بیٹی غریب شہر کی فاقوں سے مرگئی
پینے کا صاف پانی نایاب ہے۔ ستم رسیدہ تھری روزگار، علاج معالجے اور مناسب رہائش کو ترستے ہیں۔
ISLAMABAD:
تھرپارکر میں معاملے کی سنگینی شاید خوراک کے قحط سے زیادہ صاحب اقتدار طبقے میں احساس ذمے داری کے قحط کی وجہ سے ہے۔ جب زمینیں بنجر ہوجائیں تو صرف کھیت اجڑتے ہیں، لیکن اگر شاہوں کے ذہن بنجر ہوجائیں تو بستیاں ویران و سنسان ہوتی چلی جاتی ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور تھرپارکر میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث بھوک و افلاس کے سبب تھرپارکر میں ایک عرصے سے موت کا رقص جاری ہے۔
بھوک و پیاس کے ہاتھوں ستائے تھر کے معصوم بچے اپنی جانیں پے در پے موت کے حوالے کیے جاتے ہیں۔ اکتوبر کی ابتدا سے اب تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچے بھوک و پیاس اور حکومت کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور مجموعی طور پر رواں سال حکومتی بے حسی کے ہاتھوں اپنی جان جان آفریں کے حوالے کرنے والے تھری بچوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ تھر میں زندگی کو سسکنے، بلکنے اور دم توڑنے کے سیکڑوں بہانے میسر ہیں۔ یہاں کے باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔
پینے کا صاف پانی نایاب ہے۔ ستم رسیدہ تھری روزگار، علاج معالجے اور مناسب رہائش کو ترستے ہیں۔ چہار سو بھوک و افلاس موت کا خوفناک سایہ بنی ہوئی ہے، لیکن شاہوں کی طبعیت پر اس کا رتی بھر بھی اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے۔ حکمران دو چار دن میڈیا کے سامنے تصاویر بنوانے کے بعد تھری عوام کو بھول کر اپنی سیاسی دھینگا مشتی اور اللوں تللوں میں بھرپور طریقے سے مگن ہو جاتے ہیں۔ بھلا صاحب اقتدار طبقے کو اپنے سیاسی بکھیڑوں اور موج مستی سے اتنی فرصت ہی کہاں کہ تھر کے عوام کے لیے سوچیں۔ بقول شاعر ؎
اک وہ ہیں نائونوش سے جن کو نہیں فراغ
اک وہ ہیں جو تڑپتے ہیں فاقوں کے تار میں
تھرپارکر ایک صحرائی علاقہ ہے، جس کو اکثر قحط کا سامنا رہتا ہے۔ قحط کے دوران اپنی اور اپنے مویشیوں کی جان بچانے کے لیے اس علاقے کے لوگ بیراجی علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور عرصے سے یونہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی دور میں متوقع مہینے میں بارشیں نہ ہونے پر علاقے کو سرکاری طور پر قحط زدہ قرار دے کر تمام ٹیکس معاف کردیے جاتے تھے اور تھری باشندوں کو رعایتی قیمت پر گندم بھی فراہم کی جاتی تھی۔ ایک طویل عرصے سے تھر کے عوام کو بے بہا مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ ہر سال دو سال بعد یہاں بارشیں نہ ہونے کے سبب شدید قحط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
فاقہ کشی، مختلف مہلک بیماریوں اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب سیکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، لیکن ان تمام تلخ حقائق کے باوجود ہر حکومت نے تھر کے حوالے سے بے رخی، لاپروائی، سرد مہری اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمیشہ تھر کے علاقے کو نظر انداز کیا گیا اور کبھی اس علاقے کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی جستجو نہیں کی گئی۔ حالانکہ جب یہ بات معلوم ہے کہ ہر سال تھر کو قحط کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے باوجود اس مسلے کا حل کیوں نہیں نکالا جاتا؟ جہاں دنیا میں صحرائوں پر شہر آباد ہو رہے ہیں، وہاں قدرتی وسائل سے مالا مال تھر کی قسمت کو کیوں نہیں بدلا جاسکتا؟ قدرتی وسائل سے مالا مال تھر میں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، پاکستان کے بعض ایٹمی سائنس دانوں کے مطابق تھر کے کوئلے سے آیندہ پانچ سو برس تک سالانہ پچاس ہزار میگاواٹ بجلی یا دس کروڑ بیرل ڈیزل اور لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت نے یہاں تھرکول پروجیکٹ شروع بھی کیا ہے۔
