ہیکنگ کے لیے اب انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں
ریڈیو سگنلز کے ذریعے محفوظ ترین کمپیوٹرز میں نقب لگائی جاسکتی ہے
عام طور پر خیال کیا جاتاہے جو کمپیوٹر انٹرنیٹ یا لوکل ایریا نیٹ ورک (LAN) سے منسلک نہیں ہوتے وہ ہیکروں کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔
اسی لیے خفیہ سرکاری دستاویزات سے لے کر تجارتی اداروں کی کاروباری معلومات تک ان ہی کمپیوٹروں میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ اس تیکنیک کو جو اصطلاحاً '' ایئر گیپ'' کہلاتی ہے، ڈیٹا کو ہیکروں کی دسترس سے بچانے کا محفوظ ترین راستہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایک تجربے کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے ان الگ تھلگ مشینوں سے بھی ڈیٹا چُرایا جاسکتا ہے۔
یہ تجربہ اسرائیل کی بن غوریون یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک سوفٹ ویئر ڈیزائن کیا جو ' کِی اسٹروکس' کو محسوس کرسکتا ہے۔ یہ سوفٹ ویئر کی اسٹروکس کو محسوس کرنے کے بعد ایف ایم ریڈیوسگنلز کے ذریعے ریسیور کو منتقل کردیتا ہے۔ یہ سگنل کمپیوٹر کے گرافک کارڈ میں سے خارج ہوتے ہیں۔ ان سگنلز کو مختصر فاصلے پر موجود ایف ایم سگنل ریسیور کا حامل موبائل فون پکڑ لیتا ہے۔
بعدازاں ڈیٹا میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ تجربے کے دوران کمپیوٹر کے ماہرین نے ایک مشہور کورین کمپنی کی گیلیکسی سیریز کا موبائل فون سیٹ استعمال کیا جو پاکستان میں بھی عام دستیاب ہے۔ ریڈیو سگنلز کے ذریعے ہیکنگ کے لیے ضروری ہے کہ کمپیوٹر میں اسرائیلی ماہرین کا ڈیزائن کردہ یا اسی نوع کا سوفٹ ویئر انسٹال ہو۔ یہ پہلا موقع ہے جب موبائل فون کو کمپیوٹر ہیکنگ میں استعمال کیا گیا ہے۔
ریڈیو سگنلز کے ذریعے ہیکنگ کی تیکنیک کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ کمپیوٹر استعمال کرنے والے کو اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ ہارڈ ڈسک میں محفوظ ڈیٹا چوری ہوگیا ہے۔چوں کہ ایف ایم سگنل طویل فاصلے تک پہنچتے ہیں، لہٰذا ہیکر کافی دور سے اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے ثابت ہوگیا ہے کہ '' ایئرگیپ'' بھی ڈیٹا کی حفاظت کے لیے مؤثر تیکنیک نہیں رہی، اور حساس ترین معلومات کی حفاظت کے لیے اب کوئی اور راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔
اسرائیلی ماہرین نے اپنی تحقیق گذشتہ دنوں منعقدہ ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے میں مجرمانہ ذہن رکھنے والے ملازمین کے لیے ادارے کا حساس ڈیٹا چُرانا مشکل نہیں۔ وہ بس کمپیوٹر میں اسی طرح کا سوفٹ ویئر انسٹال کریں گے، جیسا کہ انھوں نے ڈیزائن کیا ہے، اور تمام ڈیٹا ان کے موبائل فون میں منتقل ہوجائے گا۔
ماہرین اس حقیقت سے پہلے ہی واقف ہوچکے تھے کہ کمپیوٹر مانیٹر سے خارج ہونے والے برقی مقناطیسی سگنلز پکڑے جاسکتے ہیں اور ان کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اسکرین پر کیا دکھائی دے رہا ہے۔ ہیکرز نے کمپیوٹر مانیٹرز کو ریڈیو فریکوئنسی ٹرانسمیٹر میں بدل دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ان گنت کمپیوٹروں میں ریڈیو فریکوئنسی ڈیوائسز نصب کررکھی ہیں جن کے ذریعے معلومات چُرائی جاتی ہیں۔
ریڈیو سگنلز کے ذریعے ڈیٹا چرانے کا عمل سست رفتار ہے۔ 3 سے 22 فٹ کے درمیانی فاصلے پر ڈیٹا کی منتقلی کی رفتار محض 60 بائٹس فی سیکنڈ تھی۔اس کے باوجود یہ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے انتہائی خطرناک ہے،کیوں کہ کوئی اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے قریبی کمپیوٹر سے ڈیٹا چرا کر کسی اور ہیکر کو بھی بھیج سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس نوع کی ہیکنگ سے بچنے کا فی الحال ایک ہی طریقہ ہے کہ جس کمپیوٹر میں حساس معلومات محفوظ کی گئی ہیں اسے دھاتی کنٹیر میں رکھا جائے۔ کنٹینر کی دیواریں اتنی موٹی ہوں کہ ان میں سے ریڈیائی لہریں نہ گزر سکیں۔
اسی لیے خفیہ سرکاری دستاویزات سے لے کر تجارتی اداروں کی کاروباری معلومات تک ان ہی کمپیوٹروں میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ اس تیکنیک کو جو اصطلاحاً '' ایئر گیپ'' کہلاتی ہے، ڈیٹا کو ہیکروں کی دسترس سے بچانے کا محفوظ ترین راستہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایک تجربے کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے ان الگ تھلگ مشینوں سے بھی ڈیٹا چُرایا جاسکتا ہے۔
یہ تجربہ اسرائیل کی بن غوریون یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک سوفٹ ویئر ڈیزائن کیا جو ' کِی اسٹروکس' کو محسوس کرسکتا ہے۔ یہ سوفٹ ویئر کی اسٹروکس کو محسوس کرنے کے بعد ایف ایم ریڈیوسگنلز کے ذریعے ریسیور کو منتقل کردیتا ہے۔ یہ سگنل کمپیوٹر کے گرافک کارڈ میں سے خارج ہوتے ہیں۔ ان سگنلز کو مختصر فاصلے پر موجود ایف ایم سگنل ریسیور کا حامل موبائل فون پکڑ لیتا ہے۔
بعدازاں ڈیٹا میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ تجربے کے دوران کمپیوٹر کے ماہرین نے ایک مشہور کورین کمپنی کی گیلیکسی سیریز کا موبائل فون سیٹ استعمال کیا جو پاکستان میں بھی عام دستیاب ہے۔ ریڈیو سگنلز کے ذریعے ہیکنگ کے لیے ضروری ہے کہ کمپیوٹر میں اسرائیلی ماہرین کا ڈیزائن کردہ یا اسی نوع کا سوفٹ ویئر انسٹال ہو۔ یہ پہلا موقع ہے جب موبائل فون کو کمپیوٹر ہیکنگ میں استعمال کیا گیا ہے۔
ریڈیو سگنلز کے ذریعے ہیکنگ کی تیکنیک کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ کمپیوٹر استعمال کرنے والے کو اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ ہارڈ ڈسک میں محفوظ ڈیٹا چوری ہوگیا ہے۔چوں کہ ایف ایم سگنل طویل فاصلے تک پہنچتے ہیں، لہٰذا ہیکر کافی دور سے اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے ثابت ہوگیا ہے کہ '' ایئرگیپ'' بھی ڈیٹا کی حفاظت کے لیے مؤثر تیکنیک نہیں رہی، اور حساس ترین معلومات کی حفاظت کے لیے اب کوئی اور راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔
اسرائیلی ماہرین نے اپنی تحقیق گذشتہ دنوں منعقدہ ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے میں مجرمانہ ذہن رکھنے والے ملازمین کے لیے ادارے کا حساس ڈیٹا چُرانا مشکل نہیں۔ وہ بس کمپیوٹر میں اسی طرح کا سوفٹ ویئر انسٹال کریں گے، جیسا کہ انھوں نے ڈیزائن کیا ہے، اور تمام ڈیٹا ان کے موبائل فون میں منتقل ہوجائے گا۔
ماہرین اس حقیقت سے پہلے ہی واقف ہوچکے تھے کہ کمپیوٹر مانیٹر سے خارج ہونے والے برقی مقناطیسی سگنلز پکڑے جاسکتے ہیں اور ان کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اسکرین پر کیا دکھائی دے رہا ہے۔ ہیکرز نے کمپیوٹر مانیٹرز کو ریڈیو فریکوئنسی ٹرانسمیٹر میں بدل دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ان گنت کمپیوٹروں میں ریڈیو فریکوئنسی ڈیوائسز نصب کررکھی ہیں جن کے ذریعے معلومات چُرائی جاتی ہیں۔
ریڈیو سگنلز کے ذریعے ڈیٹا چرانے کا عمل سست رفتار ہے۔ 3 سے 22 فٹ کے درمیانی فاصلے پر ڈیٹا کی منتقلی کی رفتار محض 60 بائٹس فی سیکنڈ تھی۔اس کے باوجود یہ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے انتہائی خطرناک ہے،کیوں کہ کوئی اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے قریبی کمپیوٹر سے ڈیٹا چرا کر کسی اور ہیکر کو بھی بھیج سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس نوع کی ہیکنگ سے بچنے کا فی الحال ایک ہی طریقہ ہے کہ جس کمپیوٹر میں حساس معلومات محفوظ کی گئی ہیں اسے دھاتی کنٹیر میں رکھا جائے۔ کنٹینر کی دیواریں اتنی موٹی ہوں کہ ان میں سے ریڈیائی لہریں نہ گزر سکیں۔