گزارا نہیں ہوگا
آج بھی ہزاروں بچے ایسے ہیں جو سڑکوں پر ننگے پیر اخبار اور پھول بیچتے نظر آتے ہیں۔ سیکڑوں ایسے ہیں جو کوڑا چنتے ہیں۔
ISLAMABAD:
خود نمائی ہمارا معمول، دکھاوا ہمارا پہناوا، نمود و نمائش ہماری تہذیب بن جائے تو یہ کہنا کون سا مشکل ہے کہ ''گزارا نہیں ہوگا۔'' مہنگائی کے روز بروز بڑھتے ہوئے گراف کو دیکھیں تو ایک عام تنخواہ پانے والے ملازم یہ کہنے میں واقعی حق بجانب ہیں کہ اس ہوش ربا مہنگائی کے ساتھ گزر بسر کرنا مشکل ہی نہیں مشکل ترین امر ہے لیکن آج بھی اللہ کے ہزاروں بندے ایسے ہیں جو حق حلال کی کمائی سے اپنے لیے روکھی سوکھی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں اور اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہیں اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے چھوٹے طبقے کے لوگ جو ریڑھی لگاتے ہیں، غبارے بیچتے ہیں، اخبار فروخت کرتے ہیں، مٹی کے کھلونے بیچتے ہیں، تندور پر روٹیاں پکانے کا کام انجام دیتے ہیں اور اپنی انتہائی قلیل آمدنی میں گزر بسر کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ وہ بھیک مانگنے کے بجائے رزق حلال کماتے ہیں۔
گزارا نہ ہونے کا شکوہ کرنے والے ایک تو وہ لوگ ہیں جو بڑے کنبے کے سربراہ ہیں اور قلیل آمدنی کے باعث گھر کے اخراجات مشکل ہی سے پورے کر پاتے ہیں اس پر بجلی، سوئی گیس اور ڈاکٹرز کے بل ایک علیحدہ اور گمبھیر نوعیت کے مسائل بن جاتے ہیں۔
دوسری طرف گزارا نہ ہونے کا شکوہ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری نظر میں سراسر ''ناشکرے'' ہیں۔ کبھی کبھی خاندان کے بچوں سے سوال کیا جائے کہ ''آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے؟'' تو اکثریت کا جواب ''چکن بریانی'' آتا ہے گھومنے پھرنے کے لیے یا تفریح کی غرض سے باہر جانے کی بات کی جائے تو اکثریت بڑے برے ہوٹلوں اور کھانے پینے کی مشہور جگہ جانا پسند کرتی ہے، آج کا بچہ دال چاول منہ بناکر کھاتا ہے، گھومنے کی غرض سے باغ یا ساحل سمندر پر جانے کے بجائے کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کا انتخاب کرے گا تو پھر والدین ''گزارا نہ ہونے کا شکوہ تو کریں گے ہی۔''
ہم نے اپنے بچوں کو ٹرینڈ ہی ایسا دیا ہے جب کہ آج بھی ہزاروں بچے ایسے ہیں جو سڑکوں پر ننگے پیر اخبار اور پھول بیچتے نظر آتے ہیں۔ سیکڑوں ایسے ہیں جو کوڑا چنتے ہیں۔ ہم ان کی مدد نہیں کرتے، کسی بچے کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے لیے ہم تیار نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہم بہت آرام سے کرتے ہیں اور ہمیں اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنا آتا ہی نہیں ہے۔ بس اپنا اسٹیٹس خراب نہ ہو اور ناک نیچی نہ رہے۔ یوں سمجھیے کہ سارا چکر ناک اونچی رکھنے کا ہے اپنی ناک کو اونچا رکھنے کے لیے قرض بھی لینا پڑ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن ہم دکھاوے کی دنیا سے باہر نہیں آتے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ''سالن کا شوربہ زیادہ کرکے پڑوسی کو بھیج دیا جائے۔'' جب کہ آج ہم اپنے پڑوسی کو سالن تو کیا بھیجیں گے، البتہ اس سے یہ رونا ضرور روئیں گے کہ ''کیا کریں بہن! گزارا ہی نہیں ہوتا۔''
''میں پچھلے دنوں بازار گئی تھی ہزار روپے میں لان کے تھری پیس سوٹ لے آئی''...
