سماجی اور جمہوری اخلاقیات

ہرمعاشرےمیں اخلاقیات معاشی نظام کا پرتو ہوتے ہیں چونکہ ہمارےمعاشی نظام کی خوبیاں اورثمرات اوپرہی اوپرتقسیم ہوجاتے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari November 25, 2014
[email protected]

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں ناشائستہ زبان اور بدتمیزی کے مسئلے پر بحث کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے عمران خان اور شیخ رشید سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ زبان و بیان میں بھی شائستگی آتی گئی ہے لیکن تہذیبی ترقی کے ثمرات بھی اوپر ہی اوپر تقسیم ہوتے رہے اور معاشی ترقی کے ثمرات کی طرح نچلی سطح تک نہیں پہنچ پائے۔ ہر معاشرے میں اخلاقیات معاشی نظام کا پرتو ہوتے ہیں چونکہ ہمارے معاشی نظام کی خوبیاں اور ثمرات اوپر ہی اوپر تقسیم ہوجاتے ہیں لہٰذا کوئی انھیں نچلی سطح پر تلاش کرتا ہے تو یہ ایک احمقانہ غلطی کے سواکچھ نہیں۔ اخلاقیات کا بڑا گہرا تعلق تعلیم سے بھی ہوتا ہے چونکہ ہماری آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ تعلیم سے محروم ہے لہٰذا منطقی طور پر اس طبقے سے اخلاقیات اور شائستگی وغیرہ کی توقع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

طبقاتی سماج میں بالادست طبقات کی اخلاقیات کا مشاہدہ کرنا ہو تو بالادست طبقات سے تعلق رکھنے والے معززین کی نچلے طبقے کے ساتھ شائستگی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا ملک چونکہ ابھی تک جاگیردارانہ نظام کے حصار سے باہر نہیں نکل سکا لہٰذا جاگیرداروں، وڈیروں کے ہاریوں، کسانوں کے ساتھ سلوک سے ''زبان و بیان کی شائستگی''کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار جس تحقیر اور تضحیک کے ساتھ ہاریوں اور کسانوں کو مخاطب کرتے ہیں اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہاری اور کسان انسان ہی نہیں ہیں اور یہی حال صنعتکاروں، سرمایہ داروں کا ہوتا ہے وہ غریب طبقات کے ساتھ جس حقارت سے جس بے ہودہ زبان سے پیش آتے ہیں اسے وہ اپنا طبقاتی حق سمجھتے ہیں، یہ حق صرف طرز تخاطب تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس حق کے ڈانڈے غریب طبقات کی بہو بیٹیوں کی آبرو ریزی اور خواتین کے برہنہ جلوسوں تک ملتے ہیں۔

جاگیردارانہ نظام کی اخلاقیات کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ طبقات اپنی اولاد کو اخلاقیات سیکھنے کے لیے طوائفوں کے کوٹھے پر بھیجتے تھے۔ طوائف چونکہ اشرافیہ کی ناگزیر ضرورت تھی سو اس صنف نے اشرافیہ سے اخلاقیات کا درس اور عملی تربیت حاصل کی اور اخلاقیات کا ایسا نادر نمونہ بن گئی کہ شہزادے، شہزادیاں بھی ان سے اخلاقیات کا درس لینے پر مجبور ہوگئے جیساکہ ہم نے نشان دہی کی اخلاقی نظام معاشی نظام کی اوپری پرت ہوتا ہے۔ یہ ہوا میں معلق کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ معاشی نظام کا حصہ ہوتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ غریب طبقات کے ساتھ تحقیر آمیز زبان استعمال کرنے والے اور غریب طبقات کی صبح سے شام تک تضحیک کرنے والوں کو اگر کسی سخت زبان اور کھردرے لہجے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انھیں تہذیب بھی یاد آتی ہے، اخلاق اور شائستگی بھی یاد آتی ہے۔ عمران خان اور ان کے بعض ساتھی بلاشبہ ان اشرافیائی آئی ٹائکونز کے خلاف سخت لہجے اور ناشائستہ زبان میں بات کر رہے ہیں جو ہماری رائج الوقت اخلاقیات کی توہین یا خلاف ورزی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے لہجوں میں یہ تلخی اور ناشائستگی آئی کہاں سے اور کیوں آئی؟

