اعتراف حصہ اول
’’مجھے قطعاً یاد نہیں کہ اماں جی نے کبھی ہم سے کہا ہو، بیٹے! سچ بولا کرو، صبح سویرے اٹھا کرو، نماز پڑھا کرو وغیرہ۔
''اعتراف'' کے عنوان سے سعید اکرم نے کچھ خاکے لکھے ہیں۔ پہلا خاکہ ان کی اماں جی کا ہے۔ محبت اور عقیدت کا پہلا حق تو ماں کا ہی ہوتا ہے۔ سعید نے اپنی کتاب کو ان ہی سے منسوب کیا ہے۔ کہتے ہیں ''دنیا کے ہر شخص کی طرح میری اماں جی بھی میری داستان زندگی کا مرکزی کردار اور میرے مکتب زندگی کی سب سے بڑی استاد ہیں۔''
''اعتراف'' میں سعید اکرم نے اپنے مکتب اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کا ذکر کیا ہے، ان کی فیض رسانی اور اپنی سپاس گزاری کا اعتراف و اظہار کیا ہے۔
سعید اکرم کی ماں پڑھنا تو جانتی تھیں مگر لکھنا بالکل نہیں آتا تھا۔ اس کے باوجود ان کا شمار گاؤں کی پڑھی لکھی خواتین میں ہوتا تھا۔ گاؤں کی عورتیں اپنے چھوٹے موٹے مسائل پر مشورہ کرنے ان ہی کے پاس آتی تھیں۔ ان کا نام آشاں تھا اور سعید کہتے ہیں بچپن ہی میں نہیں اب اس عمر بھی میری شناخت ان ہی کے نام سے ہوتی تھی۔ میں جب ان کا نام لیتا تھا تو وہ کچھ یوں کہتی تھیں، ''میں صدقے ونجاں توں مینڈی ماسی آشاں دا پتر ایں۔''
سعید لکھتے ہیں ''مجھے قطعاً یاد نہیں کہ اماں جی نے کبھی ہم سے کہا ہو، بیٹے! سچ بولا کرو، صبح سویرے اٹھا کرو، نماز پڑھا کرو وغیرہ۔ وہ ایک ایسا چشمہ تھیں جس کا پاکیزہ پانی خاموشی کے ساتھ ہمارے داخل سے گزر کر ہماری مٹی کو سیراب کرتا رہتا۔ وہ ایسا چراغ تھیں جس کی روشنی چپکے چپکے گھر کے در و دیوار کو منور کرتی رہتی۔ وہ ایسی معطر ہوا تھیں جس کے نرم نرم جھونکے اذان بن کر روح کو بیدار کیے رکھتے۔ سچ ہے کردار الہامی آواز ہے جو صرف دل کے اندر سنائی دیتی ہے اور گہرا اور دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔''
سعید کی ماں کو کعبے کی زیارت اور روضہ رسول پر حاضری کی ایک مدت سے تمنا تھی۔ پھر سعید کو اللہ نے توفیق دی اور ان کی یہ تمنا پوری ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ''میں حرم پاک میں ان کا ہاتھ پکڑے اللہ کے گھر کے طواف کے پہلے چکر میں تھا۔ میں نے پوچھا ''اماں جی! آپ مجھ سے راضی ہیں نا؟''
بولیں: ''میرا اللہ تم سے راضی ہو۔''
سعید اکرم کے گاؤں (کھوتیاں) کی بڑے مینار والی مسجد کے خطیب کا نام تو سید نیاز حسین شاہ تھا لیکن سب لوگ انھیں شاہ جی کہہ کر پکارتے تھے۔ جمعے کی نماز کے لیے پورے علاقے کے لوگ یہاں جمع ہو جاتے اور پوری مسجد نمازیوں سے بھر جاتی۔ اس مسجد کی طرف لوگوں کی کشش کی ایک بڑی وجہ شاہ جی تھے۔ سعید لکھتے ہیں ''کیا خوبصورت شخصیت تھی، سفید گلابی مائل رنگت، گول چہرے کی دلکشی میں اضافہ کرتے کسی زمانے کی چیچک کے خال خال نشان، جیسے صبح دم آسمان پر اکا دکا ماند پڑتے ستارے۔ با رعب اور مترنم آواز، بالخصوص جب نماز جمعہ کا خطبہ پڑھتے تو ساری مسجد جھوم جاتی۔''
وہ مسجد ہی کے ایک حصے میں اکیلے رہتے تھے۔ فارسی، عربی کے عالم تھے پڑھنا پڑھانا ان کا واحد مشغلہ تھا۔ ایک روز میاں بشیر سہگل ان سے ملنے آئے۔ سہگل خاندان آبائی طور پر اسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ وہ اس گاؤں میں ہائی اسکول بنانے کے لیے شاہ جی سے مشورہ اور ان کی دعائیں لینے آئے تھے۔ پھر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ یہ اسکول اور اس کی عالی شان عمارت وجود میں آ گئی۔ شاہ جی اس کے سرپرست تو تھے ہی عربی فارسی کے استاد بھی مقرر ہو گئے۔ کئی سال گزر گئے پھر یہ ہوا کہ اچانک ایک حکومت آئی، اسکول سرکاری ملکیت میں چلا گیا اور شاہ جی سمیت کئی اساتذہ کو جنھوں نے اپنا خون جگر دے کر ایک ننھے پودے کو شجر سایہ دار بنایا تھا، خالی ہاتھ گھر بھیج دیا گیا۔ شاہ جی گوشہ نشین ہو گئے۔ سعید اکرم لکھتے ہیں ''پھر ایک دن جب مسجد کا نقارہ جو کبھی شاہ جی کی انگلی کے اشارے کا منتظر رہتا تھا، اجل کے اشارے پر بجنے لگا تو ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہو گیا۔''
سعید نیاز حسین شاہ مینار والی مسجد کے خطیب تھے، مسجد کے امام حافظ فیروز الدین تھے، وہ بچوں کے قاعدے اور سپارے کے استاد بھی تھے۔ حافظ صاحب نابینا تھے۔ سعید اکرم لکھتے ہیں ''وہ قرآن مجید کے جید حافظ تھے۔ قرآن مجید کا سمندر ان کے اندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ حفظ قرآن کے حوالے سے یہ علاقہ ان کی خدمات کا صلہ کسی صورت ادا نہیں کر سکتا۔ انھوں نے محض روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزر بسر کر کے علاقے کو وہ دولت دی جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔''
سعید نے ان سے قاعدہ پھر سپارہ اور پھر ناظرہ قرآن اختتام تک پڑھا۔ لکھتے ہیں ''ہم اس تک کب اور کیسے پہنچے یہ تو یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ جس دن ہمیں مسجد پہنچنے میں دیر ہوتی، دو بچے ہمیں لینے گھر پہنچ جاتے۔''
حافظ محمد صادق سعید اکرم کے استاد تھے۔ جب حافظ فیروزالدین اپنے گاؤں واپس چلے گئے تو وہ ان کی جگہ گاؤں کی جامع مسجد میں قائم مدرسے کے انچارج ہوئے تھے۔ کھیتی باڑی ان کا پیشہ تھا اور قرآن ان کا شوق۔ سعید اکرم لکھتے ہیں ''استاد مکرم نے ساری زندگی نہایت سادگی سے گزاری۔ انھیں میں نے کبھی کسی سے ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ حد درجہ ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے حافظ قرآن ہو کر جس روایت کی ابتدا کی وہ آگے بڑھی تو آج اس کی بدولت اس خاندان میں درجنوں حفاظ ہی نہیں کئی مستند عالم بھی موجود ہیں۔''
سعید اکرم کے گاؤں میں اس وقت ہائی اسکول نہیں تھا چنانچہ وہ پانچویں پاس کر کے بیس بائیس کلومیٹر دور سہولہ کے ڈی سی ہائی اسکول میں چھٹی کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کے کلاس انچارج اور انگریزی کے استاد چوہدری محمد یوسف تھے۔ بڑا سادہ سا زمانہ تھا۔ سعید اور ان کے ہم جماعت ٹاٹ سے بھی بے نیاز فرش پر بیٹھ کر انگریزی پڑھتے اور لکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں ''اس سب کے علی الرغم میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مجھے چوہدری محمد یوسف جیسے استاد میسر نہ آتے تو میں آج تعلیمی دنیا سے دور کسی اور ہی دنیا میں مصروف کار ہوتا۔'' سعید نے چوہدری محمد یوسف سے ایک سال پڑھا لیکن وہ لکھتے ہیں کہ ''نئی تختی پر لکھے الفاظ جس طرح تختی پر ملی مٹی کے اندر سے جھانکتے رہتے ہیں، استاد محترم کی شفقتیں آج بھی میرے دل میں ستاروں کی طرح چمکتی ہیں۔''
