علما اور بیگمات
وزیر اعظم بوگرہ کی حرکت نے یہاں کی مہذب سوسائٹی میں ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
پاکستان میں علما اور بیگمات کی کشمکش ہماری تاریخ کا دلچسپ حصہ ہے۔ ایک جنگ سی نظر آتی ہے، دونوں طبقات میں اس کی بھرپور ابتدا ایوب خان کے دور میں مسلم فیملی لا سے ہوتی ہے اور آج تک ٹی وی کے مناظروں میں اس لڑائی کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ تحریک پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کا کردار تلاش کیا جا سکتا ہے۔
حیات قائد تک دونوں ایک ہی کشتی کے سوار تھے۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ایک طرف اپوا قائم ہوئی تو دوسری طرف ''قرارداد مقاصد'' کی منظوری منتخب ایوان نے دی۔ ایک طرف عورت کی آزادی کی بات کی گئی تو دوسری طرف پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگایا گیا۔ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور غلام محمد کے دور تک دونوں طبقات اپنے آپ کو مضبوط کرتے رہے۔ ایسے میں سن 55 آ گیا۔
وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کی دوسری شادی نے معاملے کو بھڑکا دیا۔ پہلی بیوی حمیدہ کی موجودگی میں انھوں نے اپنی سیکریٹری عالیہ سے شادی کر لی۔ ایک طرف یہ معاملہ ان کے سیاسی حریفوں کے ہاتھ آ گیا تو دوسری طرف اپوا کی بیگمات نے عورت کے حقوق کی صدا بلند کر دی۔ ایک مصری خاتون حقوق نسواں کا نعرہ لے کر پاکستان تشریف لائیں۔
دوسری طرف لندن میں ایک پاکستانی عورت نے کہا کہ ''وزیر اعظم بوگرہ کی حرکت نے یہاں کی مہذب سوسائٹی میں ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا'' حکومت نے عالمی قوانین کے لیے کمیشن بنایا جس میں ایک بیگم اور ایک عالم نمایاں تھے۔ بیگم شاہ نواز اور مولانا احتشام الحق تھانوی اس سات رکنی ادارے کے ممبران تھے۔ اس نے نکاح، طلاق، ایک سے زائد بیویوں، مہر، وراثت اور وصیت سے متعلق پچاس سوالات عوام کے لیے جاری کیے۔ مولانا تھانوی کا اختلافی نوٹ علما اور بیگمات کے ٹکراؤ کی پہلی کڑی تھی۔ مولانا کا کہنا تھا کہ کمیشن کے ارکان کی اسلام کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ جب کہ خالص شرعی مسائل پر عوام سے ووٹنگ ایک قسم کی اہانت ہے۔
ان کی رائے تھی کہ جہاں احکامات واضح ہوں وہاں اجتہاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عالمی کمیشن کی رپورٹ پر علما اور بیگمات ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ ایک طرف مذہبی طبقے کی مخالفت تھی تو دوسری طرف انجمن خواتین پاکستان کی موافقت۔ ایک طرف مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری توڑنے کا عزم تھا تو دوسری طرف مغرب کی حوصلہ افزائی سے قائم حقوق نسواں کی تنظیموں سے مقابلے کا ارادہ۔ رپورٹ کے خلاف رد عمل اتنا شدید تھا کہ حکومت اس کو نافذ کرنے کی جرأت نہ کر سکی۔ ایسے میں ایوبی مارشل لاء لگ گیا۔ آئین ختم ہوا تو عالمی کمیشن کی سفارشات بھی کالعدم ہو گئیں۔
