بات کچھ اِدھر اُدھر کی دہشتگرد بمقابلہ معصوم افراد

41 دہشتگردوں کی عارمیں 1147 معصوموں کی جانیں نہیں لی جاسکتی کہ یہ بھی ویسے ہی انسان تھے جیسے امریکا میں بستے ہیں۔


فہیم پٹیل November 26, 2014
امریکہ بہادر کا کمال دیکھے کہ 41 دہشتگردوں کو 3، 3 بار مارا مگر پھر بھی 7 اب تک زندہ ہیں۔ اب نہیں جانتا کہ یہ بیچارے مزید کتنی بار مریں گے اور ہمارے میڈیا والے کب تک اِن افراد کے مرنے کی خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے رہیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD: میری بات مت سنیں، وہ سنیں جو دنیا کہتی ہے ۔۔۔۔ اور دنیا یہ کہتی ہے کہ امریکا دنیا کا مہذب ترین ملک ہے۔ جہاں لوگوں کوہر بنیادی حقوق میسر ہیں اور ناانصافی؟ ناانصافی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں انسان تو انسان، جانوروں سے بھی ایسی محبت کی جاتی ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔

مجھے اُمید نہیں بلکہ یقین ہے کہ ابتدائی سطریں پڑھ کر آپ کو امریکا پر اور وہاں کے رہنے والوں پر رشک آرہا ہوگا اوراور آنا بھی چاہیے۔

کہنے والے لیکن ہمیں اور آپ کو یہ بتانا بھول گئے کہ امریکا ، صرف امریکا میں رہنے والوں کے لیے مہذب ہے۔۔۔ اور آپ کو بھی بنیادی سہولیات محض اُسی وقت ملے گی جب آپ وہاں کے بنیادی شہری ہوں ۔۔۔۔ وگرنہ، وگرنہ تو آپ دہشتگرد ہوں یا ایک معصوم انسان، امریکا بہادر کسی میں کچھ فرق نہیں کرتا۔

اگرتو آپ امریکی حمایتی ہیں تو اِس وقت مجھے بُرا بھلا کہہ رہے ہونگے اور کہنا بھی چاہیے کہ ابھی تک میں نے حقیقت بیان نہیں کی۔ جب حقیقت بیان ہوگی تو شاید، بلکہ شاید نہیں یقیناًٍ آپ کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوجائے گی ۔

تو جناب حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مہذب ترین ملک امریکا نے اپنے ملکی حدود کے باہر بڑے بڑے کمالات کیے ہیں ۔۔۔۔ اور کمالات بھی ایسے کہ عام حالات میں جسے ناممکن تصور کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ مگر چونکہ امریکا عالمی طاقت ہے اور بھلا اِس حیثیت سے اِس کے پاس اتنا اختیار تو ہونا چاہیے کہ ایک انسان کو ایک بار نہیں بلکہ بار بار مارے ۔۔۔ شاید آپ حیران ہوگئے ، لیکن حیرانگی کی ہرگز ضرورت نہیں کہ 'بین الاقوامی تنظیم ریپریو کی جانب سے ''یو نیور ڈائی ٹوائس'' نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان اور یمن میں ''مطلوب دہشتگردوں'' کے خاتمے کے لئے بڑی شد و مد سے ڈرون حملے کئے جاتے ہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ یہ ڈرون حملے 21 فیصد ہی اپنے اہداف کو حاصل کرپاتے ہیں، عام طور جن لوگوں کی موجودگی کی اطلاع پر حملے کئے جاتے ہیں ان میں وہ افراد تو بچ جاتے ہیں لیکن درجنوں بے گناہ شہریوں کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔'

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دونوں ممالک میں 41 ایسے مطلوب افراد ہیں جو امریکی، پاکستانی یا یمنی حکام کے دعوؤں کے مطابق ہر فرد 3 بار ہلاک ہوچکے ہیں ، لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان 41 میں سے 7 افراد اب بھی زندہ ہیں اب نہیں جانتا کہ یہ بیچارے مزید کتنی بار مریں گے اور میڈیا والے کب تک اِن افراد کے مرنے کی خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے رہیں گے ۔ لیکن جو اِس رپورٹ کا سب سے افسردہ پہلو ہے وہ یہ کہ تمام تر ٹیکنالوجی سہولیات کے باوجود محض ان 41 افراد کو نشانے بنانے کے لیے اب تک 1147 معصوم لوگ مارے جاچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔

اِس رپورٹ کو پڑھنے کےبعد سوچتا ہوں کہ آخر ہمارے لیے زیادہ خطرناک کون ہے؟ وہ مٹھی بھر دہشتگرد جنہوں نے اب تک ہزاروں افراد کو قتل کردیا یا پھر وہ امریکا جس نے اِن دہشتگردوں کو ختم کرنے کے لیے پوری دنیا میں لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنادیا مگر اُس کے باوجود دہشتگرد اور دہشتگردی دونوں پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہیں۔ اب یہ تو یہ دہشتگرد عالمی طاقتوں سے بھی زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں یا پھر عالمی طاقتوں کے پیش نظر ان دہشتگردوں کا خاتمہ ہے ہی نہیں کہ اگر یہ ختم ہوگئے تو کاروبار زندگی کیسے چلے گا۔

آپ میری رائے سے اتفاق کریں یا اختلاف، مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جناب میں یہ نہیں جانتا کہ وہ 41 افراد پاکستان اور یمن یا پھر عالمی امن کےلیے خطرہ تھے بھی یا نہیں مگر میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی عار میں 1147 معصوم افراد کی جانیں لینے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا کیونکہ یہ 1147 افراد میں بالکل ویسے ہی انسان تھے جیسے انسان امریکا اور یورپی ممالک میں بستے ہیں۔

لیکن میری شکایت امریکا سے ہرگز نہیں کہ اُس کا تو کام ہے کہ دشمنوں کے خلاف اپنی کارروائیاں کرے ، اِس لیے میری یہ شکایت تو اپنے حکمرانوں اور کرتا دھرتاوں سے ہے۔ آپ کے ملک کے 1147 معصوم افراد صرف اِس لیے مرگئے کہ دشمن کا نشانہ چوک گیا ، تو کیا آپ کچھ خیر خبر لینگے یا پھر سب چلتا ہے کہ مصداق خاموشی کا اختیار کرینگے؟ میری ذاتی رائے میں اگر آواز بلند کی تو اگلے 1147 معصوم لوگوں کی جان و مال کی حفاظت ممکن ہے وگرنہ کچھ عرصے بعد ہم کسی اور رپورٹ کے بارے میں بات کررہے ہونگے جس میں مزید معصوم لوگ لقمہ اجل بن گئے ہونگے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں