بحرین میں چار دن
گروپ بازی کا مرض جڑ پکڑگیا ہے جس کا مظاہرہ ہم برصغیر کے لوگ دنیا بھر میں ہر جگہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کچھ ناموں اور کچھ شہروں میں ایک ایسا ''تُو من شدی، من تُو شدم'' والا تعلق پیدا ہوجاتا ہے کہ ایک کی بات کیجیے تو دوسرا خود بخود درمیان میں آجاتا ہے۔ کچھ اسی قسم کا رشتہ ہمارا بحرین سے بھی قائم ہوگیا ہے کہ جب بھی اس ملک سے کوئی دعوت ملتی ہے ذہن میں فوراً نجیب افضل (مرحوم) سید قیس، امتیاز پرویز، ذکیہ اور سلیم، سید وہاج الدین، سید صلاح الدین، نور پٹھان، شفاعت ملک اور احمد عادل کے نام ستاروں کی طرح جل اٹھتے ہیں۔
یہ بہت سے چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل یہ ملک سعودی عرب کے شہر دمام (اس علاقے کو الخبر اور دہران بھی کہا جاتا ہے) سے تقریباً جڑا ہوا ہے کہ درمیان میں صرف بیس پچیس کلومیٹر کی ایک سمندری پٹی پڑتی ہے جسے ایک سمندری پل (جسے Cause way کہا جاتا ہے) جتنی بار بھی بحرین جانا ہوا یوں لگا جیسے ہم اپنے گھر کی طرف جارہے ہیں۔ مجھے یاد تھا کہ پچھلی بار بھی 2010 میں، میں اسی سوسائٹی کی دعوت پر بحرین گیا تھا البتہ اس بار یہ فرق دیکھا کہ گزشتہ تقریب کے میزبان اعلیٰ نہ تو تقریب میں موجود تھے اور نہ میزبان کمیٹی میں، معلوم ہوا کہ یہاں بھی وہی گروپ بازی کا مرض جڑ پکڑگیا ہے جس کا مظاہرہ ہم برصغیر کے لوگ دنیا بھر میں ہر جگہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پہلے اس میں صرف ہم پاکستانی ہی مبتلا تھے اب خیر سے بھارت والے بھی اسی نوع کی ''خیرسگالی'' کرنے لگے ہیں۔ ایک دوست نے اشارۃً کہا ''کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اس سرسید سوسائٹی کے تمام عہدیداران بھی مسلمان ہیں'' اس کی وضاحت تو نہیں ہوسکی مگر تکلیف ضرور ہوئی کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کا تصورکیوں ہے جب کہ ہمارا دین تو سراسر محبت، معافی اور صبر کا دین ہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ 2010ء کے میزبان شکیل احمد جیسے سادہ، منکسرالمزاج اور ادب دوست انسان سے کسی کو کیا شکایت ہوسکتی ہے کہ وہ تو (میری اطلاعات کے مطابق) زیادہ تر اخراجات بھی اپنی ذاتی جیب سے کرتے تھے۔
پاکستان سے اس بار مجھے اور سید وصی شاہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ ایئرپورٹ پر ہمارے میزبان اعلیٰ ندیم بھائی اپنے رفقاء سمیت موجود تھے۔ وہ خود کوئی دو گھنٹے قبل دبئی سے بحرین پہنچے تھے جہاں اب وہ بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ معلوم ہوا کہ بھارت سے منور رانا، ڈاکٹراشوک، انجم رہبر، طاہر فراز اور ڈاکٹر طارق قمر شرکت کررہے ہیں۔ سوائے ڈاکٹر اشوک کے باقی سب احباب سے ملاقات اور تعارف تھا معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بہت مشہور ''کوی'' ہیں اور اپنی کویتاؤں کی وجہ سے پدم شری کا ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں، کوی سملن کہنے کو تو مشاعرے کا ہندی نام ہے لیکن اصل میں یہ ایک ''ون مین شو'' ٹائپ کی پرفارمنس ہوتی ہے جس میں کوی حضرات گانے اور ہنسانے کے ساتھ ساتھ اپنی گفتگو میں شاعری نما کسی چیز کا تڑکا بھی لگاتے جاتے ہیں اور ان کی نظمیں عام طور پر نیم منظوم لطیفوں کی شکل میں ہوتی ہیں۔