اگر حکومت یہاں کالے سونے کا پروجیکٹ شروع کرسکتی ہے تو پھر یہاں کے عوام کے مسائل حل کیوں نہیں کرسکتی؟ لیکن حکومت کی عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ رواں سال مارچ میں میڈیا کی نشاندہی کے بعد حکومت خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ کچھ روز میڈیا کے سامنے ہلچل نظر آئی۔ حکومت نے صاف پانی کی بوتلیں اور ناقص گندم کی بوریاں تھر کے عوام کے لیے پہنچائیں، لیکن افسوس! حکومت میں احساس ذمے داری کے قحط کی وجہ سے منرل واٹر کی ہزاروں بوتلیں اور گندم کی بوریاں خراب ہوگئیں، لیکن مستحق اور بھوک و پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتے بچوں تک نہیں پہنچ پائیں۔
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی غریب شہر کی فاقوں سے مرگئی
جب تک میڈیا نے تھر کے معاملے کو نمایاں کیے رکھا، حکومت بھی حرکت میں دکھائی دیتی رہی، لیکن جب مارچ گزر گیا تو حکومت بھی تھر کے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو بھول گئی۔ اکتوبر میں ایک بار بھر میڈیا پر غذا کی قلت کے باعث بچوں کے مرنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو حکومت نے اس کو اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کے بجائے میڈیا اور سابقہ حکومت کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے ان پر برہم ہونا شروع کردیا، جب کہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا تھا: ''تھر میں عوام بھوک سے نہیں غربت سے مر رہے ہیں۔''
تھر میں جب بھی قحط پڑتا ہے، حکمران میڈیا کی موجودگی میں گندم کی کچھ بوریاں اور نقد امداد تقسیم کرکے چلتے بنتے ہیں، حالانکہ یہ بات صاحب اقتدار طبقے کو مد نظر رکھنی چاہیے کہ قحط زدہ خاندان حکومت کی جانب سے تقسیم کی گئی گندم، منرل واٹر اور چند ہزار روپے میں کتنے روز زندہ رہ سکیں گے؟ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تھر کے لوگوں کو پانی کی قلت، خوراک کی کمی اور صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جن کا مداوا فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ فلاحی ادارے ان مسائل کے حل کی کوششوں میں مگن بھی ہیں، جس کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ تھر میں عوام کی مشکلات پر مستقل طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
تھر کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ تھر میں زندگی کا دارومدار بارش پر ہے، جو یہاں بہت کم ہوتی ہے۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے تالاب بنائے گئے ہیں، لیکن وہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ زیر زمین پانی ڈیڑھ سو فٹ کے نیچے ملتا ہے اور وہ بھی ہر جگہ نہیں۔ تھری خواتین میلوں دور سے گدلا پانی لاتی ہیں۔ پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے یہاں کی اکثر خواتین کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کی تکالیف میں مبتلا ہیں۔ پانی کے مسئلے کو منرل واٹر کی بوتلیں بھیج کر آخر کب تک عوام کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے؟ حکومت کو منرل واٹر کی بوتلیں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے پر بھی کام کرنا ہوگا۔ یہ کام ناممکن نہیں ہے۔
آب پاشی کے لیے نہری نظام کو موثر کرنا چاہیے، تاکہ تھر کے باسیوں کو فصلیں اگانے کے لیے صرف بارش پر انحصار نہ کرنا پڑے اور میٹھا پانی پہنچانے کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ بھارت تو اپنے صحرائی علاقے میں میٹھا پانی پہنچا چکا ہے۔ جب بھارت اپنے صحرائی علاقے میں بجلی، سڑکوں اور میٹھے پانی کی پائپ لائنوں کا جال بچھا سکتا ہے تو یہ کام ہماری حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟ حقیقت یہی ہے کہ تھر میں معاملے کی سنگینی صرف بیڈ گورننس اورغیر سنجیدگی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حکومت اگر آج تہیہ کرلے کہ اسے تھر کے حالات کو بہتر انداز میں بدلنا ہے، تو یقین جانیے سب کچھ ہوسکتا ہے۔