ایوب خان نے 1961میں مسلم فیملی لاء کچھ ترامیم کے بعد نافذ کر دیا۔ ملک کی فضا ایک بار پھر ہیجان انگیز ہو گئی اور علما و بیگمات ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے۔ نکاح کی مدت، طلاق کے لیے نوٹس اور نکاح ثانی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت پر علما کو اعتراض تھا۔ دونوں طرف سے طعن و طنز کی بوچھاڑ تھی۔ یہی وہ دور تھا جس میں ''مغرب زدہ'' اور ''ملا'' کی اصطلاحیں ایجاد ہوئیں۔ طنزیہ دلائل کا یہ انداز ملاحظہ فرمایئے۔
''آگے آگے چند بیگمات دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے پیچھے پرستان فرنگ کا مختصر سا طبقہ پھر ان کے پیچھے نئے مجتہدین ہیں، جو ماڈرن اسلام کا پیکر، تاویل کی چھلنی اور انکار سنت کے ہتھوڑوں کی ضربوں سے تراش رہے ہیں، پھر ان کے پیچھے کمال ازم کی صہبا کے سرپرست ہیں۔ آخر میں بیرونی مربیان آتے ہیں''
خواتین بالخصوص اپوا کی ممبران نے مسلم فیملی لاء آرڈیننس کو سراہا۔ خو ش حال، ماڈرن اور پڑھی لکھی خواتین کی تنظیم نے حکومتی اقدامات کی تعریف کی جب کہ ایڈووکیٹ ثریا احمد پائی نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ''شادی کمیشن کی رپورٹ نے اسلامی ازدواجی قانون کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ''ایوب کا دور گزرا اور یحییٰ و بھٹو بھی رخصت ہوئے کہ جنرل ضیا الحق تشریف لائے، اب ایک بار پھر علما اور بیگمات آمنے سامنے تھے۔
عورتوں کے مقام اور دائرہ کار پر کمیشن بنانے کے علاوہ اسلامی سزاؤں پر قانون سازی کی گئی۔ حدود آرڈیننس کی موافقت اور مخالفت پر بھی مذہبی طبقے اور اپوا آمنے سامنے دکھائی دیے۔ بد کاری، زنا، قذف اور چوری کے قوانین نافذ کیے گئے۔ شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔ جنرل ضیا کی زندگی میں کوئی بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ بے نظیر کے پہلے اور دوسرے دور میں حدود کے قوا نین کی مخالفت سنائی دینے لگی۔ ایسے میں جنرل مشرف تشریف لائے۔ سب جانتے تھے کہ فیملی کے قوانین ایوب کے دور تو اسلامی قوانین ضیا کے دور میں لائے گئے۔
اپوا کی بیگمات نے جانا کہ متنازعہ قوانین کا متعارف کروا نا یا منسوخ کروانا جمہوری حکومتوں کے بس کی بات نہیں اس کام کے لیے فوجی دور مناسب ہے۔ جنرل مشرف کے سیکولر رجحان نے بیگمات کو مائل کیا کہ وہ اس دور سے فائدہ اٹھائیں ''دور ضیا'' کے قوانین کو منسوخ کروانے کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ حدود آرڈیننس کے حوالے سے دونوں جانب کے دلائل زور دار تھے، راقم نے اس پر کئی کالم لکھے۔ اس دلچسپ مکالمے سے قبل لازمی ہے کہ فیملی لاء اور حدود آرڈیننس سے متعلق اعلیٰ عدالتوں کی لاء کو سمجھ لیا بعد از ضیا اور قبل از مشرف کے ایک اہم عدالتی فیصلے پر نظر دوڑائی جائے۔