(جاری ہے)
''اعتراف'' میں سعید اکرم نے اپنے مکتب اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کا ذکر کیا ہے، ان کی فیض رسانی اور اپنی سپاس گزاری کا اعتراف و اظہار کیا ہے۔
سعید اکرم کی ماں پڑھنا تو جانتی تھیں مگر لکھنا بالکل نہیں آتا تھا۔ اس کے باوجود ان کا شمار گاؤں کی پڑھی لکھی خواتین میں ہوتا تھا۔ گاؤں کی عورتیں اپنے چھوٹے موٹے مسائل پر مشورہ کرنے ان ہی کے پاس آتی تھیں۔ ان کا نام آشاں تھا اور سعید کہتے ہیں بچپن ہی میں نہیں اب اس عمر بھی میری شناخت ان ہی کے نام سے ہوتی تھی۔ میں جب ان کا نام لیتا تھا تو وہ کچھ یوں کہتی تھیں، ''میں صدقے ونجاں توں مینڈی ماسی آشاں دا پتر ایں۔''
سعید لکھتے ہیں ''مجھے قطعاً یاد نہیں کہ اماں جی نے کبھی ہم سے کہا ہو، بیٹے! سچ بولا کرو، صبح سویرے اٹھا کرو، نماز پڑھا کرو وغیرہ۔ وہ ایک ایسا چشمہ تھیں جس کا پاکیزہ پانی خاموشی کے ساتھ ہمارے داخل سے گزر کر ہماری مٹی کو سیراب کرتا رہتا۔ وہ ایسا چراغ تھیں جس کی روشنی چپکے چپکے گھر کے در و دیوار کو منور کرتی رہتی۔ وہ ایسی معطر ہوا تھیں جس کے نرم نرم جھونکے اذان بن کر روح کو بیدار کیے رکھتے۔ سچ ہے کردار الہامی آواز ہے جو صرف دل کے اندر سنائی دیتی ہے اور گہرا اور دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔''
سعید کی ماں کو کعبے کی زیارت اور روضہ رسول پر حاضری کی ایک مدت سے تمنا تھی۔ پھر سعید کو اللہ نے توفیق دی اور ان کی یہ تمنا پوری ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ''میں حرم پاک میں ان کا ہاتھ پکڑے اللہ کے گھر کے طواف کے پہلے چکر میں تھا۔ میں نے پوچھا ''اماں جی! آپ مجھ سے راضی ہیں نا؟''
بولیں: ''میرا اللہ تم سے راضی ہو۔''
سعید اکرم کے گاؤں (کھوتیاں) کی بڑے مینار والی مسجد کے خطیب کا نام تو سید نیاز حسین شاہ تھا لیکن سب لوگ انھیں شاہ جی کہہ کر پکارتے تھے۔ جمعے کی نماز کے لیے پورے علاقے کے لوگ یہاں جمع ہو جاتے اور پوری مسجد نمازیوں سے بھر جاتی۔ اس مسجد کی طرف لوگوں کی کشش کی ایک بڑی وجہ شاہ جی تھے۔ سعید لکھتے ہیں ''کیا خوبصورت شخصیت تھی، سفید گلابی مائل رنگت، گول چہرے کی دلکشی میں اضافہ کرتے کسی زمانے کی چیچک کے خال خال نشان، جیسے صبح دم آسمان پر اکا دکا ماند پڑتے ستارے۔ با رعب اور مترنم آواز، بالخصوص جب نماز جمعہ کا خطبہ پڑھتے تو ساری مسجد جھوم جاتی۔''
وہ مسجد ہی کے ایک حصے میں اکیلے رہتے تھے۔ فارسی، عربی کے عالم تھے پڑھنا پڑھانا ان کا واحد مشغلہ تھا۔ ایک روز میاں بشیر سہگل ان سے ملنے آئے۔ سہگل خاندان آبائی طور پر اسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ وہ اس گاؤں میں ہائی اسکول بنانے کے لیے شاہ جی سے مشورہ اور ان کی دعائیں لینے آئے تھے۔ پھر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ یہ اسکول اور اس کی عالی شان عمارت وجود میں آ گئی۔ شاہ جی اس کے سرپرست تو تھے ہی عربی فارسی کے استاد بھی مقرر ہو گئے۔ کئی سال گزر گئے پھر یہ ہوا کہ اچانک ایک حکومت آئی، اسکول سرکاری ملکیت میں چلا گیا اور شاہ جی سمیت کئی اساتذہ کو جنھوں نے اپنا خون جگر دے کر ایک ننھے پودے کو شجر سایہ دار بنایا تھا، خالی ہاتھ گھر بھیج دیا گیا۔ شاہ جی گوشہ نشین ہو گئے۔ سعید اکرم لکھتے ہیں ''پھر ایک دن جب مسجد کا نقارہ جو کبھی شاہ جی کی انگلی کے اشارے کا منتظر رہتا تھا، اجل کے اشارے پر بجنے لگا تو ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہو گیا۔''
سعید نیاز حسین شاہ مینار والی مسجد کے خطیب تھے، مسجد کے امام حافظ فیروز الدین تھے، وہ بچوں کے قاعدے اور سپارے کے استاد بھی تھے۔ حافظ صاحب نابینا تھے۔ سعید اکرم لکھتے ہیں ''وہ قرآن مجید کے جید حافظ تھے۔ قرآن مجید کا سمندر ان کے اندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ حفظ قرآن کے حوالے سے یہ علاقہ ان کی خدمات کا صلہ کسی صورت ادا نہیں کر سکتا۔ انھوں نے محض روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزر بسر کر کے علاقے کو وہ دولت دی جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔''
سعید نے ان سے قاعدہ پھر سپارہ اور پھر ناظرہ قرآن اختتام تک پڑھا۔ لکھتے ہیں ''ہم اس تک کب اور کیسے پہنچے یہ تو یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ جس دن ہمیں مسجد پہنچنے میں دیر ہوتی، دو بچے ہمیں لینے گھر پہنچ جاتے۔''
حافظ محمد صادق سعید اکرم کے استاد تھے۔ جب حافظ فیروزالدین اپنے گاؤں واپس چلے گئے تو وہ ان کی جگہ گاؤں کی جامع مسجد میں قائم مدرسے کے انچارج ہوئے تھے۔ کھیتی باڑی ان کا پیشہ تھا اور قرآن ان کا شوق۔ سعید اکرم لکھتے ہیں ''استاد مکرم نے ساری زندگی نہایت سادگی سے گزاری۔ انھیں میں نے کبھی کسی سے ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ حد درجہ ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے حافظ قرآن ہو کر جس روایت کی ابتدا کی وہ آگے بڑھی تو آج اس کی بدولت اس خاندان میں درجنوں حفاظ ہی نہیں کئی مستند عالم بھی موجود ہیں۔''
سعید اکرم کے گاؤں میں اس وقت ہائی اسکول نہیں تھا چنانچہ وہ پانچویں پاس کر کے بیس بائیس کلومیٹر دور سہولہ کے ڈی سی ہائی اسکول میں چھٹی کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کے کلاس انچارج اور انگریزی کے استاد چوہدری محمد یوسف تھے۔ بڑا سادہ سا زمانہ تھا۔ سعید اور ان کے ہم جماعت ٹاٹ سے بھی بے نیاز فرش پر بیٹھ کر انگریزی پڑھتے اور لکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں ''اس سب کے علی الرغم میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مجھے چوہدری محمد یوسف جیسے استاد میسر نہ آتے تو میں آج تعلیمی دنیا سے دور کسی اور ہی دنیا میں مصروف کار ہوتا۔'' سعید نے چوہدری محمد یوسف سے ایک سال پڑھا لیکن وہ لکھتے ہیں کہ ''نئی تختی پر لکھے الفاظ جس طرح تختی پر ملی مٹی کے اندر سے جھانکتے رہتے ہیں، استاد محترم کی شفقتیں آج بھی میرے دل میں ستاروں کی طرح چمکتی ہیں۔''
(جاری ہے)