''ہاں بہن! صحیح کیا تم نے تو ہزار روپے کا تھری پیس سوٹ لے آئیں۔ میرے شوہر کے مزاج تو شاہانہ قسم کے ہیں وہ تو برانڈڈ کپڑا پسند کرتے ہیں، میں نے تو 4 ہزار کا تھری پیس سوٹ لیا ہے۔ اتوار کو امی کی طرف سب جمع ہوں گے وہاں پن کر جاؤں گی۔'' اور اندر کمرے میں ٹی وی پر غیر ملکی چینل دیکھتے ہوئے ان کے میاں اپنی توند سہلاتے ہوئے سوچ رہے ہوں کہ یہ 4 ہزار روپے انھوں نے ایک موٹر سائیکل والے سے کاغذات دکھانے کے چکر میں آرام سے ہتھیا لیے تھے۔ اب بتائیے گزارا کیسے ہو؟
ہمارے بچپن میں بلکہ ہماری امی کا کہنا ہے کہ دکھاوے کی یہ روش اب سے کئی سال پہلے بالکل نہیں تھی اور اپنے والدین کے زمانے میں تو ہمارے لان کے دو ہی سوٹ بنا کرتے تھے ایک پہنا دوسرا دھو کر سکھادیا۔ گرمیاں تو جب بھی کٹ ہی جاتی تھیں آج تو آپ ذرا ہلکا قسم کا سوٹ پہن لیں تو ناک کٹنے کے امکانات روشن ہونے لگتے ہیں۔
محبت، خلوص، ایثار و قربانی جیسے جذبوں کی جگہ منافقت، مقابلہ بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے جیسے مقاصد شامل ہوگئے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن پاک کی صورت میں زندگی گزارنے کا طریقہ کار انسانوں تک پہنچایا ہے۔ چاہے وہ مزدور ہو یا صنعتکار، تاجر ہو یا سبزی فروش، غرض ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اس طریقہ کار پر عمل کرکے اپنی زندگی میں سہولت اطمینان اور سکون حاصل کرسکتے ہیں۔
خود نمائی ہمارا معمول، دکھاوا ہمارا پہناوا، نمود و نمائش ہماری تہذیب بن جائے تو یہ کہنا کون سا مشکل ہے کہ ''گزارا نہیں ہوگا۔'' مہنگائی کے روز بروز بڑھتے ہوئے گراف کو دیکھیں تو ایک عام تنخواہ پانے والے ملازم یہ کہنے میں واقعی حق بجانب ہیں کہ اس ہوش ربا مہنگائی کے ساتھ گزر بسر کرنا مشکل ہی نہیں مشکل ترین امر ہے لیکن آج بھی اللہ کے ہزاروں بندے ایسے ہیں جو حق حلال کی کمائی سے اپنے لیے روکھی سوکھی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں اور اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہیں اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے چھوٹے طبقے کے لوگ جو ریڑھی لگاتے ہیں، غبارے بیچتے ہیں، اخبار فروخت کرتے ہیں، مٹی کے کھلونے بیچتے ہیں، تندور پر روٹیاں پکانے کا کام انجام دیتے ہیں اور اپنی انتہائی قلیل آمدنی میں گزر بسر کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ وہ بھیک مانگنے کے بجائے رزق حلال کماتے ہیں۔
گزارا نہ ہونے کا شکوہ کرنے والے ایک تو وہ لوگ ہیں جو بڑے کنبے کے سربراہ ہیں اور قلیل آمدنی کے باعث گھر کے اخراجات مشکل ہی سے پورے کر پاتے ہیں اس پر بجلی، سوئی گیس اور ڈاکٹرز کے بل ایک علیحدہ اور گمبھیر نوعیت کے مسائل بن جاتے ہیں۔
دوسری طرف گزارا نہ ہونے کا شکوہ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری نظر میں سراسر ''ناشکرے'' ہیں۔ کبھی کبھی خاندان کے بچوں سے سوال کیا جائے کہ ''آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے؟'' تو اکثریت کا جواب ''چکن بریانی'' آتا ہے گھومنے پھرنے کے لیے یا تفریح کی غرض سے باہر جانے کی بات کی جائے تو اکثریت بڑے برے ہوٹلوں اور کھانے پینے کی مشہور جگہ جانا پسند کرتی ہے، آج کا بچہ دال چاول منہ بناکر کھاتا ہے، گھومنے کی غرض سے باغ یا ساحل سمندر پر جانے کے بجائے کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کا انتخاب کرے گا تو پھر والدین ''گزارا نہ ہونے کا شکوہ تو کریں گے ہی۔''
ہم نے اپنے بچوں کو ٹرینڈ ہی ایسا دیا ہے جب کہ آج بھی ہزاروں بچے ایسے ہیں جو سڑکوں پر ننگے پیر اخبار اور پھول بیچتے نظر آتے ہیں۔ سیکڑوں ایسے ہیں جو کوڑا چنتے ہیں۔ ہم ان کی مدد نہیں کرتے، کسی بچے کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے لیے ہم تیار نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہم بہت آرام سے کرتے ہیں اور ہمیں اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنا آتا ہی نہیں ہے۔ بس اپنا اسٹیٹس خراب نہ ہو اور ناک نیچی نہ رہے۔ یوں سمجھیے کہ سارا چکر ناک اونچی رکھنے کا ہے اپنی ناک کو اونچا رکھنے کے لیے قرض بھی لینا پڑ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن ہم دکھاوے کی دنیا سے باہر نہیں آتے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ''سالن کا شوربہ زیادہ کرکے پڑوسی کو بھیج دیا جائے۔'' جب کہ آج ہم اپنے پڑوسی کو سالن تو کیا بھیجیں گے، البتہ اس سے یہ رونا ضرور روئیں گے کہ ''کیا کریں بہن! گزارا ہی نہیں ہوتا۔''
''میں پچھلے دنوں بازار گئی تھی ہزار روپے میں لان کے تھری پیس سوٹ لے آئی''...
''ہاں بہن! صحیح کیا تم نے تو ہزار روپے کا تھری پیس سوٹ لے آئیں۔ میرے شوہر کے مزاج تو شاہانہ قسم کے ہیں وہ تو برانڈڈ کپڑا پسند کرتے ہیں، میں نے تو 4 ہزار کا تھری پیس سوٹ لیا ہے۔ اتوار کو امی کی طرف سب جمع ہوں گے وہاں پن کر جاؤں گی۔'' اور اندر کمرے میں ٹی وی پر غیر ملکی چینل دیکھتے ہوئے ان کے میاں اپنی توند سہلاتے ہوئے سوچ رہے ہوں کہ یہ 4 ہزار روپے انھوں نے ایک موٹر سائیکل والے سے کاغذات دکھانے کے چکر میں آرام سے ہتھیا لیے تھے۔ اب بتائیے گزارا کیسے ہو؟
ہمارے بچپن میں بلکہ ہماری امی کا کہنا ہے کہ دکھاوے کی یہ روش اب سے کئی سال پہلے بالکل نہیں تھی اور اپنے والدین کے زمانے میں تو ہمارے لان کے دو ہی سوٹ بنا کرتے تھے ایک پہنا دوسرا دھو کر سکھادیا۔ گرمیاں تو جب بھی کٹ ہی جاتی تھیں آج تو آپ ذرا ہلکا قسم کا سوٹ پہن لیں تو ناک کٹنے کے امکانات روشن ہونے لگتے ہیں۔
محبت، خلوص، ایثار و قربانی جیسے جذبوں کی جگہ منافقت، مقابلہ بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے جیسے مقاصد شامل ہوگئے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن پاک کی صورت میں زندگی گزارنے کا طریقہ کار انسانوں تک پہنچایا ہے۔ چاہے وہ مزدور ہو یا صنعتکار، تاجر ہو یا سبزی فروش، غرض ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اس طریقہ کار پر عمل کرکے اپنی زندگی میں سہولت اطمینان اور سکون حاصل کرسکتے ہیں۔