1992میں وفاقی شرعی عدالت نے مسلم فیملی لاء آرڈیننس کی دفعہ سات کو غیر اسلامی قرار دیا۔ بیوی نے شوہر سے قانون کے مطابق طلاق حاصل نہ کی تو اسے قید و جرمانے کی سزا دی گئی، ذمے دار کون؟ حدود آرڈیننس یا فیملی لاء عدالت نے ایوبی قانون کی اس دفعہ کو غیر اسلامی قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ اسلامی قانون کی رو سے طلاق کا نوٹس دیا جانا لازمی نہیں، زبانی طلاق موثر ہوتی ہے۔ اپوا بیگمات اسے حدود آرڈیننس کی خامی قرار دے رہی تھیں جب کہ عورتیں پکڑی جاتی تھیں مسلم فیملی لاء آرڈیننس کی وجہ سے۔ اب آتے ہیں حدود آرڈیننس پر علما اور بیگمات کے دلائل کی جانب۔
بیگمات کا کہنا تھا کہ یہ قانون مارشل لاء کے دور میں نافذ ہوا تھا جب ملک میں کوئی پارلیمنٹ موجود نہ تھی اگر کسی مرد کو زیادتی کرتے صرف عورتیں دیکھیں تو مرد کو حد کی سزا نہیں دی جا سکتی، طلاق یافتہ عورت اگر دوسری شادی کرے تو سابقہ شوہر اغوا کا کیس بنا دیتا ہے، پہلے خواتین قیدیوں کی تعداد چالیس فی صد تھی اور حدود آرڈیننس کے بعد پچاس فی صد ہو گئی ہے۔ عورتوں پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
علما کے دلائل تھے کہ مسلم فیملی لاء آرڈیننس بھی ایوبی دور میں آیا جب کوئی پارلیمنٹ نہ تھی۔ اگر ہاسٹل میں کوئی مرد زیادتی کرے اور صرف عورتیں ہی دیکھ رہی ہوں تو ایسے مرد کے لیے ہڈیاں اور بال بچانا ممکن نہیں ہوتا۔ زنا بالجبر کے احکامات احادیث نبویؐ ، تفاسیر صحابہ ؓ اور فقہ کے قوانین میں موجود ہیں۔ حدود آرڈیننس سے قبل زنا کوئی جرم نہ تھا اس لیے جرم کرنے والے گرفت میں نہیں آتے تھے۔ خواتین پر جھوٹے الزامات لگانے والوں کو قذف کے الزام میں گرفتار کرنا چاہیے تا کہ پاک دامن عورتوں پر جھوٹا الزام لگانے والا اپنی پیٹھ کی طاقت بھی جانچ سکے اور اپنی ہڈیوں کی مضبوطی بھی دیکھ سکے۔ جبر سے رضامندی والی دفعہ بدل جانے کا معاملہ یہ ہے کہ جب پسند کی شادی کا ارادہ رکھنے والا جوڑا گرفتار ہو جاتا ہے تو لڑکی اپنا بیان بدل دیتی ہے۔
وہ اپنی رضامندی کو زبردستی قرار دیتی ہے جب کہ اس نے لڑکے کے ساتھ ریل میں سفر کیا ہوتا ہے اور ہوٹل میں وقت گزارا ہوتا ہے۔ فلمیں دیکھی ہوتی ہیں اور تصویریں کھنچوائی ہوتی ہیں۔ یہ تھی علما اور بیگمات کی کشمکش حدود آرڈیننس کو جاری رکھنے اور ختم کرنے کے حوالے سے جس کا تفصیلی تذکرہ راقم کی 2004 میں شایع ہونے والی کتاب ''عدلیہ تاریخ کے کٹہرے میں'' میں موجود ہے۔ پھر دور مشرف میں کیا ہوا؟
مشرف کے دور میں حدود آرڈیننس کے خاتمے کی تحریک نے زور پکڑا۔ بیگمات اس قانون کو خواتین کے خلاف سمجھتی ہیں تو علما اسے آوارگی کا راستہ روکنے کا ذریعہ قرار دیتے۔ اس قانون کو ختم کرنے کے بجائے تحفظ حقوق نسواں کے نام پر ترامیم کر کے حدود آرڈیننس کو غیر موثر کر دیا گیا۔ آج بھی علما اور بیگمات کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے، کبھی عافیہ صدیقی کو لے کر تو کبھی کسی خاتون کو کوڑے مارنے کی ویڈیو کو اصلی یا جعلی قرار دینے کے معاملے پر تو کبھی ملالہ کو لے کر۔ ہم نے کالم میں مختصراً اس کشمکش کی تاریخ بیان کر دی ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی ہم دیکھیں گے زوردار مباحثے جس کے فریق ہوں گے علما اور بیگمات۔