پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل
برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت بھی انسانیت کی تکریم کے باعث ہی قائم ہوئی۔
PESHAWAR:
اللہ رب العزت خالق کائنات ہے اور اس نے انسان کو کائنات میں اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے تاکہ اس کا قانون اور اس کی شریعت کا نفاذ ہو جس کے باعث امن و امان کی صورتحال برقرار رہے، لیکن ایسا نہیں ہوا، ہر بار انسانیت کے سامنے لاقانونیت جب کہ شریعت کے مدمقابل شیطانی طاقتیں آئیں۔ اللہ جسے اپنی مخلوق کی بھلائی مقصود ہے لہٰذا اس نے ان خرابیوں کے تدارک کے لیے کائنات کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے لاتعداد نبی، پیغمبر اور رسول مبعوث فرمائے ، صحیفے اور کتابیں نازل کیں، جن کی بدولت معاشرے کی اصلاح کی گئی۔
اللہ کی جانب سے جتنے بھی انبیاء مبعوث کیے گئے ان کا مرتبہ و علم دیگر سب سے اعلیٰ اور ارفع تھا، یعنی کوئی بھی نبی بغیر علم نازل نہ ہوا، یہ مشیت الہیٰ تھی تاکہ اصلاح معاشرے میں کوئی گڑبڑ واقع نہ ہو۔ قبل از اسلام دنیا کا توازن نہایت بری حالت میں تھا۔ لوگ اقتدار کے حصول میں اور خواہشات کی تکمیل ہی کو زندگی تصور کرتے تھے اور اس کی خاطر انسانیت کی پامالی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ پیغمبر آخرالزمان ﷺکے نزول کے بعد تمام مراتب کے سامنے انسانیت اور اخلاقیات کو فوقیت سے نوازا گیا اور علم کا بول بالا ہوا۔ قرآن مجید کی تعلیم کی بدولت نبی کریم ﷺ رحمت العالمین اور مبلغ کائنات قرار پائے جنہوں نے اللہ کے علم سے دنیا کو منور اور باشعور کیا، جس کی وجہ سے تمام تر انسانوں کو تحفظ کا احساس ہونے لگا۔ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے دعوت و تبلیغ میں مصیبتیں برداشت کیں لیکن کبھی زور و زبردستی سے کام نہیں لیا۔
دشمنان دین کے بڑھتے ہوئے مظالم کے باعث ہجرت کی، اس کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر نہ صرف دشمنان اسلام کو امان دی بلکہ اقلیتوں کا تحفظ بھی اسلامی ریاست کی ذمے داریوںکا حصہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ کے وصال کے بعد خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی کسی نے غیر مسلموں پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا اور نہ ہی اس حوالے سے تاریخ میں کہیں مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ مسلمانوں کا طرہ امتیاز ہے کہ انھوں نے اپنے کسی بھی معاملہ میں احکامات سے روگردانی کی اور نہ ہی مستند علم کے بغیر عمل کیا جس سے انسانیت کی تذلیل ہوئی ہو۔
برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت بھی انسانیت کی تکریم کے باعث ہی قائم ہوئی۔ یہ حکمرانی سال یا دو سال نہیں رہی بلکہ صدیوں پر محیط رہی جس میں ہندو، عیسائی سمیت دیگر تمام اقلیتوں کو مسلمانوں کی طرح مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ انگریزوں کے برصغیر پر مسلط ہونے اور مسلمان حکمرانوں کے زوال کے بعد ایک بار پھر یہاں بسنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق سلب ہونے لگے، چاہے وہ ہندو ہی کیوں نہ ہوں، ان کی شخصی و مذہبی آزادی کو خطرات لاحق ہوگئے جس کی وجہ سے وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے، ایسے میں مسلمان ہی تھے جنہوں نے انسانیت کی پامالی کو محسوس کرتے ہوئے آواز اٹھائی کیونکہ وہ سوائے اپنے رب کے کسی اور کی غلامی کا سوچ ہی نہیں سکتے۔
انھوں نے اسی تناظر میں آزادی کی تحریک چلائی اور ایک الگ مسلم ریاست کی بنیاد ڈالی، جو بعدازاں پاکستان کے قیام کا باعث بنی۔ مسلمان جہاں بھی رہے مساوات اور رواداری کے اصولوں پر عمل پیرا رہے ۔ برصغیر میں ان کی حکمرانی کی اساس بھی یہی تھی اور ایک آزاد مملکت میں بھی وہ اسی رویہ پر کاربند رہے۔ سندھ میں ہندو برادری آج بھی شخصی آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات ادا کر رہی ہے۔ پنجاب میں چونکہ سکھوں کی اکثریت آباد ہے لہٰذا انھیں کسی بھی طرح سے اپنے مذہب اور عقائد پر عملدرآمد کرنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری کا سامنا نہیں جب کہ ملک بھر میں عیسائی و دیگر اقلیتوں کو اپنے مذہبی معاملات میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں پڑتا ۔
وہ اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور دیگر مقامات پر اسی طرح محفوظ ہیں جیسے دنیا کے کسی کونے میں کوئی غیر مسلم آزاد اور خود مختار ہیں۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی، ہر جگہ ان کے لیے مخصوص نشستیں موجود ہیں، بلکہ قانون ساز اداروں میں بھی انھیں نمایندگی کا پورا پورا حق دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ میانہ روی اور بردباری کے برتائو کی واضح مثال یہ ہے کہ آج تک ہماری بھارت کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں، تعلقات مسلسل کشیدہ ہیں، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے، مال و اسباب لوٹے گئے، مسلمان آبادیوں پر یلغار کی گئی، بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا حتیٰ کہ عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ مساجد کو شہید بھی کیا گیا۔
امریکا نے 9/11 کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، وہ نا قابل یقین ہے۔ البتہ گزشتہ چند برسوں میں وطن عزیز میں اقلیتی برادری کو کچھ خطرات کا ضرور سامنا ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ ملک میں جاری دہشت گردی کی وہ لہر ہے جس نے چاروں طرف آگ لگا رکھی ہے۔ اس دہشت گردی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہبی انتہاپسندی کو ہوا دے رہے ہیں اور ان میں تعلیم، شعور اور مذہبی رواداری کا کم ہونا ہے۔ انھیں صرف مخصوص مقاصد کے لیے خاص قسم کی تربیت دی جاتی ہے جو امت مسلمہ کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔
پاکستان اپنے قیام سے لے کر تاحال ہر لمحہ کسی نہ کسی شکل میں بحرانوں میں گھرا ہوا ہے جو ملکی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کرتے آرہے ہیں۔ ابتدا میں اثاثہ جات کی غیر منصفانہ اور جانبدارانہ تقسیم کے باعث معاشی مسائل بڑھے اور تعمیر و ترقی متاثر ہوئی۔ پھر ملک میں آمریت اور جمہوریت کے کھیل نے اسے آگے نہ بڑھنے دیا۔ ان دنوں فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشت گردی نے ملک میں ایسے ڈیرے ڈالے ہیں کہ کسی کو سدھ بدھ ہی نہیں رہی ہے کہ ایسے کون سے اقدامات کیے جائیں جن سے یہ گتھی سلجھ سکے۔ علامہ اقبال زمانہ گزرا کہہ چکے ہیں کہ ملا کی اذان اور ہے، مجاہد کی اذان اور۔ لیکن ہمارے نادان لوگ اس آگ کی جانب پروانوں کی طرح بڑھے چلے جارہے ہیں کہ ان میں تباہی کا خوف ہی ختم ہوگیا ہے۔
اس وقت اسلام بالخصوص پاکستان کو بلاشبہ سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت سے ہے لیکن اس سے بڑھ کر خطرہ عقیدے کی ناپختگی ہے اور اسی ناپختگی کے باعث ملک میں توہین مذہب کے حوالے سے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت کی بنیاد نہایت کمزور رہی ہے۔ ان واقعات کے باعث ہلاکتیں ہوئیں، احتجاج کیا گیا، مظاہرے کیے گئے، توڑ پھوڑ بھی ہوئی، اسلام اور پاکستان کا نام بھی بدنام ہوا لیکن کسی نے نہیں سوچا اس سے کسے فائدہ حاصل ہوا۔ چند دن پہلے صوبہ پنجاب کے کوٹ رادھاکشن میں ایک مسیحی جوڑے کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اینٹوں کے بھٹے میں لگی ہوئی آگ میں جھونک دیا گیا۔ گو اس واقعے میں 43 افراد گرفتار ہوئے جب کہ 53 افراد کو نامزد بھی کیا جاچکا ہے۔
ملک بھر میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی پر زور مذمت کررہی ہیں لیکن اقلیتی برادری کے تحفظات کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے کوئی واضح اقدامات نظر نہیں آرہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک میں انسانی حقوق کی فراہمی، غاصبانہ طرز عمل کے خلاف قانون و آئین کی عملداری کو یقینی بناتے ہوئے بااثر افراد کی پردہ کشائی کرے اور ساتھ ساتھ ملک میں ایسے اقدامات کیے جائیں جن میں مساجد میں ایسے افراد کو تعینات کیا جائے جو واقعتاً مرتبہ و مقام کے لائق ہوں۔