بات کچھ اِدھر اُدھر کی بُک ریویو ’’دل درد آشنا‘‘

صبیحہ صبا آج کے دور کی حساس شاعرہ ہیں ان کی یہ حساسیت ان کی شخصیت اور شاعری دونوں میں جھلکتی ہے۔

صبیحہ صبا آج کے دور کی حساس شاعرہ ہیں ان کی یہ حساسیت ان کی شخصیت اور شاعری دونوں میں جھلکتی ہے۔ فوٹو رضاالحق صدیقی

KARACHI:
یہ کیوں اندر کا موسم اور ہے باہر کے موسم سے
کہ جب رونق ہے ہر جانب تو ہم بیزار ملتے ہیں

صبیحہ صبا کا یہ شعر اعلان ہے کہ شاعری کی واحد اساس دکھ ہے۔ دکھ ہی وہ مظہر ہے جو انسانوں کے مابین قابل عمل رشتوں کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ رشتے ذات کے دکھ کے حوالے سے سماجی دکھ کی تفہیم میں معاون بنتے ہیں۔شاعری کا موسم لکھنے والے کے اندر کا موسم ہے۔ جب کبھی انسان کے اندر کا موسم معروضی حالات کے تحت جسم و جاں میں شورش بپا کرتا ہے تو یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب شاعری جنم لیتی ہے اور یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسان کے اندر سے ایک چیخ برآمد ہوتی ہے اور یہی لمحات ہوتے ہیں دکھ کے، اداسی کے ۔
چہرے کا ہر کرب دکھائی دیتا ہے
خاموشی کا شور سنائی دیتا ہے

چہرے پر ابھرنے والی درد و کرب کی لکیروں کا اظہا تو کلاسک فارسی اور اردو شاعری میں کئی انداز میں پہلے بھی استعمال ہوا ہے لیکن اس شعر کے مصرعِِ ثانی میں بالکل تازہ اور نئی بات آئی، اور بہت سلیقے اور جمال کے ساتھ آئی،خاموشی کا شورمعنویت کے اعتبار سے وارداتِ نو ہے،ایسا شعر کہنے والا اردو غزل کی پہلی صف میںبڑی قامت کا شاعر ہونے کا حق رکھتا ہے۔

خاموشی کا شور سننے کی کیفیت کا سچا باطنی تجربہ ایک پوری محسوس کیفیت بن کر سامنے آتا ہے اس میں جذب اور احساس کی صداقت بھی ہے اور بیان کی تازہ کاری بھی۔
وہی میری وجہِ عروج تھا وہی میری وجہِ زوال تھا
وہی وجہِ رنگِ طرب رہا، وہی وجہِ حزن و ملال تھا

صبیحہ صبا کی شاعری کا ایک رنگ تو یہ ہے جس کا ذکر میں نے کیا لیکن ان کی شاعری کا دوسرا رخ اس حزن و یاس کے برعکس ہے جہاں وہ انقلابی فضا کی عکاس نظر آتی ہیں،یہ وہی فضا ہے جسے فیض احمد فیض کی شاعری نے نمایاںتبدیل شدہ ادبی رحجان دیا جس کی تقلید اس وقت کے نوجوان شعراء نے کی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کہ اس رحجان کی تقلید میںخواتین شعراء نظر نہیں آتیںان کے ہاں رومانی شاعری کا عنصر زیادہ ہوتاہے۔ور آلام انہیں بغاوت پر مجبور کر دیتے ہیںاور یہ وہی رحجان ہے جو فیٖض احمد فیض ،احسان دانش اور حبیب جالب کے ہاں پایا جاتا ہے۔
صرف ریشم نہیں تلوار بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ جو مظلوم ہیں خونخوار بھی ہو سکتے ہیں
میرے شہروں میں قیامت سی مچانے والے

ہاتھ باندھے پسِ دیوار بھی ہو سکتے ہیں

شاعری کے لئے بہت ہی متنوع خیالات اور معتدل نظریات کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاعری خاص طور پرغزل ایک انتہائی لطیف صنفِ سخن ہے۔ تجربات و مشاہدات کے لئے ایک بہت پیارے اور غیر معمولی حد تک معتدل لسانی عمل کی ضرورت ہے۔ زندگی کی رعنائیوں، رنگینیوں اور شادمانیوں کو اپنے من میں ڈوب کر ان کو حقیقت کا سراغ پانے کی حد تک تلاش کرنا پڑتا ہے۔

صبیحہ صبا کی شاعری کی اٹھان پنجاب کے شہر ساہیوال سے ہوئی۔ پنجاب کا خاص کلچر اور گھر کے ادب دوست اردو ماحول نے ان کی شاعری کو جہاں لطیف نازکی بخشی وہیں تجربات و مشاہدات کے معتدلانہ عمل نے پنجاب کے اجتماعی مزاج کی خوشبو کے رنگ ان کی شاعری میں بکھیر دئیے۔ان کے شریک حیات سید صغیر احمد جعفری کی ادب دوستی نے بھی ان کی شاعری کو جلا بخشی ۔ صبیحہ صبا آج کے دور کی حساس شاعرہ ہیں ان کی یہ حساسیت ان کی شخصیت اور شاعری دونوں میں جھلکتی ہے۔ان کی شاعری کے پس منظر میں ان کے ذہنی رویوں کا عکس نمایاں ہے۔
چپ چاپ فضا ہے کوئی ہلچل بھی نہیں ہے
کیا کوئی یہاں درد سے بے کل بھی نہیں ہے
بے حس ہیں یا ظالم کی حمایت میں کھڑے ہیں
پیشانی پہ حیرت ہے کہ اک بل بھی نہیں ہے

صبیحہ صبا کا سب سے اہم موضوع ہماری سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی اور اس کے مسائل و مصائب کے حوالے سے ہے، اور یہاں بھی ان کا انداز ایک درد مند دل رکھنے والے ذی روح کا سا ہے۔
یقین رکھ سبھی منظر بدلنے والے ہیں
قدم ملا کے سبھی ساتھ چلنے والے ہیں

صبیحہ صبا الفاظ سے تصویر کشی کرتی ہیں اور جس ماحول میں سانس لے رہی ہیں اور معاشرے کی جو تصویر دیکھتی ہیں اسے اپنے داخلی جذبات اور احساسات کی روشنی میں جلا دے کر قرطاس پر بکھیر دیتی ہیں۔

دل درد آشنا،شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے پڑھنے کی چیز ہے۔اس کتاب کے صفحات 240ہیں ہیں قیمت 300روپے ہے اور اسے اردو منزل پبلیکیشنز،-121بی, بلاک 2،پی ای سی ایچ ایس سوسا ئٹی کراچی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story