تھرپارکر میں معاملے کی سنگینی شاید خوراک کے قحط سے زیادہ صاحب اقتدار طبقے میں احساس ذمے داری کے قحط کی وجہ سے ہے۔ جب زمینیں بنجر ہوجائیں تو صرف کھیت اجڑتے ہیں، لیکن اگر شاہوں کے ذہن بنجر ہوجائیں تو بستیاں ویران و سنسان ہوتی چلی جاتی ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور تھرپارکر میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث بھوک و افلاس کے سبب تھرپارکر میں ایک عرصے سے موت کا رقص جاری ہے۔
بھوک و پیاس کے ہاتھوں ستائے تھر کے معصوم بچے اپنی جانیں پے در پے موت کے حوالے کیے جاتے ہیں۔ اکتوبر کی ابتدا سے اب تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچے بھوک و پیاس اور حکومت کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور مجموعی طور پر رواں سال حکومتی بے حسی کے ہاتھوں اپنی جان جان آفریں کے حوالے کرنے والے تھری بچوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ تھر میں زندگی کو سسکنے، بلکنے اور دم توڑنے کے سیکڑوں بہانے میسر ہیں۔ یہاں کے باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔
پینے کا صاف پانی نایاب ہے۔ ستم رسیدہ تھری روزگار، علاج معالجے اور مناسب رہائش کو ترستے ہیں۔ چہار سو بھوک و افلاس موت کا خوفناک سایہ بنی ہوئی ہے، لیکن شاہوں کی طبعیت پر اس کا رتی بھر بھی اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے۔ حکمران دو چار دن میڈیا کے سامنے تصاویر بنوانے کے بعد تھری عوام کو بھول کر اپنی سیاسی دھینگا مشتی اور اللوں تللوں میں بھرپور طریقے سے مگن ہو جاتے ہیں۔ بھلا صاحب اقتدار طبقے کو اپنے سیاسی بکھیڑوں اور موج مستی سے اتنی فرصت ہی کہاں کہ تھر کے عوام کے لیے سوچیں۔ بقول شاعر ؎
اک وہ ہیں نائونوش سے جن کو نہیں فراغ
اک وہ ہیں جو تڑپتے ہیں فاقوں کے تار میں
تھرپارکر ایک صحرائی علاقہ ہے، جس کو اکثر قحط کا سامنا رہتا ہے۔ قحط کے دوران اپنی اور اپنے مویشیوں کی جان بچانے کے لیے اس علاقے کے لوگ بیراجی علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور عرصے سے یونہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی دور میں متوقع مہینے میں بارشیں نہ ہونے پر علاقے کو سرکاری طور پر قحط زدہ قرار دے کر تمام ٹیکس معاف کردیے جاتے تھے اور تھری باشندوں کو رعایتی قیمت پر گندم بھی فراہم کی جاتی تھی۔ ایک طویل عرصے سے تھر کے عوام کو بے بہا مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ ہر سال دو سال بعد یہاں بارشیں نہ ہونے کے سبب شدید قحط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
فاقہ کشی، مختلف مہلک بیماریوں اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب سیکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، لیکن ان تمام تلخ حقائق کے باوجود ہر حکومت نے تھر کے حوالے سے بے رخی، لاپروائی، سرد مہری اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمیشہ تھر کے علاقے کو نظر انداز کیا گیا اور کبھی اس علاقے کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی جستجو نہیں کی گئی۔ حالانکہ جب یہ بات معلوم ہے کہ ہر سال تھر کو قحط کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے باوجود اس مسلے کا حل کیوں نہیں نکالا جاتا؟ جہاں دنیا میں صحرائوں پر شہر آباد ہو رہے ہیں، وہاں قدرتی وسائل سے مالا مال تھر کی قسمت کو کیوں نہیں بدلا جاسکتا؟ قدرتی وسائل سے مالا مال تھر میں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، پاکستان کے بعض ایٹمی سائنس دانوں کے مطابق تھر کے کوئلے سے آیندہ پانچ سو برس تک سالانہ پچاس ہزار میگاواٹ بجلی یا دس کروڑ بیرل ڈیزل اور لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت نے یہاں تھرکول پروجیکٹ شروع بھی کیا ہے۔
اگر حکومت یہاں کالے سونے کا پروجیکٹ شروع کرسکتی ہے تو پھر یہاں کے عوام کے مسائل حل کیوں نہیں کرسکتی؟ لیکن حکومت کی عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ رواں سال مارچ میں میڈیا کی نشاندہی کے بعد حکومت خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ کچھ روز میڈیا کے سامنے ہلچل نظر آئی۔ حکومت نے صاف پانی کی بوتلیں اور ناقص گندم کی بوریاں تھر کے عوام کے لیے پہنچائیں، لیکن افسوس! حکومت میں احساس ذمے داری کے قحط کی وجہ سے منرل واٹر کی ہزاروں بوتلیں اور گندم کی بوریاں خراب ہوگئیں، لیکن مستحق اور بھوک و پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتے بچوں تک نہیں پہنچ پائیں۔
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی غریب شہر کی فاقوں سے مرگئی
جب تک میڈیا نے تھر کے معاملے کو نمایاں کیے رکھا، حکومت بھی حرکت میں دکھائی دیتی رہی، لیکن جب مارچ گزر گیا تو حکومت بھی تھر کے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو بھول گئی۔ اکتوبر میں ایک بار بھر میڈیا پر غذا کی قلت کے باعث بچوں کے مرنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو حکومت نے اس کو اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کے بجائے میڈیا اور سابقہ حکومت کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے ان پر برہم ہونا شروع کردیا، جب کہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا تھا: ''تھر میں عوام بھوک سے نہیں غربت سے مر رہے ہیں۔''
تھر میں جب بھی قحط پڑتا ہے، حکمران میڈیا کی موجودگی میں گندم کی کچھ بوریاں اور نقد امداد تقسیم کرکے چلتے بنتے ہیں، حالانکہ یہ بات صاحب اقتدار طبقے کو مد نظر رکھنی چاہیے کہ قحط زدہ خاندان حکومت کی جانب سے تقسیم کی گئی گندم، منرل واٹر اور چند ہزار روپے میں کتنے روز زندہ رہ سکیں گے؟ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تھر کے لوگوں کو پانی کی قلت، خوراک کی کمی اور صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جن کا مداوا فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ فلاحی ادارے ان مسائل کے حل کی کوششوں میں مگن بھی ہیں، جس کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ تھر میں عوام کی مشکلات پر مستقل طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
تھر کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ تھر میں زندگی کا دارومدار بارش پر ہے، جو یہاں بہت کم ہوتی ہے۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے تالاب بنائے گئے ہیں، لیکن وہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ زیر زمین پانی ڈیڑھ سو فٹ کے نیچے ملتا ہے اور وہ بھی ہر جگہ نہیں۔ تھری خواتین میلوں دور سے گدلا پانی لاتی ہیں۔ پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے یہاں کی اکثر خواتین کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کی تکالیف میں مبتلا ہیں۔ پانی کے مسئلے کو منرل واٹر کی بوتلیں بھیج کر آخر کب تک عوام کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے؟ حکومت کو منرل واٹر کی بوتلیں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے پر بھی کام کرنا ہوگا۔ یہ کام ناممکن نہیں ہے۔
آب پاشی کے لیے نہری نظام کو موثر کرنا چاہیے، تاکہ تھر کے باسیوں کو فصلیں اگانے کے لیے صرف بارش پر انحصار نہ کرنا پڑے اور میٹھا پانی پہنچانے کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ بھارت تو اپنے صحرائی علاقے میں میٹھا پانی پہنچا چکا ہے۔ جب بھارت اپنے صحرائی علاقے میں بجلی، سڑکوں اور میٹھے پانی کی پائپ لائنوں کا جال بچھا سکتا ہے تو یہ کام ہماری حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟ حقیقت یہی ہے کہ تھر میں معاملے کی سنگینی صرف بیڈ گورننس اورغیر سنجیدگی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حکومت اگر آج تہیہ کرلے کہ اسے تھر کے حالات کو بہتر انداز میں بدلنا ہے، تو یقین جانیے سب کچھ ہوسکتا ہے۔