پاک افغان خوش آیند دور کے آغاز کی نوید

پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک بھارتی حکمراں افغانستان میں اپنی سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہیں۔


Shakeel Farooqi November 25, 2014
[email protected]

RAWALPINDI: افغانستان پاکستان کا قریب ترین برادر مسلم ملک ہے۔ دونوں ممالک کے مذہبی اور ثقافتی رشتے بھی بہت گہرے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے تجارتی مفادات بھی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں اور چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان سے راہ داری کی سہولت بھی درکار ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ حقیقت انتہائی تلخ اور ناقابل تردید ہے کہ ابتدا سے ہی دونوں ممالک کے تعلقات زیادہ تر کشیدگی کا ہی شکار رہے ہیں۔

جس کی بنیادی اور تمام تر ذمے داری افغانستان کے حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ برادر مسلم ممالک میں ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی اسے سب سے پہلے تسلیم کرلیا تھا جب کہ افغانستان پاکستان کو تسلیم کرنے والے ملکوں میں سب سے پیچھے تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ افغان حکمراں پوری طرح بھارتی حکمرانوں کے زیر اثر تھے اور وہ ان ہی کے اشاروں پر ناچتے رہتے تھے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک بھارتی حکمراں افغانستان میں اپنی سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہیں۔ صرف افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کا مختصر سا عرصہ ایسا گزرا ہے جب یہ ملک بھارت کے چنگل سے پوری طرح آزاد تھا۔

اس تناظر میں افغانستان کے نو منتخب صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا حالیہ دورہ پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ صدر غنی اس دورے سے پہلے پاکستان کے دو انتہائی قریبی دوست ممالک چین اور سعودی عرب کے اہم دورے بھی کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اس دورے سے قبل پاکستان کے مشیر خارجہ اور بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف آئی ایس آئی کے سربراہ کے ہمراہ کابل کا کامیاب دورہ کرکے آئے تھے۔ پاک افغان تعلقات میں نئی پیش رفت کے حوالے سے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عمل پذیر ہونے والی سرگرمیوں کو تمام سیاسی اور سفارتی حلقوں میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے اور یہ واضح اشارے مل رہے ہیں کہ افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی اپنے پیش رو کی پاک افغان پالیسی سے ہٹ کر خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے اور دونوں ممالک کے معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کرنے کے خواہش مند ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات کا ماضی تلخیوں اور بے اعتمادی کے معاملات اور واقعات سے آلودہ ہے اور باہمی اعتماد کا فقدان ہی سارے فساد کی اصل جڑ ہے۔ صدر اشرف غنی کی خواہش ہے کہ ان کے ملک سے خانہ جنگی کا جلد از جلد خاتمہ ہو تاکہ وہ اس کی وجہ سے ہونے والی مسلسل تباہی سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنے ملک کو تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکیں۔ وہ اپنے ملک سے غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کے بھی خواہش مند ہیں۔ وہ اپنے ملک کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔

انھیں احساس ہے کہ ان کا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اگر امن و امان کی فضا قائم ہوجائے تو افغانستان دنیا کے دیگر ترقی پذیر ملکوں کے ہم رکاب ہوسکتا ہے۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بیرونی ممالک کے سرمایہ کار ان کے ملک کو بھی ترقیاتی فنڈز مہیا کریں تاکہ ان کا وطن بھی ترقی کی شاہراہ پر نت نئی منزلیں طے کرسکے۔ وہ اس سمت میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیش رفت کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں جس کا ایک تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ وہ اگلے دس سال کے دوران چین کو افغانستان میں اربوں ڈالر کے منصوبے شروع کرنے کے لیے رضامند کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

اس کے علاوہ انھیں معاشی اور دفاعی شعبوں میں دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً امریکا کی مدد بھی حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم انھیں آگے کی جانب بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اپنے ملک میں عرصہ دراز سے جاری خانہ جنگی کی صورت حال کی وجہ سے پیش آرہی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہی وہ نقطہ ہے جہاں صدر اشرف غنی کو پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کے اچھے خاصے وسیع علاقے طالبان کے زیرنگیں آچکے ہیں جب کہ دوسری جانب افغان حکومت اور امریکا کی طرف سے افغانی اور پاکستانی طالبان کے باہمی اتحاد کو توڑنے کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں اور چالیں ناکام ہوچکی ہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بھارتی ایجنسیاں افغان ایجنسیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے بلوچ علیحدگی پسندوں کی مسلسل پشت پناہی کرنے میں مصروف رہی ہیں۔ پاکستانی قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ پاکستان مخالف بھارتی اور افغانستان کی ایجنسیوں کا ہر طرح سے توڑ کیا جائے جس میں افغانستان اور پاکستان کے طالبان کا اتحاد برقرار رہنا ضروری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی پاکستان دشمن پالیسی راستے کی سب سے بڑی اور بنیادی رکاوٹ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ افغانستان اور امریکا پاکستان کے ان سیکیورٹی مسائل پر توجہ دینے سے انکار کرتے رہے ہیں جن کا تعلق بھارت سے تھا۔ یہی وہ بنیادی سبب تھا جس نے پاکستان کو خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے طالبان کی حمایت پر مجبور کیا ہے۔ اس بات کو اس حقیقت سے بھی سہارا ملتا ہے کہ کشمیر جیسے سنگین مسائل تو درکنار بھارت عام مسائل پر بھی پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے میں ٹال مٹول کر رہا ہے۔ دریں اثنا نریندر مودی کی حکومت نے حال ہی میں کنٹرول لائن پر کشیدگی کے شعلے بھڑکا کر فضا کو مزید خراب کردیا۔ گزشتہ اگست اور اس کے بعد رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد پاکستان کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ تجارت کے میدان میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے فیصلے کو موخر کردے۔صدر اشرف غنی کا پاکستان کا حالیہ دور اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ انھیں حقیقی صورت حال کا پورا اندازہ ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ خارجہ تعلقات کی تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔

اگر وہ اپنے ملک کے مفاد کی خاطر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے میں مخلص اور سنجیدہ ہیں تو انھیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا افغانستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات مخالفانہ اور منفی رویوں پر قائم نہ ہوں۔ غالباً انھیں اس حقیقت کا احساس ہوچکا ہے جس کا عندیہ اس بات سے ملتا ہے کہ انھوں نے افغانستان کی فوج کے لیے بھارت کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی کی پیش کش پر زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ بھارت کی حکومت کی جانب سے یہ پیش کش بھارتی سیکیورٹی ایڈوائزر راجیت دوال نے گزشتہ ماہ اپنے دورہ کابل کے دوران کی تھی۔

افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی کا حالیہ دورہ پاکستان پاک افغانستان تعلقات کے حوالے سے ایک نئے دور کا آغاز تصور کیا جا رہا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں برف پگھلنے کی شروعات ہوگئی ہے اور دونوں ممالک نے حالات کی نزاکت اور تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کے تقاضوں کا احساس کرلیا ہے۔

اگرچہ ماضی میں بھی افغانستان کے سابق صدر نے پاکستان کے دورے کیے تھے لیکن یہ عملاً بے نتیجہ ثابت ہوئے تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اس وقت دونوں ممالک میں نو منتخب قائدین کی حکومت ہے اور حسن اتفاق سے دونوں ہی اپنے پیش روؤں کی ان فرسودہ اور ناکام پالیسیوں کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہیں جن کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی خلیج چھوٹی ہونے کے بجائے وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور دشمنی اور عدم اعتماد میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ماضی کے مقابلے میں ایک اور نمایاں تبدیلی یہ آئی ہے کہ پاکستان کی نئی فوجی قیادت اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں افغانستان کی سرزمین سے ابھر کر آنے والی دہشت گردی کی لہر کو کچلنے کے لیے بہت زیادہ پرعزم اور متحرک نظر آرہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