جن میں دانش کی اکا دکا باتوں سے قطع نظر مداری کا سا تماشا ہوتا ہے۔ سو ڈاکٹر اشوک نے بھی یہی کچھ کیا۔ البتہ عام زندگی اور ملنے ملانے میں وہ بہت پڑھے لکھے اور نفیس طبع نظر آئے۔ بھارتی شعراء کی سینئر نسل میں اب صرف ندا فاضلی، وسیم بریلوی، خوشبیر سنگھ شاد اور منور رانا ہی مشاعروں کے ضمن میں سرفہرست دکھائی دیتے ہیں کہ مجروح، علی سردار جعفری، حماد صاحب، شہریار، عرفان صدیقی اور محمود سعیدی کی وفات اور بشیر بدر کی یادداشت کھوجانے کے بعد اب وہاں ''یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر'' کا سا معاملہ ہے کیونکہ گلزار صاحب کے پاس خواہش اور جاوید اختر کے پاس مشاعروں کے لیے وقت کی شدید کمی ہے۔
ہماری افسانہ نگار دوست فرحت پروین اور ان کے شوہر انعام خاں کا بیٹا احسن عرف حُسنی مجھے اپنے بیٹے علی ذی شان امجد کی طرح عزیز ہے۔ ان کا فیملی بزنس امریکا سعودی عرب اور بحرین تینوں ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ سو جب حُسنی کو میرے آنے کی خبر ہوئی تو وہ شکاگو سے یہ کہہ کر اڑتا چلا آیا کہ اسے بزنس کے کئی معاملات بھی طے کرنے ہیں مگر جب تک میں وہاں رہا وہ 24 گھنٹے میری خبر گیری کرتا رہا۔ ایئرپورٹ سے نکلنے اور راستے میں ایک جگہ رک کر دیگر میزبانوں کے ساتھ چائے پینے کے دوران اس نے کسی دوست کے ذریعے رات بارہ بجے بحرین کی سم والا ایک نیا موبائل فون منگوا کر میرے سپرد کیا تاکہ وہاں مجھے رابطے میں آسانی رہے۔
مشاعرے سے اگلے روز دوپہر کے کھانے کے بعد میں حسب وعدہ نور پٹھان کے گھر منتقل ہوگیا جہاں سامان رکھنے کے بعد احمد عادل اور رخسار ناظم آبادی کے ساتھ ہم چاروں، بحرین ہی نہیں بلکہ میرے نزدیک سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے سب سے اہم اور بزرگ اردو شاعر برادرم سعید قیس کی طرف روانہ ہوئے (کہ بحرین کا سفر ان سے اور افضل نجیب مرحوم کی فیملی سے ملے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا)۔ سعید قیس کئی برسوں سے علیل چلے آرہے ہیں۔ ان کے بچے ماشاء اللہ سعادت مند ہیں اور خوشحال بھی سو انھیں اور تو کسی قسم کی پریشانی نہیں لیکن دمے اور کمزوری کی وجہ سے ان کی تنہائی زیادہ گھمبیر ہوگئی ہے اور وہ بالکل گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔
ہمارے آنے سے ان کی طبیعت وقتی طور پر بہل گئی اور کچھ ہی دیر میں وہ اپنی پرانی فارم میں واپس آگئے۔ معلوم ہوا کہ اب وہ بہت کم لکھتے ہیں مگر اپنے مخصوص سہل ممتنع کے انداز میں جو چند تازہ اشعار انھوں نے سنائے وہ حسب معمول بہت زیادہ خوبصورت اور تخلیقی انداز کے تھے۔ عمرکے اعتبار سے ان کا تعلق احمد فراز، احمد مشتاق، منیر نیازی، شہزاد احمد، جون ایلیا، سلیم احمد، شکیب جلالی اور محسن احسان والی نسل سے بنتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر وہ زندگی کا بیشتر حصہ ادبی فضا اور ماحول سے دور نہ گزارتے تو فنی اعتبار سے بھی وہ اسی صف کے آدمی ہوتے۔
ذکیہ اور ڈاکٹر سلیم بھی بحرین کے پہلے دورے میں بننے والے دوستوں میں سے ہیں۔ دونوں میاں بیوی تدریس کے شعبے سے متعلق ہیں اور دونوں ادب کے رسیا ہیں سو اس سے تجدید ملاقات ہوئی ان کے نئے اور ذاتی خوب صورت گھرمیں چائے کے بہانے کچھ وقت گزرا، سارا گھر اولاد سے محرومی کے باوجود ان کی محبت کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا وہ دونوں صحیح معنوں میں اس مختصر نظم کی تصویر ہیں کہ
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
ہفتہ 15 نومبر کی رات مہرو بھابی نے دعوت کا انتظام کررکھا تھا جس میں ساٹھ ستر خواتین و حضرات مع سفیر پاکستان محمد سعید خان اور ان کے سیکنڈ ان کمان احد صاحب موجود تھے۔ مہرو بھابی کے چہرے پر خوشی کی ایک ایسی روشنی تھی جو شاید صرف بہنوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہاں چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً وہ سب لوگ موجود تھے جن سے پہلے دورے کے دوران اسی گھر میں ملاقات ہوئی تھی ایسی ادب دوست اور شعر شناس محفل میں شاعری سنانا کم از کم میرے مشاعروں میں پڑھنے کی نسبت ایک مختلف اور پسندیدہ تجربہ ہے کہ آپ اپنے شعروں کو سامعین کی پر شوق آنکھوں میں بولتا اور ان کے دمکتے ہوئے چہروں میں جذب ہوتا ہوا محسوس کرسکتے ہیں۔
بہت سی خواتین نے میری بیگم فردوس کا حال اس کا نام لے کر دریافت کیا حالانکہ وہ کم از کم پندرہ برس قبل صرف ایک بار اسی گھر میں ان سے ملی تھی جتنی محبت اور سلوک کے ساتھ پاکستانی کمیونٹی غیر ممالک میں رہتی ہے۔ اسے دیکھ کر کئی بار خیال آتا ہے کہ ہم لوگ اپنے وطن میں اسی طرح رنگ، نسل، ذات، عقیدے اور دنیاوی مراتب سے بالاتر ہوکر کیوں نہیں رہتے کہ بقول شخصے جس علاقے میں دو پاکستانی جمع ہوجائیں، وہ تین انجمنیں بنالیتے ہیں، پوچھا گیا، وہ کیسے؟ تو جواب ملا:
''ایک تو وہ مل کر بناتے ہیں اور ایک ایک ان کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔''
یہ بہت سے چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل یہ ملک سعودی عرب کے شہر دمام (اس علاقے کو الخبر اور دہران بھی کہا جاتا ہے) سے تقریباً جڑا ہوا ہے کہ درمیان میں صرف بیس پچیس کلومیٹر کی ایک سمندری پٹی پڑتی ہے جسے ایک سمندری پل (جسے Cause way کہا جاتا ہے) جتنی بار بھی بحرین جانا ہوا یوں لگا جیسے ہم اپنے گھر کی طرف جارہے ہیں۔ مجھے یاد تھا کہ پچھلی بار بھی 2010 میں، میں اسی سوسائٹی کی دعوت پر بحرین گیا تھا البتہ اس بار یہ فرق دیکھا کہ گزشتہ تقریب کے میزبان اعلیٰ نہ تو تقریب میں موجود تھے اور نہ میزبان کمیٹی میں، معلوم ہوا کہ یہاں بھی وہی گروپ بازی کا مرض جڑ پکڑگیا ہے جس کا مظاہرہ ہم برصغیر کے لوگ دنیا بھر میں ہر جگہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پہلے اس میں صرف ہم پاکستانی ہی مبتلا تھے اب خیر سے بھارت والے بھی اسی نوع کی ''خیرسگالی'' کرنے لگے ہیں۔ ایک دوست نے اشارۃً کہا ''کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اس سرسید سوسائٹی کے تمام عہدیداران بھی مسلمان ہیں'' اس کی وضاحت تو نہیں ہوسکی مگر تکلیف ضرور ہوئی کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کا تصورکیوں ہے جب کہ ہمارا دین تو سراسر محبت، معافی اور صبر کا دین ہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ 2010ء کے میزبان شکیل احمد جیسے سادہ، منکسرالمزاج اور ادب دوست انسان سے کسی کو کیا شکایت ہوسکتی ہے کہ وہ تو (میری اطلاعات کے مطابق) زیادہ تر اخراجات بھی اپنی ذاتی جیب سے کرتے تھے۔
پاکستان سے اس بار مجھے اور سید وصی شاہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ ایئرپورٹ پر ہمارے میزبان اعلیٰ ندیم بھائی اپنے رفقاء سمیت موجود تھے۔ وہ خود کوئی دو گھنٹے قبل دبئی سے بحرین پہنچے تھے جہاں اب وہ بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ معلوم ہوا کہ بھارت سے منور رانا، ڈاکٹراشوک، انجم رہبر، طاہر فراز اور ڈاکٹر طارق قمر شرکت کررہے ہیں۔ سوائے ڈاکٹر اشوک کے باقی سب احباب سے ملاقات اور تعارف تھا معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بہت مشہور ''کوی'' ہیں اور اپنی کویتاؤں کی وجہ سے پدم شری کا ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں، کوی سملن کہنے کو تو مشاعرے کا ہندی نام ہے لیکن اصل میں یہ ایک ''ون مین شو'' ٹائپ کی پرفارمنس ہوتی ہے جس میں کوی حضرات گانے اور ہنسانے کے ساتھ ساتھ اپنی گفتگو میں شاعری نما کسی چیز کا تڑکا بھی لگاتے جاتے ہیں اور ان کی نظمیں عام طور پر نیم منظوم لطیفوں کی شکل میں ہوتی ہیں۔
جن میں دانش کی اکا دکا باتوں سے قطع نظر مداری کا سا تماشا ہوتا ہے۔ سو ڈاکٹر اشوک نے بھی یہی کچھ کیا۔ البتہ عام زندگی اور ملنے ملانے میں وہ بہت پڑھے لکھے اور نفیس طبع نظر آئے۔ بھارتی شعراء کی سینئر نسل میں اب صرف ندا فاضلی، وسیم بریلوی، خوشبیر سنگھ شاد اور منور رانا ہی مشاعروں کے ضمن میں سرفہرست دکھائی دیتے ہیں کہ مجروح، علی سردار جعفری، حماد صاحب، شہریار، عرفان صدیقی اور محمود سعیدی کی وفات اور بشیر بدر کی یادداشت کھوجانے کے بعد اب وہاں ''یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر'' کا سا معاملہ ہے کیونکہ گلزار صاحب کے پاس خواہش اور جاوید اختر کے پاس مشاعروں کے لیے وقت کی شدید کمی ہے۔
ہماری افسانہ نگار دوست فرحت پروین اور ان کے شوہر انعام خاں کا بیٹا احسن عرف حُسنی مجھے اپنے بیٹے علی ذی شان امجد کی طرح عزیز ہے۔ ان کا فیملی بزنس امریکا سعودی عرب اور بحرین تینوں ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ سو جب حُسنی کو میرے آنے کی خبر ہوئی تو وہ شکاگو سے یہ کہہ کر اڑتا چلا آیا کہ اسے بزنس کے کئی معاملات بھی طے کرنے ہیں مگر جب تک میں وہاں رہا وہ 24 گھنٹے میری خبر گیری کرتا رہا۔ ایئرپورٹ سے نکلنے اور راستے میں ایک جگہ رک کر دیگر میزبانوں کے ساتھ چائے پینے کے دوران اس نے کسی دوست کے ذریعے رات بارہ بجے بحرین کی سم والا ایک نیا موبائل فون منگوا کر میرے سپرد کیا تاکہ وہاں مجھے رابطے میں آسانی رہے۔
مشاعرے سے اگلے روز دوپہر کے کھانے کے بعد میں حسب وعدہ نور پٹھان کے گھر منتقل ہوگیا جہاں سامان رکھنے کے بعد احمد عادل اور رخسار ناظم آبادی کے ساتھ ہم چاروں، بحرین ہی نہیں بلکہ میرے نزدیک سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے سب سے اہم اور بزرگ اردو شاعر برادرم سعید قیس کی طرف روانہ ہوئے (کہ بحرین کا سفر ان سے اور افضل نجیب مرحوم کی فیملی سے ملے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا)۔ سعید قیس کئی برسوں سے علیل چلے آرہے ہیں۔ ان کے بچے ماشاء اللہ سعادت مند ہیں اور خوشحال بھی سو انھیں اور تو کسی قسم کی پریشانی نہیں لیکن دمے اور کمزوری کی وجہ سے ان کی تنہائی زیادہ گھمبیر ہوگئی ہے اور وہ بالکل گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔
ہمارے آنے سے ان کی طبیعت وقتی طور پر بہل گئی اور کچھ ہی دیر میں وہ اپنی پرانی فارم میں واپس آگئے۔ معلوم ہوا کہ اب وہ بہت کم لکھتے ہیں مگر اپنے مخصوص سہل ممتنع کے انداز میں جو چند تازہ اشعار انھوں نے سنائے وہ حسب معمول بہت زیادہ خوبصورت اور تخلیقی انداز کے تھے۔ عمرکے اعتبار سے ان کا تعلق احمد فراز، احمد مشتاق، منیر نیازی، شہزاد احمد، جون ایلیا، سلیم احمد، شکیب جلالی اور محسن احسان والی نسل سے بنتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر وہ زندگی کا بیشتر حصہ ادبی فضا اور ماحول سے دور نہ گزارتے تو فنی اعتبار سے بھی وہ اسی صف کے آدمی ہوتے۔
ذکیہ اور ڈاکٹر سلیم بھی بحرین کے پہلے دورے میں بننے والے دوستوں میں سے ہیں۔ دونوں میاں بیوی تدریس کے شعبے سے متعلق ہیں اور دونوں ادب کے رسیا ہیں سو اس سے تجدید ملاقات ہوئی ان کے نئے اور ذاتی خوب صورت گھرمیں چائے کے بہانے کچھ وقت گزرا، سارا گھر اولاد سے محرومی کے باوجود ان کی محبت کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا وہ دونوں صحیح معنوں میں اس مختصر نظم کی تصویر ہیں کہ
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
ہفتہ 15 نومبر کی رات مہرو بھابی نے دعوت کا انتظام کررکھا تھا جس میں ساٹھ ستر خواتین و حضرات مع سفیر پاکستان محمد سعید خان اور ان کے سیکنڈ ان کمان احد صاحب موجود تھے۔ مہرو بھابی کے چہرے پر خوشی کی ایک ایسی روشنی تھی جو شاید صرف بہنوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہاں چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً وہ سب لوگ موجود تھے جن سے پہلے دورے کے دوران اسی گھر میں ملاقات ہوئی تھی ایسی ادب دوست اور شعر شناس محفل میں شاعری سنانا کم از کم میرے مشاعروں میں پڑھنے کی نسبت ایک مختلف اور پسندیدہ تجربہ ہے کہ آپ اپنے شعروں کو سامعین کی پر شوق آنکھوں میں بولتا اور ان کے دمکتے ہوئے چہروں میں جذب ہوتا ہوا محسوس کرسکتے ہیں۔
بہت سی خواتین نے میری بیگم فردوس کا حال اس کا نام لے کر دریافت کیا حالانکہ وہ کم از کم پندرہ برس قبل صرف ایک بار اسی گھر میں ان سے ملی تھی جتنی محبت اور سلوک کے ساتھ پاکستانی کمیونٹی غیر ممالک میں رہتی ہے۔ اسے دیکھ کر کئی بار خیال آتا ہے کہ ہم لوگ اپنے وطن میں اسی طرح رنگ، نسل، ذات، عقیدے اور دنیاوی مراتب سے بالاتر ہوکر کیوں نہیں رہتے کہ بقول شخصے جس علاقے میں دو پاکستانی جمع ہوجائیں، وہ تین انجمنیں بنالیتے ہیں، پوچھا گیا، وہ کیسے؟ تو جواب ملا:
''ایک تو وہ مل کر بناتے ہیں اور ایک ایک ان کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔''