رشتے کی تلاش
دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے جب جاکر کوئی بات مثبت رخ اختیار کرتی ہے۔
ایک دن ہم آرام کے موڈ میں تھے، مگر وائے قسمت آرام ہماری قسمت میں کہاں؟ دیکھا کہ ہماری ایک دوست چلی آرہی ہیں، آتے ہی دوہتڑ ہمارے لگائے اور کہا تم یہاں آرام سے بیٹھی ہو، یہاں ہمارا آرام و سکون لٹا ہوا ہے۔
ہم نے ان کے چہرے پر ڈرتے ڈرتے نظر ڈالی، لال بھبھوکا چہرہ ان کے اندرونی جذبات کا پتا دے رہا تھا کہ اس وقت وہ حالت طیش کی کس ڈگری پر ہیں، اس لیے ہم نے ان کو پکڑ کر بٹھایا، بیٹھتے ہی کہنے لگیں بڑی صحافی اور ماہر تعلیم بنی پھرتی ہو، ہم نے کہا کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ تم اپنا مدعا کہو، کفن پھاڑ کر بولیں۔ ''سب سکھیوں کی شادی ہوگئی میں رہ گئی کنواری۔'' ہم تو یہ سن کر ہی سٹ پٹا گئے اور کہا اس میں ہمارا کیا قصور ہے، ہم کب تمہاری شادی میں رکاوٹ بنے، کس موقع پر ہم نے کہا یہ شادی نہیں ہوسکتی، کچھ تو بتاؤ یہ الزام ہم پر ہی کیوں؟ ہماری آہ و بکا نے انھیں تھوڑا نرمی اختیار کرنے پر مجبور کردیا اور کہنے لگیں تم ہر موضوع پر قلم اٹھاتی ہو، مگر کبھی سوچا کہ جن لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی جب کہ وہ خوبصورت بھی ہوں یہ کہہ کر آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر فخر سے مسکرائیں پھر آگے ارشاد ہوا، تعلیم یافتہ ہوں، سگھڑ ہوں، مگر پھر بھی گھر والوں کے طعنوں تشنوں کے لیے زندہ ہوں تو کیا یہ قابل فخر بات ہے؟ ہم نے کہا بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
تم یہ بتاؤ ہم سے کیا چاہتی ہو، ہمارا بس چلے تو کسی کو پکڑ کے ابھی تمہارے بول پڑھوا دیں مگر محترمہ بات یہ ہے کہ یہ وہ لڈو ہیں جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ فرمایا انھوں نے بہتر یہ ہے کہ یہ لڈو کھا کر پچھتایا جائے۔ ہم نے کہا چلو یہ بھی ٹھیک ہے جو تمہاری مرضی ورنہ ہم نے تو تمہیں اس راہ سے بھٹکانے کی اپنی سی کوشش کر دیکھی، اب صاف بتاؤ! ہم کیا کریں؟ کہنے لگیں تم اتنی ورکشاپس/ سیمینارز کرواتی ہو اور ماہر ماسٹر ٹرینر ہونے کے دعوے کرتی آئی ہو، یعنی میاں مٹھو بنتی ہو، تو ایک ورکشاپ ایسی لڑکیوں کے لیے بھی ڈیزائن کرو جس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی میں آسانی پیدا ہو، تم خود دیکھو ہر وہ لڑکی جو آزاد خیال ہے آراستہ و پیراستہ ہے۔
فیس بک اور انٹرنیٹ کو اس مقصد کے لیے استعمال کررہی ہے، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور ہم جیسی لڑکیاں جو والدین کی عزت و آبرو اور اپنے کردار کی حفاظت کرتی ہیں ان کو کوئی پوچھتا نہیں ۔ ہم نے کہا بی بی! پہلے تو یہ سن لو کہ ایسی ورکشاپس تو خیر اتنی جلدی نہیں ہوسکتی ورنہ آئیڈیا برا نہیں، مگر تم یہ بتائو فیس بک اور نیٹ کی دوستیاں کیا اتنی پائیدار ہوتی ہیں؟ ترنت جواب ملا ہماری تو کئی کولیگ کی شادی اس کے ذریعے ہوئی، ہم نے کیا کیا۔
تم نے آیندہ کے نتائج معلوم کیے کہ ان کے گھر والوں کا شادی کے بعد ان کے ساتھ کیسا طرز عمل رہا، لڑکا اور لڑکی اب کیسی زندگی گزار رہے ہیں؟ کہنے لگیں، یہ تو ہمیں زیادہ نہیں معلوم۔ ہم نے کہا محترمہ! دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے جب جاکر کوئی بات مثبت رخ اختیار کرتی ہے اور خصوصاً لڑکیوں کو تو بہت زیادہ محتاط اپنا پڑتا ہے۔
اس بار وہ خاموش ہوگئیں پھر کہنے لگیں تم کالم لکھتی ہو، اس کے ذریعے ہی دو خاندانوں کو ملوانے کا ذریعہ بن کر ثواب کما سکتی ہو، ہم نے کہا دنیا میں لکھنے کے لیے بہت سے مسائل ہیں اب کیا ہم شادی کے اشتہار کو اپنے کالم کا موضوع بنائیں کہ ضرورت ہے ایک شوہر کی۔ یہ سن کر تڑپ کر کہنے لگیں ہم کسی شوہر سے شادی نہیں کریں گے ہم نے ان کی عقل پر دو حرف بھیجے اور کہا تو کیا لکھیں؟ عالمانہ انداز سے فرمایا۔ جاہل ہونے والے شوہر لکھو۔
ہم نے کہا اور کیا خوبیاں چاہتی ہو تم اپنے ہونے والے شوہر میں۔ ہونے والے پر ہم نے سارا زور دیا۔ دانت بھینچتے ہوئے کہنے کے انداز میں ہمارا منہ فٹے منہ بن گیا۔ جس کو دیکھ کر محترمہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئیں۔ آگے گویا ہوئیں، ہونے والا شوہر اکیلا ہو اکیلا۔ مگر کیوں؟ کیا اپنے تمام آگے پیچھے والوں کو دفنا کر آئے یا تین حرف بھیج کر آئے؟ کہنے لگیں اکیلا مطلب اکلوتا اس کے بہن بھائی نہ ہوں۔ ہم نے کہا اور ماں باپ کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ فرمایا ماں باپ نہ ہوں تو یہ بھی اضافی خوبی تصور کی جائے گی جس کے نمبر دو فیصد ہوں گے، اور ہمیں اس بات کی گارنٹی دے کہ وہ خود کام کرے گا یا ملازمہ رکھے گا تو پھر سوچا جاسکتا ہے۔
یہ سن کر ہمارا تو دل چاہا کہہ دیں بی بی! یہ خیالات ہی ہیں جن کی وجہ سے آج اپنے گھر بیٹھی ہو، مگر متوقع بے عزتی کا سوچ کر خاموش ہوئے اور آگے کا فرمائشی پروگرام سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوگئے۔ مالی طور پر بہت مستحکم ہو، چلتا ہوا کاروبار یا پھر گریڈ 22 کی جاب ہو۔ بڑا سا گھر ہو، نوکروں کی فوج ظفر موج ہو، گاڑیوں کا کارواں ہو، صبح دبئی تو شام پیرس میں ہوتی ہو اور خوبصورت اتنا ہو کہ باآسانی کسی فلم میں ہیرو آجائے۔ واہ واہ! یہ ساری خوبیاں کسی ایک شخص میں تو نہیں مل سکتیں۔
دو چار ڈھونڈنے پڑیں گے۔ مگر اسلام میں تو کسی لڑکی کو ایک وقت میں ایک ہی شادی جائز ہے۔ ہماری طنزیہ گفتگو سن کر موصوفہ نے غصے بھری نظر ہم پر ڈالی اور کہنے لگیں تم ہو ہی ہماری خوشیوں کی قاتل۔ کیا یہ تمام خواہشات کرنا گناہ ہے؟ ہم نے کہا گناہ نہیں مگر اس طرح کی سوچ بھی ٹھیک نہیں ہے، معاشرے میں پڑھی لکھی لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ ایسے عوامل بھی ہیں جس میں لڑکیاں پڑھ لکھ کر ایسے رشتوں پر اپنا حق سمجھنے لگتی ہیں، اگر ایسا رشتہ نہ ملے تو پھر دیگر باتوں کا سہارا لیتی ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لڑکیاں جو انٹرنیٹ، فیس بک یا موبائل سروس کے ذریعے اپنے پسندیدہ رشتوں میں بندھ جاتی ہیں ورنہ ان ذرایع کے ذریعے زیادہ تر دھوکا کھا کر اپنی زندگیوں کو عذاب بنا لیتی ہیں، اور دھوکا کھا کر اپنے گھر والوں کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔
اس وقت حالات اس نہج پر جا رہے ہیں کہ لڑکے تعلیم حاصل نہیں کرپا رہے۔ میٹرک انٹر کرکے گھریلو حالات سے مجبور ہوکر کوئی ہنر سیکھ کر کاموں پر لگ جاتے ہیں یا پھر اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں آرام سے بیوی کا خرچ اٹھاسکتے ہیں تو لڑکیاں کیوں ایسے شریف لڑکوں کے رشتے قبول نہیں کرتیں۔ بے شک من پسند رشتوں کا انتظار اچھی بات ہے مگر زیادہ انتظار بھی بربادی لے آتا ہے، اس لیے کہیں نہ کہیں کمپرومائز کرنے کی پالیسی کو اپناکر لڑکیاں اور والدین اپنی بچیوں کو سسرال بھیج سکتے ہیں اس کے علاوہ ہر لڑکا سلمان یا شاہ رخ نہیں ہوتا اسی لیے خوابوں کی دنیا کے چنگل سے نکل کر حقیقت میں آنا پڑتا ہے۔
ہم نے ان کے چہرے پر ڈرتے ڈرتے نظر ڈالی، لال بھبھوکا چہرہ ان کے اندرونی جذبات کا پتا دے رہا تھا کہ اس وقت وہ حالت طیش کی کس ڈگری پر ہیں، اس لیے ہم نے ان کو پکڑ کر بٹھایا، بیٹھتے ہی کہنے لگیں بڑی صحافی اور ماہر تعلیم بنی پھرتی ہو، ہم نے کہا کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ تم اپنا مدعا کہو، کفن پھاڑ کر بولیں۔ ''سب سکھیوں کی شادی ہوگئی میں رہ گئی کنواری۔'' ہم تو یہ سن کر ہی سٹ پٹا گئے اور کہا اس میں ہمارا کیا قصور ہے، ہم کب تمہاری شادی میں رکاوٹ بنے، کس موقع پر ہم نے کہا یہ شادی نہیں ہوسکتی، کچھ تو بتاؤ یہ الزام ہم پر ہی کیوں؟ ہماری آہ و بکا نے انھیں تھوڑا نرمی اختیار کرنے پر مجبور کردیا اور کہنے لگیں تم ہر موضوع پر قلم اٹھاتی ہو، مگر کبھی سوچا کہ جن لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی جب کہ وہ خوبصورت بھی ہوں یہ کہہ کر آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر فخر سے مسکرائیں پھر آگے ارشاد ہوا، تعلیم یافتہ ہوں، سگھڑ ہوں، مگر پھر بھی گھر والوں کے طعنوں تشنوں کے لیے زندہ ہوں تو کیا یہ قابل فخر بات ہے؟ ہم نے کہا بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
تم یہ بتاؤ ہم سے کیا چاہتی ہو، ہمارا بس چلے تو کسی کو پکڑ کے ابھی تمہارے بول پڑھوا دیں مگر محترمہ بات یہ ہے کہ یہ وہ لڈو ہیں جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ فرمایا انھوں نے بہتر یہ ہے کہ یہ لڈو کھا کر پچھتایا جائے۔ ہم نے کہا چلو یہ بھی ٹھیک ہے جو تمہاری مرضی ورنہ ہم نے تو تمہیں اس راہ سے بھٹکانے کی اپنی سی کوشش کر دیکھی، اب صاف بتاؤ! ہم کیا کریں؟ کہنے لگیں تم اتنی ورکشاپس/ سیمینارز کرواتی ہو اور ماہر ماسٹر ٹرینر ہونے کے دعوے کرتی آئی ہو، یعنی میاں مٹھو بنتی ہو، تو ایک ورکشاپ ایسی لڑکیوں کے لیے بھی ڈیزائن کرو جس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی میں آسانی پیدا ہو، تم خود دیکھو ہر وہ لڑکی جو آزاد خیال ہے آراستہ و پیراستہ ہے۔
فیس بک اور انٹرنیٹ کو اس مقصد کے لیے استعمال کررہی ہے، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور ہم جیسی لڑکیاں جو والدین کی عزت و آبرو اور اپنے کردار کی حفاظت کرتی ہیں ان کو کوئی پوچھتا نہیں ۔ ہم نے کہا بی بی! پہلے تو یہ سن لو کہ ایسی ورکشاپس تو خیر اتنی جلدی نہیں ہوسکتی ورنہ آئیڈیا برا نہیں، مگر تم یہ بتائو فیس بک اور نیٹ کی دوستیاں کیا اتنی پائیدار ہوتی ہیں؟ ترنت جواب ملا ہماری تو کئی کولیگ کی شادی اس کے ذریعے ہوئی، ہم نے کیا کیا۔
تم نے آیندہ کے نتائج معلوم کیے کہ ان کے گھر والوں کا شادی کے بعد ان کے ساتھ کیسا طرز عمل رہا، لڑکا اور لڑکی اب کیسی زندگی گزار رہے ہیں؟ کہنے لگیں، یہ تو ہمیں زیادہ نہیں معلوم۔ ہم نے کہا محترمہ! دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے جب جاکر کوئی بات مثبت رخ اختیار کرتی ہے اور خصوصاً لڑکیوں کو تو بہت زیادہ محتاط اپنا پڑتا ہے۔
اس بار وہ خاموش ہوگئیں پھر کہنے لگیں تم کالم لکھتی ہو، اس کے ذریعے ہی دو خاندانوں کو ملوانے کا ذریعہ بن کر ثواب کما سکتی ہو، ہم نے کہا دنیا میں لکھنے کے لیے بہت سے مسائل ہیں اب کیا ہم شادی کے اشتہار کو اپنے کالم کا موضوع بنائیں کہ ضرورت ہے ایک شوہر کی۔ یہ سن کر تڑپ کر کہنے لگیں ہم کسی شوہر سے شادی نہیں کریں گے ہم نے ان کی عقل پر دو حرف بھیجے اور کہا تو کیا لکھیں؟ عالمانہ انداز سے فرمایا۔ جاہل ہونے والے شوہر لکھو۔
ہم نے کہا اور کیا خوبیاں چاہتی ہو تم اپنے ہونے والے شوہر میں۔ ہونے والے پر ہم نے سارا زور دیا۔ دانت بھینچتے ہوئے کہنے کے انداز میں ہمارا منہ فٹے منہ بن گیا۔ جس کو دیکھ کر محترمہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئیں۔ آگے گویا ہوئیں، ہونے والا شوہر اکیلا ہو اکیلا۔ مگر کیوں؟ کیا اپنے تمام آگے پیچھے والوں کو دفنا کر آئے یا تین حرف بھیج کر آئے؟ کہنے لگیں اکیلا مطلب اکلوتا اس کے بہن بھائی نہ ہوں۔ ہم نے کہا اور ماں باپ کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ فرمایا ماں باپ نہ ہوں تو یہ بھی اضافی خوبی تصور کی جائے گی جس کے نمبر دو فیصد ہوں گے، اور ہمیں اس بات کی گارنٹی دے کہ وہ خود کام کرے گا یا ملازمہ رکھے گا تو پھر سوچا جاسکتا ہے۔
یہ سن کر ہمارا تو دل چاہا کہہ دیں بی بی! یہ خیالات ہی ہیں جن کی وجہ سے آج اپنے گھر بیٹھی ہو، مگر متوقع بے عزتی کا سوچ کر خاموش ہوئے اور آگے کا فرمائشی پروگرام سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوگئے۔ مالی طور پر بہت مستحکم ہو، چلتا ہوا کاروبار یا پھر گریڈ 22 کی جاب ہو۔ بڑا سا گھر ہو، نوکروں کی فوج ظفر موج ہو، گاڑیوں کا کارواں ہو، صبح دبئی تو شام پیرس میں ہوتی ہو اور خوبصورت اتنا ہو کہ باآسانی کسی فلم میں ہیرو آجائے۔ واہ واہ! یہ ساری خوبیاں کسی ایک شخص میں تو نہیں مل سکتیں۔
دو چار ڈھونڈنے پڑیں گے۔ مگر اسلام میں تو کسی لڑکی کو ایک وقت میں ایک ہی شادی جائز ہے۔ ہماری طنزیہ گفتگو سن کر موصوفہ نے غصے بھری نظر ہم پر ڈالی اور کہنے لگیں تم ہو ہی ہماری خوشیوں کی قاتل۔ کیا یہ تمام خواہشات کرنا گناہ ہے؟ ہم نے کہا گناہ نہیں مگر اس طرح کی سوچ بھی ٹھیک نہیں ہے، معاشرے میں پڑھی لکھی لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ ایسے عوامل بھی ہیں جس میں لڑکیاں پڑھ لکھ کر ایسے رشتوں پر اپنا حق سمجھنے لگتی ہیں، اگر ایسا رشتہ نہ ملے تو پھر دیگر باتوں کا سہارا لیتی ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لڑکیاں جو انٹرنیٹ، فیس بک یا موبائل سروس کے ذریعے اپنے پسندیدہ رشتوں میں بندھ جاتی ہیں ورنہ ان ذرایع کے ذریعے زیادہ تر دھوکا کھا کر اپنی زندگیوں کو عذاب بنا لیتی ہیں، اور دھوکا کھا کر اپنے گھر والوں کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔
اس وقت حالات اس نہج پر جا رہے ہیں کہ لڑکے تعلیم حاصل نہیں کرپا رہے۔ میٹرک انٹر کرکے گھریلو حالات سے مجبور ہوکر کوئی ہنر سیکھ کر کاموں پر لگ جاتے ہیں یا پھر اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں آرام سے بیوی کا خرچ اٹھاسکتے ہیں تو لڑکیاں کیوں ایسے شریف لڑکوں کے رشتے قبول نہیں کرتیں۔ بے شک من پسند رشتوں کا انتظار اچھی بات ہے مگر زیادہ انتظار بھی بربادی لے آتا ہے، اس لیے کہیں نہ کہیں کمپرومائز کرنے کی پالیسی کو اپناکر لڑکیاں اور والدین اپنی بچیوں کو سسرال بھیج سکتے ہیں اس کے علاوہ ہر لڑکا سلمان یا شاہ رخ نہیں ہوتا اسی لیے خوابوں کی دنیا کے چنگل سے نکل کر حقیقت میں آنا پڑتا ہے۔