سائنس اور انگلش کے مضامین میں سوئم، چہارم اور پنجم کے نصاب میں اتنے مشکل اور پیچیدہ الفاظ کی ''دونی'' دی گئی ہے جن کا مفہوم سمجھنا دور کی بات، ان الفاظ کا تلفظ بھی معصوم طلبا و طالبات کے ذہنی رسائی سے باہر ہے۔

آپا دھاپی قسم کی حکومتی پالیسیوں کی روانی اور پھر ابتدائی جماعتوں میں طلبا و طالبات پر یک دم سے انتہائی مشکل نصاب کا بوجھ لادنا، یہ وہ دو وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ''ڈراپ آئوٹ'' کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ وہ طلبا و طالبات جو قدرتی اور طبعی لحاظ سے دو کلو گرام وزن اٹھا سکتے ہیں، حکومتی دماغوں کی جانب سے ان پر دو ٹن بوجھ لاد دینے سے طلبا و طالبات بددل ہوکر اسکولوں سے باغی ہو رہے ہیں۔

نصاب کی تشکیل میں چند عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، یہ کہ ہماری آبادی کا مجموعی شعور کیا ہے؟ کیا مروجہ نصاب طلبا و طالبات کی عمر کے لحاظ سے ان کی ذہنی صلاحیت کے عین مطابق ہے؟ کیا نصاب قومی امنگوں اور ضروریات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ جب تک ہمارے اسکولوں، کالجوں کا نصاب طلبا و طالبات کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق نہیں ہوگا اس وقت تک نئی نسل کی بہتر انداز میں تربیت کا خواب، خواب ہی رہے گا۔
Load Next Story