میں نے جب اس مسئلے پر غور کیا تو میرے سامنے چھوٹے چھوٹے چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ ''عوام کے سلوک عوام کی شائستگی عوام کی اخلاقیات''کے مناظر گھوم گئے چور اور ڈاکو خواہ ان کا تعلق کسی طبقے سے ہو ان کے ساتھ ناشائستہ زبان ہی استعمال کی جاتی ہے اور کھردرا لہجہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی جن محترمین کے خلاف ناشائستہ زبان اور بدتمیزانہ لہجوں میں بات کر رہے ہیں، ان پر قوم کے اربوں روپے لوٹنے کے الزامات ہیں اور مختلف عدالتوں میں ان معززین کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں ۔کیا عمران اور ان کے ساتھیوں کے لہجے کی ناشائستگی میں اس کا دخل تو نہیں؟

ناشائستگی بد اخلاقی کا احساس اشرافیہ سے زیادہ مڈل کلاس کے ان بابوؤں کو ہوتا ہے جو طبقاتی سماج میں نچلے طبقات کی قدم قدم پر تحقیر و تذلیل کا مشاہدہ تو کرتے ہیں لیکن اس تحقیر و تذلیل کے خلاف واویلا اس لیے نہیں کرتے کہ اس تحقیر و تذلیل کو وہ غریب طبقات کا مقدر سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ دانستہ یا نادانستہ اشرافیہ کے گرد دھوکے اور فریب کے اخلاقی حصار کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو غریب عوام اور غریب طبقات کو مرعوب کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

اسے ہم قسمت کی خوبی کہیں یا کوئی اور نام دیں کہ اس مخصوص مڈل کلاس کو اشرافیہ تک رسائی حاصل ہوتی ہے یہ معزز مڈل کلاس یقیناً اشرافوں کی اپنے ملازمین سے شائستانہ گفتگو اور شریفانہ لہجوں کا بہ چشم خود مشاہدہ کرتی ہوگی اس اخلاقی اور شائستگی کو ہماری اخلاق اور شائستگی پسند مڈل کلاس کیا نام دے گی؟ جو اہل دانش، اہل علم، اہل قلم، غریب طبقات کے ساتھ امرا کے سلوک سے واقف ہیں وہ کس طرح ان کے ساتھ ہونے والی ناشائستگی کی مذمت کریں گے۔

بادشاہتوں کے دور سے ان ظل سبحانیوں نے اپنے گرد تقدس کا ایک ہالا کھڑا کردیا ہے کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ وہ تقدس اور احترام کے اس ہالے کو توڑ سکے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس کلاس کے مظالم سے اس کلاس کی ناانصافیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے تقدس کے اس ہالے کو توڑنا ضروری ہے جو اس کلاس کی پہلی دفاعی لائن بنا ہوا ہے جو لوگ اس مصنوعی تقدس کے اس ہالے کو توڑنے والوں کو بداخلاق ، بدتہذیب اور ناشائستہ کہتے ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ اس اشرافیہ کی معاشرے پر گرفت کو مستحکم کرتے ہیں۔دنیا میں جمہوریت کو روشناس کرانے والوں نے ایک جمہوری اخلاقیات کو بھی روشناس کرایا ہے۔

مثلاً کسی ملک میں ریل کا کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو وزیر ریلوے فوری اپنی وزارت سے مستعفی ہوجاتا ہے اگرچہ اس قسم کے حادثات کی براہ راست ذمے داری اس پر عائد نہیں ہوتی لیکن وہ اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتا ہے کہ اس قسم کے حادثات کی ذمے داری قبول کرے۔ماڈل ٹاؤن میں 14 بے گناہ افراد کو بے رحمانہ طور پر قتل کردیا گیا اور 90 سے زیادہ بے گناہ پولیس کی اندھی گولیوں سے شدید زخمی ہوگئے، عوام صوبائی وزیر داخلہ، وزیر قانون اور وزیر اعلیٰ کی طرف دیکھتے رہے کہ یہ حضرات اس سانحے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیں گے لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شد''

عمران خان یا قادری کوئی دیوتا نہیں ہیں نہ ان کے پاس کوئی گیدڑ سنگی ہے کہ عوام بصورت سیلاب ان کے جلسوں میں آئیں، عوام کی لاکھوں کی تعداد میں ان کے جلسوں میں شرکت اصل میں اس نظام اور اس نظام کے رکھوالوں سے نفرت کا اظہار ہے ۔کیا جمہوری اخلاق کا یہ تقاضہ نہیں کہ عوام کی اس نفرت کے پیش نظر حکمران جمہوری اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے ازخود مستعفی ہوجائیں؟ جب ایسا نہیں ہوگا تو مخالفین کا رویہ گستاخانہ ہوگا ہی پھر اخلاق اور شائستگی کی دہائیاں دینے کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟ بہ ایں ہما ہماری خواہش ہے کہ اہل سیاست صبر و تحمل اور شائستگی کا مظاہرہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں